اسلام آباد (نیوز ڈیسک) 21ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں قائم ہونے والی فوجی عدالتیں ایک سال سے بھی کم عرصہ کے بعد 7؍ جنوری 2017ء کو اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوجائیں گی لیکن نواز شریف حکومت نے مجرموں اور دہشت گردوں کے مقدمات تیزی سے چلانے کی خاطر فوجداری نظام انصاف کو بہتر بنانے کیلئے تاحال کسی طرح کے بھی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ 21ویں آئینی ترمیم گزشتہ سال کے اوائل میں پارلیمنٹ نے ایک کڑوا گھونٹ پی کر منظور کی تھی کیونکہ موجودہ فوجداری نظام انصاف اس قدر مستحکم نہیں تھا کہ وہ دہشت گردوں کے فوری ٹرائل کے چیلنجز سے نمٹ سکے۔ جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق سیاست دانوں نے ملٹری کورٹس کے قیام پر اتفاق کرتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ وہ فوجداری نظام انصاف کی خامیوں اور ان نقائص کو دور کرے جن کی وجہ سے محدود وقت کیلئے ملٹری کورٹس بنانے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ 16؍ دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پر ہونے والے حملے کے بعد، سیاسی قیادت نے آئین میں ترمیم پر رضامندی ظاہر کی۔ 6؍ جنوری 2015ء کو قومی اسمبلی اور سینیٹ نے 21ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جس کے بعد 7؍ جنوری 2015ء کو صدر مملکت نے اس پر دستخط کر دیئے۔ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 175؍ اور پہلے شیڈول میں کی گئی۔ ان میں ایک شق ایسی رکھی گئی تھی جس کی معیاد مقرر کی گئی تھی اور یہ 7 جنوری 2017ء کو پوری ہوجائے گی۔ 21ویں آئینی ترمیم کے تحت، اس ترمیمی ایکٹ کی شقیں اس کے نفاذ کی تاریخ سے لے کر دو سال تک کیلئے کار آمد رہیں گی اور مدت مکمل کرنے کے بعد یہ آئین کا حصہ نہیں رہیں گی اور انہیں ختم سمجھا جائے گا۔ یہ دلیل دی گئی تھی کہ اُس وقت ایسی غیر معمولی صورتحال کا سامنا تھا جو خصوصی اقدامات کی متقاضی تھی تاکہ دہشت گردی، پاکستان پر جنگ مسلط کرنے اور پاکستان کے تحفظ کو درپیش خطرات کے متعلق مقدمات کا تیز ٹرائل کیا جا سکے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ دہشت گردوں، جنگجوئوں اور غیر ملکی عناصر سے پاکستان کی سالمیت کو سنگین خطرات لاحق تھے۔ ایک سال سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور اب ملٹری کورٹس ختم ہونے میں باقی 11؍ ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے لیکن وفاقی حکومت اب بھی فوجداری نظام انصاف میں بہتری لانے کیلئے مذاکرات کر رہی ہے۔ اگرچہ فوجداری نظام انصاف میں بہتری (اوور ہالنگ) کیلئے وفاق، صوبائی حکومتوں، عدلیہ اور وکلاء کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ کام پورا کرائے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجداری نظام انصاف میں بہتری لانے کیلئے کوششیں جاری ہیں لیکن انہوں نے اشارہ دیا کہ یہ کام آسان نہیں اور راتوں رات چند ترامیم کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ پولیس اور پراسیکوشن کے محکموں کو سیاست سے پاک کرنا، مقدمات ملتوی ہونے سے بچانے کیلئے وکلاء برادری کے تعاون، تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری میں ترامیم وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اٹھانا ہیں۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ مقدمات کی تیز رفتار سماعت کرے اور التواء اور تاخیر پر نظر رکھے۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے کئی قوانین اور موجودہ قوانین میں ترامیم کے بل پیش کیے گئے ہیں یا وہ وفاقی کابینہ میں زیر غور ہیں۔ تاہم، جب ان ذرائع سے پوچھا گیا کہ فوجداری نظام انصاف میں کوئی بہتری کی گئی ہے یا، صوبائی یا وفاقی سطح پر پولیس کو سیاست سے پاک کیا گیا ہے یا، پراسیکوشن محکمے کو آزاد اور موثر بنایا گیا ہے، تو ان کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا۔