جمعہ‬‮ ، 22 اگست‬‮ 2025 

اب فورنزک آڈٹ کے ساتھ ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہونے ہیں،ن لیگ کا شدید ترین موقف جاری

datetime 1  مئی‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(نیوز ڈیسک ) پاکستان مسلم لیگ (ن)نے کہا ہے کہ ہمیں فورنزک آڈٹ سے نہ ڈرایا جائے ، ہم چار مرتبہ اس سے گزر چکے ہیں،ابھی کچھ لوگ ہیں جنکے ڈی این اے ٹیسٹ ہونا ہے انہیں فکر کرنی چاہیے ،عمران خان شیشے کے گھر میں پتھر ماریں گے تو جواب میں بھی پتھر ہی آئینگے جو انکے گھر کو چکنا چور کر دیں گے،قوم جانتی ہے کہ کس کے سینے میں پاکستان کی ترقی کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے ، عمران خان کی پس پردہ جو سیاست ہے وہ سب جانتے ہیں،عمران خان کی تمام اے ٹی ایم مشینیں مل کر بھی اپنی دولت سے ایسا ربڑ نہیں بنا سکتیں جو پاکستان کی ترقی کی تاریخ سے نواز شریف کا نام مٹا سکیں ،ہماری تیسری نسل مسلم لیگ کا جھنڈا تھامنے کے لئے تیار ہے جبکہ عمران خان کے جھنڈے کے ابھی سے حصے بخرے کئے جارہے ہیں، جہانگیر خان ترین کہتے ہیں کہ انہوں نے 2014ء میں 52کروڑ باہر بھجوائے جبکہ حیرانی کی بات ہے کہ انہوں نے پراپرٹی اور آف شور کمپنیاں 2011ء میں خریدیں ۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز نے 180ایچ ماڈل ٹاؤن میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ پرویز رشید نے کہا کہ آج پرانے جھوٹ کو قبروں سے نکال کر زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔مشرف کے زمانے کی نا انصافی اور جبر کے باعث شریف خاندان کے بچوں کو پاکستان آنے سے روکدیا گیا تھا ۔اس زمانے میں جب انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کر تھی اور عملی زندگی کا آغاز کرنے جارہے تھے تو اس دور میں نواز شریف کے دونوں بیٹوں کے پاسپورٹ ضبط کر لئے گئے ۔ مشرف کے جبر کے نیچے بڑا بیٹا حسین نواز جدہ جبکہ چھوٹا بیٹا حسن لندن میں مقید ہو کر رہ گیا اور دونوں نے وہیں سے اپنی زندگی کا آغاز کیا ۔ ۔ میاں محمد شریف جلا وطنی کے دوران میں ہی زندگی محروم ہو گئے حالانکہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میاں محمد شریف نے اپنی محنت سے 1936ء میں سٹیل کا کاروبار شروع کیا اور یہ صرف مغربی پاکستان نہیں بلکہ مشرقی پاکستان میں موجود تھا اور دونوں جگہوں پر ہزاروں لوگ کام کر رہے تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں پاکستان کی بڑی صنعتوں کو سرکاری قبضے میں لے لیا ۔ اتفاق فاؤنڈری ملک کی بڑی صنعتیں تھیں تو انہیں قبضے میں لیا گیا ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد شیخ مجیب نے فیکٹر ی کو جبکہ مغربی پاکستان میں جو اپنے وقت کا سب سے بڑا کارخانہ تھا اسے بھٹو نے اپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس وقت شریف خاندان نہ سیاست اور نہ ہی حکومت میں تھا ۔اس وقت بھی ان کی ملکیت اربوں میں تھی ،اس وقت اس کے اربوں روپے کے اثاثوں کا کیوں نہیں پوچھا گیا۔ آج عمران خان کی اے ٹی ایم مشین ون ،ٹو اور آگے بڑھاتے جائیں تو 10اور 11تک چلے جائیں گے ان سے پوچھیں کیا ان کے کارخانے سرکاری تحویل میں لئے گئے ،میں انکے والدین کی بات تو نہیں کرتا لیکن ان سے پوچھتا ہوں کہ ان کے پاس کیا تھا کیا وہ اس وقت ٹیکسز دیتے تھے ۔ شریف خاندان کے ٹیکسز تو درکناراصل اثاثوں کو ہی قبضے میں لے لیا گیا یہ بتائیں یہ اس وقت کتنا ٹیکس دیتے تھے ۔ اس کے بعد نہ صرف میاں محمد شریف نے دبئی میں کارخانہ لگایا بلکہ پاکستان میں مزید چھ کارخانے لگائے اس وقت تو شریف خاندان حکومت اور سیاست میں نہیں تھا اس وقت سیڈ منی کہاں سے آئی تھی ۔اس وقت بھٹو نے کیوں نہیں پوچھا کہ دبئی میں اور مغربی پاکستان میں مزید چھ کارخانے لگا دئیے گئے ہیں اس میں ہزاروں لوگوں کو روزگار دیا گیا ہے ،اربوں روپے کا ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہو رہا ہے ملکی پیداوار بڑھانا شروع کر دی ہے اس وقت سیڈ منی کا کیوں نہیں پوچھا کہ یہ کہاں سے آئی ۔ بینظیر بھٹو کے دور میں احتساب ہوا او ر72سال کے بزرگ میاں محمد شریف کو دفتر سے گرفتار کیا گیا ۔ اس وقت حمزہ شہباز شریف کی عمر صرف 16برس تھی اسے گرفتار کیا گیا کیا یہ احتساب نہیں تھا تو کیا تھا؟۔ میاں شریف ،شہباز شریف ، عباس شریف ،حمزہ شہباز شریف جیل میں تھے ۔ دادے سے لے کر پوتے تک کو جیل میں رکھا گیا اس سے کڑا احتساب او رکیا ہو سکتا ہے ۔ کیا اس احتساب کا ٰحساب دیں گے ، جو آج انصاف کے علمبردار بنے ہوئے ہیں کیا وہ اس احتساب کا انصاف دیں گے ۔ بینظیر بھٹو کا دوسرا دور آیا پھر احتساب کیا گیا لیکن ہم نے کبھی اس کا ذکر نہیں لیکن آج گند اچھالا جارہا ہے ۔ مشرف کا دور آیا تو اس نے پورے خاندان کو احتساب کا نشانہ بنایا اور تین نسلوں کو ملک سے جبر ی جلا وطن کر دیا ۔ ماڈل ٹاؤن کا گھر اس وقت سے ہے جب نواز شریف سیاست میں بھی نہیں آئے تھے اور سکول جاتے تھے ۔مشرف نے اس گھر کو قبضے میں لیکر کے اسے بزرگوں کے رہنے کیلئے مسکن بنا دیا ۔ مشرف کے دور میں ایک ایک کاغذکا فورنزک آڈٹ ہوا ۔ ہمیں فورنزک آڈٹ کے نام سے نہ ڈرایا جائے ۔ بینظیر بھٹو کے دور میں ہما را دو بار فورنزک آڈٹ ہوا ، کائرہ صاحب کو بھی آج فورنزک کا نام آ گیا ہے ۔ کیامشرف کے دور میں فورنزک آڈٹ نہیں ہوا ،ہمارا چار مرتبہ فورنزک آڈٹ ہوا جبکہ بھٹو کے دور میں سارے اثاثوں پر قبضہ کر لیا گیا ۔ جب شریف خاندان کو کارخانے واپس کئے گئے تو مشینری تو دور کی بات ان کی چمنیاں بھی گل سڑ چکی تھیں ۔ ہمیں فورنزک آڈٹ کے نام سے نہ ڈرائیں ،ابھی کچھ لوگ ہیں جنکے ڈی این اے ٹیسٹ ہونا ہے انہیں فکر کرنی چاہیے ۔ نواز شریف کے والد، والدہ، بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں ، داماد اور انکے بچوں کو بے سر و سامانی کے عالم میں جدہ بھیج دیا گیا ۔ عمران خان نے اس وقت تو مشرف سے سوال نہیں اٹھایا اور اس وقت ہاتھ باندھ کر مشرف کے ریفرنڈم کے لئے ووٹ مانگ رہے تھے ،کیا اس وقت آپ میں اخلاقی جرات تھی کہ آپ مشرف سے سوال کرتے کہ کیوں آپ نے تین نسلوںں کو ملک سے جبری باہر بھجوا دیا ۔ انکے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا ،وہ گزارہ کس طرح کریں گے ،کیا اخلاقیات کا تقاضہ نہیں تھاکہ آپ اس سے پوچھے لیکن آپ ظالم کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا خاندان محنت کشوں کا خاندان ہے اور ہم سب نے ساری زندگی محنت کی ہے ۔ ہم نے سیاست ،خدمت اور محنت کی ہے اور اس کی گواہی ملک کے چپے چپے سے ملے گی ۔ ہم نے ہاتھ نیں پھیلائے ،بیچارگی ،مفلسی اور بے سرو سمانی کا رونا نہیں رویااور کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ ہم نے مشرف اور بی بی کے ادووار میں سوالوں کے جواب دئیے آج ہم پوچھتے ہیں آپ جواب دیں ۔ ہم نے خود کو سپریم کورٹ کے کمیشن کے سامنے پیش کر دیا ۔ ایک دوست کہہ رہا ہے کہ کمیشن کو با اختیار بنایا جائے ۔ اسے شاید کمیشن کا پتہ نہیں ،کمیشن لینے والا کمیشن نہیں ۔ ہماری ڈکشنری میں کمیشن سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل ہے ۔جو ان کی ڈکشنری میں کمیشن ہے وہ جیب میں آ جاتا ہے اور ہم جس کمیشن کی بات کر رہے ہیں وہ جیب میں نہیں آتا بلکہ وہ احتساب کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا کیونکہ ہمارا دامن صاف تھا لیکن جن کے دامن داغدار ہیں جو ضمیر کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جو اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں او رانہیں اپنے کرتو ت نظر آتے ہیں وہ اس سے بھاگ رہے ہیں اور بہانہ سازی کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رمضان شوگر ملز 1985ء میں لگائی گئی اور اسے شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز چلاتے ہیں اس وقت اس کی استعداد8ہزار ٹن گنا کرش کرنے کی تھی اور یہ آج بھی اتنا ہی گنا کرش کرتی ہے ۔ جہانگیر ترین نے آٹھ سال بعد 1993ء میں شوگر مل لگائی جس کی استعداد اس وقت چارہزار ٹن گنا کرش کرنے تھی جو سات ہزار پر چلی گئی اب آٹھ ہزار ٹن پر پہنچ چکی ہے اور دو پاور پلانٹ بھی لگالئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین نے 52کروڑ روپے 2014ء میں باہر بھجوائے لیکن لندن میں فلیٹ اور آف شو رکمپنیاں 2011ء میں خریدی لی گئی ،حیرانی کی بات ہے کہ پیسے بعد میں باہر گئے اور خریداری پہلے کر لی گئی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان ہر جگہ کھڑے ہو کر پیسہ باہر بھیجنے کو لعنت اور ملامت کرتے تھے لیکن آج وہی اے ٹی ایم مشین عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے اور وہاں سے عمران خان کی سیاست کے لئے روز پیسے نکلتے ہیں ۔ اس وقت عمران خان بھاشن دیتے تھے اور مبلغ بنے ہوئے تھے ،کیا ان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے ، کیا آپ کو اپنی دائیں طرف کھڑا وہ شخص نظر نہیں آرہا ۔ آج جرم کرنے والا ان کی بغل میں کھڑا ہے ۔جہانگیر ترین اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں وہ عمران خان کی سیاست کے سہولت کار ہیں اور انکے کچن سے لے کر جہاز تک کا خرچہ پورا کرتا ہوں ۔ عمران خان ایسے ہوتے ہیں جیسے ویٹی کن سٹی کا پوپ نکل آیا ہے اور انکے ساتھ ننز کھڑی ہیں اور باقی لوگوں کے ساتھ شیطان کھڑے ہیں ۔ خان صاحب جواب دیں 52کروڑ کب واپس آئے گا؟ ۔ آپ بتائیں کہ جہانگیر خان ترین نے یہ بات آپ سے چھپائی ۔ آپ تو سیاست میں کاروبار کے مخالف ہیں۔ آپکے اطراف اور پیچھے بھی اے ٹی ایم مشینیں کھڑی ہیں ۔ آپ کے دائیں او ربائیں کھڑی اے ٹی ایم مشینوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ انہوں نے پیسے باہر بھجوائے ہیں ۔ آپ ہم سے سوال پوچھے ہیں ہم فوری جواب دیتے ہیں آپ بھی لاہور کے لوگوں کو بتائیں کہ پاکستان کا باہر بھجوایا جانے والا پیسہ آپ کے علم میں تھا یا نہیں اگر نہیں تھا یا اگر آپ سے چھپاتے ہیں لیکن وہ آپ کے بغل میں کھڑے ہیں ہیںآپ ان پر اعتماد کیسے کرتے ہیں ۔ اگر آپ کے لوگ باہر سرمایہ کاری کریں تو آپ کو درست لگتا ہے تو پھر آپ وسروں پر کیسے اعتراض کرتے ہیں ۔ کیا آپ کی اے ٹی ایم مشین درست اور باقی پاکستانیوں سے غلطی ہو گئی ۔ جب الزام تھا تو آپ کہتے تھے اس سے بڑا جرم نہیں اور جب آپ کی اے ٹی ایم مشین کا ثابت ہو گیا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ دنیا میں اس سے اچھا کام نہیں اوراسے آپ بچوں کا تحفظ بتاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں عمران خان سے سوال کر سکتا ہوں آپ کے سسر کیوں الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے ۔ آپ لندن میں جس پراپرٹی میں ٹھہرتے ہیں جو گولڈ سمتھ کی پراپرٹی ہے جہاں آپ کے بچے پل بڑھ رہے ہیں آپ اس علاقے کا نام لے لیں کیونکہ اگر اس علاقے کاکسی مسلمان کی زبان پر نام آ جائے تو اسے وضو کرنا پڑتا ہے ،اگر عمران خان نام بتا دیں تو انہیں وضو کرنا پڑ جائے لیکن اگر وہ وضوکرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اگر آپ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر ماریں گے تو جواب میں بھی پتھر آئیں گے جو آپ کے گھر کو چکنا چور کر یں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے تین سال کے عمل سے مجبور کر رہے ہیں کہ ہم اس سیاست پر مجبور ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ اب کہہ رہے ہیں کہ آپ کو ٹی او آر قبول نہیں کیونکہ اس میں قرضے معاف کرانے والوں کا ذکر ہوا ہے ۔ اسی زمانے میں پیسے باہر گئے جس وقت وہاں پراپرٹیاں خرید گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ میں قرضہ ادا نہیں کر سکتا کیونکہ میں غریب ترین ہوں ۔ یہ کن کے پیسے تھے یہ پاکستان کے مزدور ، کسان ، تاجر ، دکاندار ، پروفیسر ، وکیل اور پنشنر کی بچت تھی ،جب 52کروڑ باہر بھیجنے ہوں تو آپ امیر اترین ہیں اور جب قرضے واپس کرنے ہوں تو آپ غریب ترین ہیں ۔ عمران خان کی دوسری اے ٹی ایم مشین جسے نوجوانوں کی پارٹی کہتے ہیں اس میں سارے میری عمر کے نوجوان ہیں ۔ مسلم لیگ کی تیسری نسل اس کا جھنڈا سنبھالنے کیلئے تیار ہے جبکہ آپ کا جھنڈا کس کے ہاتھ میں جائے گاکوئی پتہ نہیں ،کوئی سندھ میں جا کر ، کوئی لاہور ، کوئی فیصل آباد میں جھنڈا لے کر جارہا ہے آپ کے جھنڈے کو چیڑ پھاڑ دیا گیا ہے اور اسکے حصے بخرے ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گر عمران خان میں اخلاقی جرات ہے تو جو سوال اٹھائے ہیں ان کا جواب دیں اگر وہ سوالوں سے بھاگیں گے تو یہ سوا ل ان کا پیچھا کریں گے بلکہ ان میں مزید شامل ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ آپ کے گناہوں کی داستان بہت طویل ہے ۔ آپ کو اس وقت جلسے اور احتجاج یاد آ گیا ہے جب پاکستان نے کروٹ لی ہے ۔ جب 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آرہی ہے ، پاکستان سے اندھیرے ختم کرنے کے لئے بجلی کے کارخانے لگ رہے ہیں ۔ گوادر سے خنجراب تک سڑجوں کی تعمیر شروع ہوئی ہے آپ کو یہ قصے یاد آ گئے ہیں آپ کو استعفیٰ لینے کے سبق آ گئے ہیں ۔ آپ جو سیاست کر رہے ہیں عوام اس سیاست کو سمجھتے ہیں ۔ چھ ایٹمی دھماکے کر کے ملک کو دفاعی خود کفیل کرنے والے وزیر اعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر کس کو خوش کیا گیا عوا م اس بات کو سمجھتے ہیں ۔ اب 46ارب ڈالر کی سرمایہ کار ی کو رکونے کی تجویز کون کر رہا ہے ، کون ہے جس کے سینے میں پاکستان کی ترقی کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اور انہیں ہضم نہیں ہو رہی ۔ یہ سازشیں ماضی میں بھی کامیاب نہیں ہوئیں اب بھی نہیں ہوں گی۔ہم لانڈھی جیل ، اٹک جیل اور جدہ سے سر خرو ہوئے ۔ کنٹینر سازش سے بھی سر خرو ہوئے ۔ ایسی کوئی ربڑ نہیں بنا جو پاکستان کی تاریخ سے نواز شریف کا نام نکال سکتی ہو ۔ آپ کی اے ٹی ایم مشینیں اپنی ساری دولت لگا کر ایسی ربڑ نہیں بنا سکتیں جو نواز شریف کے نام کو مٹا سکیں ۔ نواز شریف کا نام ہمیشہ زندہ رہیگا ۔ جب بھی ایٹمی دھماکوں، موٹر وے ، گوادر بند ر گاہ کا نام آئے گا تو نواز شریف کا نام آئے گا ،آج لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی بات ہوتی ہے تو عوام نواز شریف کی طرف دیکھتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کے پیچھے چھپی طاقتوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے صرف حماقت نظر آرہی ہے ۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں تمام ادارے اپنے آئینی حدود میں رہ کر کام کر رہے ہیں ۔ اگر کسی ملک کا وزیر اعظم کوئی بات کرتا ہے تو وہ بین الاقوامی خبر بن جاتی ہے ۔ بین الاقوامی ساز ش ہے کہ تصادم کرایا جائے ۔ اس میں کچھ مقامی اداکار بھی شامل ہیں ۔ ان کی کوشش ہے کہ سی پیک منصوبے کو ناکام بنایا جائے جمہوریت ناکام ہو جائے او رکشمکش شروع کر دی جائے ۔ پاکستان سنبھلنا شروع ہوا ہے، منتشر پاکستان متحد ہوا ہے لیکن سازشیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے دشمن اس کی ترقی کے خواہ نہیں اور وہ خطے میں اپنی بالا دستی چاہتے ہیں ۔ کچھ نہیں چاہتے کہ ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے دفاع میں خود کفیل پاکستان معاشی طور پر خود کفیل ہو جائے اس لئے اسے روکنے کے لئے افواہ سازی کی جاتی ہیں ۔ انہوں نے بلاول بھٹو کی کوٹلی میں تقریر میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر تنقید کے حوالے سے کہا کہ مودی ایک ملک کے منتخب وزیر اعظم اور نواز شریف بھی ایک ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں وہ آپس میں ریاستوں کے مفاد میں ملتے ہیں ،کیا ذوالفقار بھٹو شملہ میں تین دن مہمان نہیں بنے تھے ۔بلاول بھٹو کو نہیں پتہ کہ شیخ رشید ان کی والدہ کو کن الفاظ سے پکارتے تھے اور پارلیمنٹ میں انکی والدہ کے آنسو نکل آئے تھے ۔ انکے نواسے جس شہید بھٹو کا ذکر کرتے ہیں انہیں پھانسی دلوانے میں کن کن کا ہاتھ تھا اور کن کن ہاتھوں پر خون لگا ہوا ہے اگر وہ شیخ صاحب کے ہاتھ دیکھیں گے تو اس پر انہیں خون نظر آئے گا اور اگر ان کی باتیں سنیں گے تو انہیں ان میں وہ گالیاں نظر آئیں گی جو وہ انکی والدہ کو دیتے تھے ۔ شیخ صاحب نے کہا ہے کہ بلاول ان سے ملنے کے بعد ان کے فین ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے ذوالفقا رعلی بھٹو کی طرف سے شریف خاندان کی صنعتیں قومیائے جانے کے بعد دوبارہ کاروبار کے لئے رقم کے انتظام کے سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت نواز شریف کی عمر 22سال تھی اور وہ لاء کالج کے سٹوڈنٹ تھے اس وقت وہ سیاست میں نہیں تھے ۔ نواز شریف 1983میں سیاست میں آئے ۔ کاروبار کریڈیبلٹی پر ہوتا ہے ضروری نہیں کہ کارخانہ سرمائے سے لگایا جائے آپ کی شناخت بھی بڑی اہم ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے کی سیاست نہیں کی ۔ ہم2013ء میں آئے تو 2014ء میں ہمیں کہا گیا کہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں اور یہ نظام کو تلپٹ کرنے کی سیاست ہے ۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہاہے کہ ہمیں کوئی شک نہیں حملہ نوازشریف پر لیکن ہدف پاک چین اقتصادی راہداری ہے ،شائد عمران خان ہٹ دھرمی میں پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں ،شائد ان کا ذہنی توازن گڑ بڑ ہے ۔عمران خان آپ لندن میں پاکستان کے امیدوار کے مقابلے میں ایک یہودی کی مہم چلا رہے ہیں ،عمران خان نے دھاندلی کا طوفان کھڑا کر کے پاکستان کو بے توقیر کیا ۔ان کا کہناتھا کہ نوازشریف تو دہائیوں سے کاروبار کرر ہے ہیں ان کے اثاثے تو سمجھ آتے ہیں آپ کونسا کاروبار کر ہے ہیں ،آپ کے اور نوازشریف کے اثاثوں میں چند کروڑ روپے کا ہی فرق ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیاست کے میدان میں ایک ایسا شخص آ گیا ہے جو ہٹ دھرمی،صد اور دروغ گوئی کے امراض میں مبتلا ہے ۔اس سے پہلے جو کچھ عمران خان نے کیا وہ سب کومعلوم ہے ،عمران خان کی پارلیمانی زندگی صر ف آٹھ سال کی ہے ،عمران خان نے جمہوریت کیلئے کتنی جیلیں کاٹیں ؟،جمہوریت کیلئے انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کیا کیا؟۔خواجہ سعد رفیق کا کہناتھا کہ عمران خان آج تک پارلیمنٹ میں کوئی بل یا تحریک لے کر نہیں آئے ،ناچ ناچ کر احتجاج تو کوئی اور کرتا تھا لیکن اب یہ پی ٹی آئی کا ٹرینڈ بن گیاہے ۔ان کا کہناتھا کہ عمران خان سے پشاور کے چوہے مارے نہیں جاتے ہم نے لاہور میں ڈینگی ختم کیا ،جو چوہے نہیں مار سکتے وہ شیروں کا مقابلہ کیا کریں گے ،ہم لوہے کے چنے ہیں جس نے چبانے کی کوشش کی وہ ہڈی تڑوا بیٹھا ،عمران خان 74لاکھ ووٹوں کو سنبھالیں یہ نہ ہو کہ وہ بھی ہاتھ سے نکل جائیں ،خان صاحب سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ۔انہوں نے کہا کہ بند کمرے میں کالی عینک لگا کر اجلاس کیے جاتے ہیں ،کالا چشمہ پی ٹی آئی کا برانڈ بن گیاہے ۔جو شخص شیخ رشید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی بجائے کالا چشمہ لگائے وہ کیا سیاست کرے گا۔عمران خان نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔عدالتیں چوکوں پر لگانی ہے تو اصل عدالتیں ختم کردیں۔چوہدری اعتزاز احسن نے نوازشریف کے اثاثے دیکھنے ہیں تو الیکشن کمیشن سے مل جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کو صحیح مشورے نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے پرویز مشرف کا سخت ترین احتساب جھیلا وہ بے بی بلاول کے آگے سر نگوں کیا ہوں گے ۔ عمران خان کو بھی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ نواز شریف پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ووٹوں سے نہیں وزیر اعظم نہیں بنے ۔اسمبلی میں عددی برتری ثابت کریں ۔ آپ کو 74لاکھ ووٹ ملے ہیں تو انہیں بڑھائیں یہ نہ ہو ان میں سے دو صفرے کم ہو جائیں۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی فارغ ہو گئی ہے آپ بھی فارغ ہو گئے تو ہم کس سے مقابلہ کریں گے۔ طلال چوہدری نے کہا کہ عمران خان علیم بچاؤ اے ٹی ایم چلاؤ ، ترین بچاؤ جہاز اڑاؤ مہم چلا رہے ہیں ۔عمران خان ٹی او آرز میں تبدیلی چاہتے ہیں تاکہ ان کی اے ٹی ایم مشینیں بچ جائیں لیکن ایسا ہر گز نہیں کرنے دیں گے ،اب سب کا احتساب ہو گا ۔طلال چوہدری الزام عائد کیا کہ عمران خان سفید رنگ کی جو دوائی پیتے ہیں ،وہ بھی بہت مہنگی ہے ۔ عمران خان ایک فورنزک آڈٹ کی بات کرتے ہیں لیکن اب صرف فورنزک آڈٹ نہیں ہو گا بلکہ اب ڈوپ ٹیسٹ بھی ہو گا اور ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہو گا ۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



خوشی کا پہلا میوزیم


ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…