بدھ‬‮ ، 06 اگست‬‮ 2025 

اکثر باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے خواتین کے بنیادی حقوق پامال کرتے ہیں،ریحام

datetime 18  ‬‮نومبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن(نیوزڈیسک)تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے کہاہے کہ انہوں نے عمران خان کی زندگی کا حصہ بننے کے بعد ہرلحاظ سے ان کا دفاع کیامگر اب احساس ہواہے کہ ہمارے معاشرے میں بیوی کی محبت اور وفاداری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی، پاکستانی مردوں کو عورت سے اس کے گھر کی چھت چھیننے کافیصلہ کرنے کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے، اکثر باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے محبت اور تحفظ کے نام پر خواتین کے بنیادی حقوق کو بے دردی سے پامال کرتے ہیں ، میڈیا نے میری کردار کشی کی، تعجب ہے کہ جن لوگوں سے میری ملاقات تک نہیں ہوئی کوسوں دور بیٹھ کرکیسے میرے بارے میں قابل اعتماد معلومات دیتے ہیں،خواتین زیادہ تر ساس یا بہو کی مداخلت کی شکایت کرتی ہیں لیکن شاید ’’قومی بھابھی ‘‘ہونے کا مطلب تھاکہ پورا ملک میرا سسرال ہوگیا اورہر کسی کومیرے متعلق بولنے کا اختیار حاصل ہے۔برطانوی روزنامے ’’دی گارڈین ‘‘میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ریحام خان نے لکھا کہ جب میری عمران خان سے شادی ہوئی تو اس وقت میری بہن نے ازراہ مذاق مجھ سے کہ مجھے میڈیا میں ایک تعلیمی ڈگری کی طرح ’’طلاق یافتہ ‘‘کے طورپر کیوں متعارف کیاگیا ؟۔انہوں نے کہاکہ شادی کے وقت مجھے میڈیا میں تین بچوں کی طلاق یافتہ ماں کے طورپر پیش کیاگیا لیکن مجھے حیرت ہے کہ میڈیا نے عمران خان کی جمائما گولڈ اسمتھ سے شادی او رطلاق کا کوئی تذکرہ نہیں کیا حتیٰ کہ بعض ٹی وی چینلوں نے میرے بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ بھی بریکنگ نیوز کے طورپر اسکرین پر دکھائے انہیں کوئی معلومات نہیں ملیں تو انہوں نے قیاس آرائیوں سے خالی جگہ پر کردی۔انہوں نے لکھاکہ دوسری اس با ت کا احساس ہوا کہ اگر آپ عورت ہیں تو اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ آپ کتنی تعلیم یافتہ ہیں ،کتنی قابل رشک آمدنی ہے یا کتنی پر اعتماد ہیں ایک غریب ، ان پڑھ عورت اور میرے جیسی دونوں طرح کی عورتیں خطرات کا مقابلہ کرنے کے لحاظ سے کمزور ہیں ، کوئی بھی مرد ان پر کیچڑ اچھال سکتاہے ، گالی دے سکتاہے ، آپ کے کردار پر انگلی اٹھا سکتاہے ۔اکثر باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے خواتین کے بنیادی حقوق کو بے دردی سے پامال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ محبت اور تحفظ کے نام پر ہوتاہے ۔جنوری کی جانب واپس چلتے ہیں جب عمران او رمیں اسلام آباد میں ولیمہ کی استقبالیہ تقریب کے بعد واپس گھر پہنچے تو ابھی میں نے عروسی جوڑا بھی تبدیل نہیں کیا تھا ،بتایاگیاکہ آپ نے نو بیاہتا جوڑے کے طورپر اپنا پہلا ٹی وی انٹرویو دیناہے ۔بغیر کسی تیار ی کے مجھے ہاٹ سیٹ پر بٹھا کرکروڑوں افراد کا سامنا کروایاگیا ۔ٹی وی چینل کے اینکر نے پہلا سوال یہ داغا کہ اس کی ریسرچ سے یہ معلوم ہواہے کہ آپ پہلی شادی میں گھریلو تشدد کی شکار ہوئی ہیں۔تو میں نے اس سوال کی بغیر کسی تیاری کے معقول جواب دیا کہ میں گھریلو تشدد کے تجربے سے خوفزدہ نہیں اگر چہ یہ بہت بڑا ایشو ہے ۔میں نے پہلے کبھی اپنے تجربات سے متعلق اظہار خیال نہیں کیا لیکن اس ایشو کیلئے بہت زیادہ آگہی کی ضرورت ہے ۔اسی روز میرے سابق شوہر نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ میرا جواب ایک سفید جھوٹ تھا ، مجھے تحریک انصاف کی جانب سے جواب نہ دینے کا مشورہ دیاگیا۔یہ میری جیسی ایک عورت کے خاتمہ کا آغاز تھا، ایک ایسی عورت جس نے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی ہو، جس نے خود کو مخصوص عقائد تک محدود نہ رکھا ہو، اچانک ایسی پوزیشن میں آجائے جہاں اس سے پاکستانی سیاسی بیگمات اور خواتین اول سے وابستہ روایتی رویہ اختیار کرنے کی امید کی جارہی ہو، خواتین کے حقوق، سماجی آزادی، خیالات اور سوچ کی خودمختاری اور اپنی آواز کیلئے جو کوششیں کیں، ان پر مفاہمت کرنا پڑے۔ محبت سے ہٹ کر، میں نے سوچ سمجھ کر ایسا کیا۔ ایک ’’مشہور جوڑا‘‘(سیلیبریٹی کپل)کی بھی وہ ہی خواہشات ہوتی ہیں جو عام جوڑے کی ہوتی ہیں اور ایک جیسے گھریلو مسائل ہوتے ہیں، تسلیم ہے کہ کیونکہ ہم عوامی نظروں میں تھے، ہر شخص سمجھتا تھا کہ اس کو ہماری نجی زندگی میں گھسنے کا حق ہے، ایک معروف شخص سے شادی کرنے نے مسائل کو بڑھادیا ۔ہمارے معاشرے کی خواتین زیادہ تر ساس یا بہو کی مداخلت کی شکایت کرتی ہیں لیکن ’’قومی بھابھی ‘‘ہونے کا مطلب ہے کہ پورا ملک میرا سسرال تھا جس کا مطلب ہے کہ ہر کسی کو آپ سے متعلق بولنے کا اختیار حاصل ہے ۔مجھے اب یہ محسوس ہوا کہ بیوی کی محبت اور وفاداری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔پاکستانی مردوں کے نزدیک مکان کو گھر بنانے والی بیوی کی محنت اور محبت کی قیمت اس اسٹامپ سے زیادہ نہیں ہے جو آپ کیلئے ہمیشہ اس گھر کے دروازے بند کردیتاہے ۔ عورت سے اس کے گھر کی چھت چھیننے کے فیصلہ کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے ۔42سال کی عمر میں اور دوشادیوں کے بعد اپنے پیچھے چھوڑ نے والی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ،کیونکہ انہیں دوبارہ خریدا جاسکتاہے لیکن آپ نے انسانیت اور محبت پر جویقین ایک بار کھو دیا وہ دوبارہ کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔حیران کن بات یہ ہے کہ سابقہ دس برسوں کے دوران (دو سال پاکستان میں) جب میری شادی نہیں ہوئی تھی، میں خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتی تھی، میں نے ملک کے مضبوط ترین شخص جو لاکھوں لوگوں کا آئیڈیل تھا، سے شادی کرلی اور گالیوں و الزامات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر میں بیگم عمران خان ہونا میرا تحفظ نہیں کرسکا، حتٰی کہ طلاق کا اعلان بھی میڈیا میں میری کردار کشی مہم کا خاتمہ نہ کرسکا، میں حیران ہوںکہ جو لوگ مجھ جانتے نہیں، جو ہزاروں میل دور بیٹھے ہوں، وہ میرے بارے میں مصدقہ اطلاعات دینے کے اہل کیسے ہوسکتے ہیں؟ مجھے اپنی خوابگاہ میں اضافی کان یا آنکھ کے بارے میں کوئی علم نہیں، جو لوگ میرا نام درست طور پر نہیں پکار سکتے، وہ میرے کردار سے متعلق ماہر بن گئے ، قومی ٹیلی ویژن پر میری کردار کشی کرنے لگے، یہ اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جس طرح پریس تیزاب ڈال رہا تھا بلکہ قوم جس دلجمعی سے رات دن یہ دیکھ رہی تھی اس نے عورت سے نفرت کی گہری جڑوں کی تصدیق کردی۔ میں نے پی ٹی آئی کی مختلف حامی خواتین سے ملاقاتیں کیں، ان پر زور دیا کہ آگے بڑھیں اور سیاست میں عملی حصہ لیں، انکا جواب ہمیشہ یکساں ہوتا تھا ’’دیکھیں وہ آپ کے ساتھ کیا کررہے ہیں، جو کچھ آپ کے ساتھ ہورہا ہے وہ ہم برداشت نہیں کرسکتیں‘‘۔مجھ سے مسلسل یہ سوال پوچھا جارہاہے کہ میری شادی صرف 10ماہ کے بعد ہی کیوں ختم ہوئی ؟کیا یہ میڈیا کی اسکروٹنی تھی یا عمران کے مشیروں کی مداخلت تھی ؟کیا یہ صحیح ہے کہ عمران خان کے خاندان نے جدائی میں اہم کردار ادا کیا ؟لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ان سب میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تھی ۔ہم دونوں ذمہ دار ہیں ،میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ اپنے خاندان کا تحفظ میرا فرض ہے ۔عمران خان کی زندگی کا حصہ بننے کے بعد میں نے ہرطرح سے ان کا دفاع کیا ۔جب پی ٹی آئی کیلئے انتخابی مہم میں شرکت پر تنقید کی گئی تو میں عوامی نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔ ہم نے اپنے دونوں ٹوئٹر اکائونٹس سے یہ وضاحتی بیان دیا کہ میرا پارٹی میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن یہ بیان سرزنش روکنے کیلئے کافی نہیں تھا ۔ اس کے بعد میں نے باامر مجبوری یہ محسوس کیا کہ باعزت واپسی ہی بہتر ہے۔ اس امید کیساتھ کہ میرے شوہر پر ناقابل یقین حد تک دبائو ختم ہو اور وہ اپنے مشن پر نظریں مرتکز کرسکیں ۔محبت یہ نہیں کہ آپ ہمیشہ اس سے چمٹے رہیں بلکہ بعض اوقات اسے آزادبھی کرنا پڑتاہے

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



مورج میں چھ دن


ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…