کراچی (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی عمل درآمد کیس میں رینجرز کی جانب سے تھانےقائم کرنے ، ایف آئی آر،تفتیش اور چالا ن جمع کرانے کے اختیارات سے متعلق چیف سیکرٹری کی جوابی رپورٹ پر اپنی آبزوریشن میں قرار دیا ہے کہ یہ انتظامی معاملہ ہے جس پر سپریم کورٹ کوئی حکم نہیں دے رہی لہٰذا صوبائی ، وفاقی حکومتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر اس معاملے کو حل کریں، اداروں کا ٹکراو عوام کے وسیع تر مفاد میں نہیں۔ جبکہ دوران سماعت چیف سیکرٹری کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ رینجرز کی جانب سے تھانےقائم کرنے ، ایف آئی آر ،تفتیش اور چالان جمع کرانے کے اختیار کےمعاملے میں آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ہیں۔اس معاملے کو مشترکہ طور پر جانچنے کی ضرورت ہے۔مذکورہ تجویزپرعمل درآمد تقریبا متوازی ضابطہ فوجداری نظام کے مترادف ہوگا۔ جس میں محتاط انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ رینجرز کے خصوصی اختیارات میں چار ماہ کی توسیع مناسب اور قانون کے عین مطابق ہے جس میں باقاعدگی سے توسیع کیا جا رہی ہے۔ سندھ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پولیس ، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتی ہے اور امن و امان کی بحال میں انکے کردار کو قدر کی نظر سے دیکھتی ہے۔ دوسری جانب عدالت نے آئی جی سندھ کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو ایک بار پھر مسترد کر دیا ہے ۔ 2015میں پے رول پر چھوڑے گئے 7ملزمان میں 4انسداددہشت گردی کے تحت سزا یافتہ ہونے کے انکشاف پر عدالت کی شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری سےرینجرز رپورٹ ، پے رول پر رہا ہونے والے 4ملزمان کو چھورنے، ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات سے متعلق جامع اور تفصیلی رپورٹس طلب کر لی ہیں۔آئندہ سماعت 10مارچ کو ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ، جسٹس امیر ہانی مسلم ، جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس خلیجی عارف حسین پر مشتمل لارجر بینچ نے پیر کو کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی عملدرآ مد کیس کی سماعت کی۔سماعت کے موقع پرسند ھ رینجرز کی رپورٹ کے جواب میں چیف سیکرٹری سندھ محمد صدیق میمن نے رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کی۔ جس میں موقف اختیا رکیا گیا کہ رینجرز کی جانب سے تھانےقائم کرنے ، ایف آئی آر،تفتیش اور چالا ن جمع کرانے کے اختیار کا معاملے میںآئینی اور قانونی پیچیدگیاں ہیں۔اس معاملے کو مشترکہ طور پر جانچنے کی ضرورت ہے۔مذکورہ تجویز موجودہ قانون کے متوازی قانون بنانے کے مترادف ہے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر محتاط انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ رینجرز کے خصوصی اختیارات میں چار ماہ کی توسیع مناسب اور قانون کے عین مطابق ہے جس میں باقاعدگی سے توسیع کیا جا رہی ہے۔ سندھ حکومت نے رپورٹ میں بتایا کہ دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق کارروائیوں پر وزیر اعظم نے سند ھ حکومت کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ جبکہ سندھ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پولیس ، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتی ہے اور امن و امان کی بحالی میں انکے کردار کو قدر کی نظر سے دیکھتی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پولیس میں میر ٹ پر بھرتیوں سے متعلق اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق آرمی اور رینجرز کی مدد سے 8 ہزار پولیس اہلکار بھرتی کئے جارہےہیں۔جس میں اے ایس آئی اور اس سے اوپر عہدے پر سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اہم اداروں کے افسران کے تبادلے صرف انتظامی دباو اور ضرورت کے تحت کئے جاتے ہیں۔ جس میں افسران کی تعیناتی کا دورانیہ ہرصورت مقررہ وقت تک مکمل کرنے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔اس حوالے سے چیف سیکرٹری نے بتایا کہ محکمہ داخلہ کے سیکریٹریز کے چار مرتبہ تبادلے کی وجوہات یہ ہیں کہ عبدل کبیر قاضی کا تبادلہ نہیں بلکہ وفاقی حکومت نے برطرف کیا تھا جبکہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات اعجاز احمد خان کی گریڈ 22 میں ترقی ہوئی اسکے علاوہ حکومت سندھ آئندہ ترقیاتی بجٹ کیلئے قابل ترین آفیسر کی ضرورت تھی محمد وسیم قابل آفیسر ہیں انہیں محکمہ داخلہ سے ہٹاکر محکمہ ترقیات میں تعینات کیا گیا۔رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نےچیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ رینجرز اختیار ات پر سپریم کورٹ کوئی حکم نہیں دے گی یہ حکومتی معاملہ ہے لہٰذا صوبائی ، وفاقی حکومتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر اس معاملے کو حل کریں ۔ ا داروں کا ٹکراو عوام کے وسیع تر مفاد نہیں ہے ۔قبل ازیںدوران سماعت آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے رپورٹ پیش کی جس کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ رپورٹ کاغذ کے ٹکڑےہیں اور صرف اعدادو شمار ہیں عدالت نے گزشتہ روز حکم دیا تھا کہ سنگین نوعیت کے مقدمات کی وہ تفصیلات دی جائیں جس میں ملزمان کی گرفتار ی اور مقدمات کا پورااسٹیٹس بیان کیا گیا ہو۔ آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے کہا کہ عدالت اجازت دے تو اسکی رپورٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر بیان کر ینگے جس پر عدالت نے کہا کہ کیا کراچی آپ کے ماتحت نہیں، آئی جی سندھ نے کہا کہ کراچی کی رپورٹ کے بارے میں ایڈیشنل آئی جی کو زیادہ معلومات ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نےاپنی آبزوریشن میں قرار دیا کہ کیا آپ سے کراچی اور اندرون سندھ پر الگ الگ پوچھا جائے۔ عدالت کو بتایا جائے کہ مفرور ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا سکا آپ نے ایسے افسران چن چن کر بیٹھائےہیں کہ عدالت تک سچ پہنچ ہی نہ پائے آپ جو بیان دے رہے ہیں اسکے نتائج کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں ۔ 159ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات کی کیا پوریشن ہے ۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ یہ کل 83مقدمات ہیں جس میں سے 22کے چالان عدالت میں پیش کر دیئے گئے ہیں 4سی کلاس ہوچکے جبکہ ان مقدمات میں 39ملزمان گرفتار اور 15ملزمان پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ 56مقدمات زیر التوا ہیں جن کے چالان پیش نہیں کیے جا سکےجبکہ کوئی ایک مقدمہ بھی اے کلاس نہیں ہوا۔جنگ رپورٹر بلال احمد کے مطابق
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا ریاست کے اندر ریاست ہے ۔ جس پر آئی جی سندھ نے چیف جسٹس سےاستدعا کی کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سے گزشتہ روز سماعت کے موقع پر دیئے گئے ریمارکس پر شدید تحفظات ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ آ پ کو دوری میں نہیں رہنا چاہیے ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ ایک تحریر ی شکل میں عدالت کو دیں عدالت اس معاملے کا جائزہ لے گی۔ اس موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے چیف جسٹس کو کہا کہ آپ کے اداروں میں 2سے 3ماہ میں افسران کے تبادلے ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں افسران کام کیسے کریں گے۔ افسران کو کام کیوں نہیں کرنے دیا جا رہا۔ آپ کے افسران شدید دبائو میں ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کی رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ تھانہ درخشاں میں 15ماہ کے درمیان 7ایس ایچ او کو تبدیل کیا گیا۔ گڈ گورننس کیسے ہو گی۔ ایک ایس ایچ او تھانہ کی حدود اربعہ سمجھتا ہی ہے کہ اس کے تبادلے کا حکم آجا تا ہے۔ آپ ا س حوالے سے کوئی پالیسی مرتب کریں اور اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں ۔ چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا عرصہ ہو گیا ہے آئی جی کےعہدے پر ، آئی جی نے بتایا کہ 20ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے امن وامان کی صورتحال کو بہتر کیا ، پولیس بے مثال قربانیاں دے رہی ہے، سبین محمود سمیت دیگر اہم مقدمات میںملزمان کو گرفتا رکیا گیا۔ دوران سماعت ایس ایس پی انو سٹی گیشن نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے گزشتہ 15سالوں کا ریکارڈ نکلوایا جس سے معلوم ہوا کہ اس عرصے میں 15ہزار قتل کے مقدمات درج ہوئے جس میں 7ہزار ملزمان کو گرفتا رکیا گیا جبکہ بقیہ مقدمات کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ افسران کی تقرریوں اور تبادلوں میں کوئی نظم وضبط نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مرضی کا حکم نہ مانے اسے تبدیل کر دیا جائے ۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ پولیس میں یہ ایک سنگین معاملہ ہے ۔ جو نہ صرف سندھ میں ہے بلکہ پنجاب میں بھی یہ ہو رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پنجاب میں ہو رہا ہے تو پنجاب والے اس کا جواب دیں گے ۔ ایک غلطی پر دوسری غلطی کی کوئی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ جسٹس خلیجی عارف حسین نے کہا کہ اگر ایسی روایت چلی آرہی ہے تو کیا مزید 100سال تک چلے گی ۔ اس کی کیا وجو ہات ہیں ۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر طارق اسلام اغواء کیس میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر کب درج ہوئی آئی جی سندھ نے بتایا کہ کل درج کی گئی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ حکم دے تب کارروائی ہو گی ۔ گڈ گورننس حکومت کا کام ہے کیا ہمیں اچھا لگتا ہے کہ آئی جی سندھ اور چیف سیکرٹری کو بلا کر کھڑا رکھیں مگر ہماری مجبوری ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ یہ معاملہ ایڈیشل آئی جی ثنا اللہ عباسی کے علم میںتھا مگر انہوںنے نہیں بتایا جس پر انکے خلاف کارروائی کی گئی ہے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس کی جواب طلبی متعلقہ ایس پی سے ہونی چاہے تھی وہ اسکے ذمہ دارہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدلیہ میں کوئی غلط کام ہو گا تو اس کی ذمہ داری چیف جسٹس کی ہو گی اور اگر پولیس میں ایسا کوئی کام ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری آئی جی سندھ کی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ کیا عدالتی حکم کے بعد بھی ملزما ن کو پے رول پر رہا کیا گیا، جس پر ڈائریکٹر پے رول نے بتایا کہ 2015میں 7ملزمان کو پے رول پر رہا کیا گیا۔ پے رول رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اس میں ایسے ملزمان بھی شامل ہیں جنہیں انسداددہشت گردی عدالت نے اغواء برائے تاوان میں عمر قید دی اور سزا 2025میں مکمل ہونا تھی مگر آپ نے ابھی چھوڑ دیا۔ ڈائریکڑ پے رول نے بتایا کہ اس کی سمری وزیر اعلی سندھ سے منظور ہوئی اور اچھے کردار کی بنا پر چھوڑا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےکہ اغواء برائے تاوان کے ملزمان کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے یہ ایک سنگین جرم ہے ۔ چیف سیکرٹری اس حوالے سےجنید رحمان،فاروق ، محمد خان سمیت 4 ملزمان کو چھوڑنے پر رپورٹ پیش کریں اور ان ملزمان کی ہسٹری بھی بتائی جائے۔عدالت نے سماعت 10مارچ کے لیے ملتوی کر تے ہوئے چیف سیکرٹری کو رینجرز رپورٹ ، پے رول پر رہا ہونے والے 4ملزمان کو چھورنے، ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات سے متعلق جامع اور تفصیلی رپورٹس طلب کر لی ہیں۔
وفاق، سندھ اور اسٹیک ہولڈرز رینجرز کے تحفظات دور کریں ، سپریم کورٹ
9
مارچ 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں