لندن (نیوزڈیسک)عراقی کردستان میں انٹیلی جنس اور سکیورٹی کے سربراہ نے امید ظاہر کی ہے کہ پیرس میں ہونے والے حملے مغربی طاقتوں کو نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی کے بارے میں سنجیدہ ہونے پر مجبور کر دیں گے۔بی بی سی سے گفتگو میں مسرور برزانی نے کہا کہ اگر عالمی برادری اس مسئلے کے حل کے لیے صحیح معنوں میں متحرک ہو جائے تو نام نہاد دولت اسلامیہ کو چند مہینوں میں ہی شکست دی جا سکتی ہے۔سنجار کے نزدیک واقع کمانڈ ہیڈکوارٹرز میں بی بی سی کے نامہ نگار جِم میور سے بات کرتے ہوئے برزانی نے کہا کہ نقصانات پہنچنے کے باوجود نام نہاد دولت اسلامیہ نمایاں طور پر کمزور نہیں ہوئی ہے۔انہوںنے کہاکہ وہ امید کرتے ہیں کہ پیرس حملے صورت حال کی تبدیلی کا باعث بنیں گے اور دولتِ اسلامیہ کے مسلح جنگجوو ¿ں کے خلاف لڑائی میں مغربی طاقتیں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتی نظر آئیں گی۔یاد رہے کہ پیرس کے حملوں میں 129 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان کی ذمہ داری اس شدت پسند تنظیم نے ہی لی تھی پیرس حملوں کی ذمہ داری نام نہاد دولت اسلامیہ کی جانب سے قبول کرنے کے بعد سے شام میں ان کے ٹھکانوں پر فرانس اور روس کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں شدت آگئی ۔انہوںنے کہاکہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کمزور ہوئی ہے ¾ممکن ہے انھیں یہاں وہاں کچھ زیر قبضہ علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہو، لیکن وہ شدت پسند ہیں اور ان کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔انہوںنے کہاکہ میرے خیال میں یہ ان کی حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ اگر انھیں روکا نہ گیا اور ان پر دباو ¿ برقرار نہ رکھا گیا تو ممکن ہے کہ وہ ایسے مزید حملے کریں۔برزانی کے مطابق اگر مغربی ممالک اپنی فوجیں زمینی حملوں کے لیے نہیں بھیجنا چاہتے تو انھیں چاہیے کہ وہ شام اور عراق میں جنگجوو ¿ں کے خلاف کامیابی حاصل کرنے والی کرد فوج اور دیگر افواج کی امداد میں اضافہ کریں۔