اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پنجاب کے سابق گورنر اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ حکمران جماعت ن لیگ کی غلط پالیسیوں کے باعث عوام میں نفرت کے جذبات جنم لے رہے ہیں اور اب ن لیگ کے گھر جانے کا وقت آ گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہو کر دھاندلی سے نجات حاصل کر سکتی ہیں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بحث کرنا فضول ہے۔ ان کی توسیع پر بحث ان کی مقبولیت کو کم کرنے کے لئے بار بار چھیڑی جا رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ایک سوال کے جواب میں سابق گورنر کا کہنا تھا کہ میرے اور وزیراعلیٰ کے درمیان اختیارات کے حوالے سے سرد جنگ نہیں تھی تاہم ان کی پالیسیوں پر اختلاف ضرور تھا جس میں صحت‘ تعلیم‘ تھانہ کلچر اور حصول انصاف کا معاملہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انصاف کے حصول کے لئے کبھی میاں برادران سے تقرار نہیں کی کیونکہ میں یہ جانتا تھا کہ یہ ایک آئینی عہدہ ہے جس میں گورنر کے لئے اختیارات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ میرے اختلافات صرف ن لیگ کی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں سے تھے جو آج بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت عوامی مسائل پر زرا برابر بھی توجہ نہیں دے رہی اور ان کی تکالیف کو سمجھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت حکومت سے متنفر دکھائی دیتی ہے۔ اس کی واضح مثال پیپلزپارٹی کے زوال کی بھی دی جا سکتی ہے اس کی وجہ ان کی بیڈ گوررننس تھی اور اس بیڈ گوررننس نے انہیں گھر جانے پر مجبور کیا اسی طریقے سے اب مسلم لیگ ن گڈ گوررننس نہیں دے رہی ان کو بھی یقینی طور پر گھر جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو چھوڑنے کے حوالے سے میرے خلاف پروپیگنڈے کئے گئے۔ میرا پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں جو ایسا سوچتے ہیں وہ حمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو ایک ناقابل تسخیر جماعت بنانا چاہتا ہوں اور اسے ایک ایسی پارٹی بناﺅں گا جس پر پوری قوم فخر محسوس کر سکے۔ دھرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ حکومت کی جانب سے عمران خان کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس پر بحث غیر ضروری ہے۔ آرمی چیف نے انتہائی قابل تحسین اور زبردست امور سرانجام دیئے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم انتہائی پر وقار طریقے سے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رخصت کریں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں