اسلام آباد (ایکسکلوژو رپورٹ ) پانامہ لیکس کے معاملے پراس وقت پورے پاکستان کی نظر ہے اور ہر کسی کو بڑی شدت سے 5رکنی بینچ کے فیصلے کا انتظار ہے ۔ تفصیلات کے مطابق آج بھی معمول کے مطابق کارروائی ہوئی جس میں آج ایک بڑا قدام یہ دیکھنے میں آیا کہ مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز نے اپنا جواب جمع کرایا ۔
آج سپریم کورٹ میں ایک سوال بھی اٹھایا گیا کہ عدالت میں اس سے پہلے بھی 600سے 800معاملے چل رہے ہیں تو پھر وزیر اعظم نواز شریف کے معاملے کو پہلے کیوںنمٹایا جا رہا ہے ؟ جس پر سپریم کورٹ کی جاناب سے جواب آیا کہ وزیر اعظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا اس لئے ان کا معاملہ پہلے دیکھ رہے ہیں ۔ اس حوالے سے انہوں نے حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ ؓ کے دورِ حکومت میں بھی آپ نے خود کو ایک عام سے شخص کے سامنے ایک چادر کے معاملے پرخود کو احتساب کیلئے پیش کیا اور دنیا کے لئے ایک مثال پیش کی کہ حاکم وقت دوسروں سےبرتر نہیں ہوتا ۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سیاسی راہنماؤں کو احاطہ عدالت میں میڈیا سے بات کرنے سے روک دیا ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل سلمان بٹ نے عدالت عظمی سے استدعا کی ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں میڈیا گفتگو سے روکا جائے ۔تفصیلات کے مطابق پیر کے روز سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل سلمان بٹ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ سیاسی رہنماؤں کو احاطہ عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرنے سے روکا جائے چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل19 کا اعادہ سے میڈیا کے اختیارات کمنہیں کریں گے یہ زیر سماعت مقدمہ ہے اس پر بحث نہیں ہونی چاہئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر پابندی لگانے کا نہیں کہہ رہے لیکن میڈیا اپنی ذمہ داری کاخود احساس کرے ۔بعض میڈیا اینکرز تو کیس پر فیصلہ دے چکے ہیں میڈیا ہی تبصروں سے عدالتی کارروائی متاثر ہو سکتی ہے چیف جسٹس نے ایک شعر بھی پڑھا ۔ آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں ، کچھ ہم نے کہا کہ تو آپ کو شکایت ہو گی ۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ سیاسی رہنماؤں کو سپریم کورٹ کے احاطے میںپریس کانفرنسز کرنے سے گریز کرنا چاہئے ہم نے گزشتہ دنوں دیکھا کہ احاطہ عدالت میں لڑائی ہونے والی تھی شکر ہے شیخ رشید بیچ میں آ ئے اور بچ بچاؤ کرا لیا ۔
چیف جسٹس آف پاکستان نےپوری قوم کے دل جیت لئے
7
نومبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں