مظفرآباد(نیوز ڈیسک)سانحہ نکیال کے بعد آزاد کشمیر میں حالات کشیدہ ہونے کے باعث اپوزیشن نے دفعہ 56لگانے لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ آزاد حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ کوئی طاقت دفعہ 56نہیں لگا سکتی۔ وزیر اطلاعات آزاد کشمیر عابد حسین عابد کی آن لائن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہم نے بڑے بڑے آمروں کو بھی دیکھا پیپلزپارٹی کوئی زیر نہیں کر سکا، اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان کی آن لائن سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے ، آزاد حکومت کنٹرول لائن سے ملحقہ علاقوں اور شہری آبادیوں میں سکیورٹی کی ذمہ دار ہے۔ حالات جان بوجھ خراب کئے گئے۔ ڈیفنس اینڈ سکیورٹی کی مخدوش صورتحال پر حکومت پاکستان اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتی ہے تاہم ہم نہیں چاہتے کے دفعہ56کا نفاذ ہو،ممتاز ماہر قانون راجہ سجاد نے کہا کہ آزاد کشمیر کے عبوری ایکٹ 1974کی دفعہ 56کے تحت حکومت پاکستان کے پاس اختیار ہے کہ وہ آزاد کشمیر کی ڈیفنس اور سکیورٹی کی مخدوش صورتحال ، ریاستی عوام کی بے چینی ،قتل و غارت گری، پاکستانی مفادات کے خلاف اقدامات اور اختیار سے بڑھ کر قانون سازی کرنے کے بعد چیئرمین کشمیر کونسل دفعہ56کی ذیلی دفعہ31-3کے تحت آزاد حکومت کو ختم کر سکتے ہیں۔ آزاد حکومت نے دفعہ56کے لئے راہ ہموار کردی ہے یا نہیں دارالحکومت مظفرآباد سمیت آزاد کشمیر بھر کی عوام میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی۔ دفعہ56کیا ہے؟98فیصد لوگ نہیں جانتے۔ آن لائن کی خصوصی رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر کے عبوری ایکٹ 1974کی دفعہ56حکومت پاکستان کے اختیارات کے حوالے سے ہے جس کے مطابق اگر آزاد کشمیر کے داخلی امن و امان کی صورتحال آزاد حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جائے یا آزاد حکومت بذریعہ اسمبلی اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے قانون سازی کرے یا چیئرمین کشمیر کونسل کی ہدایات کو مسلسل پسے پشت ڈالے یا پاکستانی مفادات کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں عوام کی جان ومال کو خطرہ ہوتو ایسی صورت میں آزاد حکومت کو برطرف کیا جاسکتا ہے۔ دفعہ56کے نفاذ کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کے لینٹ افسران کے اختیارات بڑھ جاتے ہیں۔چیف ایگزیکٹیو یعنی وزیرا عظم کو گرفتار کر کے کابینہ تحلیل کر دی جاتی ہے اور آزاد کشمیر کے کسی سینئر ترین سیاستدان کو عبوری مدت کے لئے چیف ایگزیکٹیو یعنی عبوری وزیرا عظم مقرر کر دیا جاتا ہے۔ جو اپنی مختصر کابینہ بنائے گا اور جلد از جلد انتخابات کے انعقاد کا پابند ہوگا ۔دریں اثناءآن لائن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ چوہدری مجید اور ان کی کابینہ کے بعض وزیرا س وقت بذریعہ میڈیا اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں اور وفاق پاکستان کو للکار رہے ہیں1991میں بھی پیپلزپارٹی کے وزیرا عظم ممتاز حسین راٹھور نے اس وقت کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعدآزاد کشمیر میں دفعہ56کا نفاذ ہواتھا آج آزاد کشمیر کی صورتحال 91ءسے زیادہ بد تر ہے آزاد کشمیر میں پر امن انتخابات کا انعقاد اس حکومت کی ذمہ داری ہے جو وہ پوری نہیں کر رہی کیونکہ مجید کو خوف ہے کہ آئندہ حکومت اس کی کرپشن کا احتساب کر ے گی۔اس لئے وہ جان بوجھ کر فیڈریشن آف پاکستان کے خلاف زبان استعمال کر رہے ہیں تاکہ دفعہ56کا نفاذ ہو مگر ہم یہ نہیں چاہتے۔آن لائن سے گفتگو کر تے ہوئے سردار عابد حسین عابد نے کہا کہ آزاد کشمیر میں کسی کا باپ بھی دفعہ56نہیں لگا سکتا جس نے شوق پورا کرنا ہے کر کے دکھائے ۔ پیپلزپارٹی نے آمریت کا مقابلہ کیا ہے مسلم لیگ ن تو اپنے بقا کی جنگ لڑرہی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سردار عابد حسین عابد نے کہا کہ آزاد حکومت کے یوم سیاہ سے مقبوضہ کشمیر میں کوئی غلط پیغام نہیں جاسکتا۔ مقبوضہ کشمیر میں غلط پیغام اس وقت گیا تھا جب وفاقی وزراءنے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے خلاف غلط زبان استعمال کی تھی۔دوسری جانب ممتاز ماہرین قانون کی رائے کے مطابق آزاد حکومت نے حکومت پاکستان کو کسی بڑے اقدام ک لئے خود راستہ فراہم کر دیا ہے۔ اب چیئرمین کشمیر کونسل پر ہے کہ وہ اپنا اختیار کر تے ہیں یا نہیں ۔وفاقی پیپلزپارٹی نے آج اسلام آباد میں پارلیمانی پارٹی کے اجلا س میں اہم فیصلے کرنے ہیں۔