منگل‬‮ ، 05 اگست‬‮ 2025 

زرداری حکومت نے بینظیر قتل پر اقوام متحدہ کی رپورٹ کیوں مسترد کی ؟ راز کھل گیا

datetime 17  ‬‮نومبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(سپیشل رپورٹ) زرداری حکومت نے بے نظیر بھٹو کے قتل پر اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کیوںمستردکی، اب یہ رازکھل کر سامنے آگیاہے۔ حاصل دستاویزات میں اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے نام تفصیلی خط اور بان کی مون کا جواب شامل ہے۔ خط میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کومستردکرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے تحقیقات کو مزید کچھ عرصہ جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی رہنماﺅں اور ”تیسری قوتوں“کی شہادتیں، ان کے ذرائع اور کمیشن کی جانب سے شہادتیں اور اطلاعات فرہم کرنے والوں کی تفصیلات فراہم کرنے کیلئے کہا گیا۔ خط میں خاص طور پر سی آئی اے، بی بی سی، متحدہ عرب امارات اور حامد کرزئی سمیت افغان حکومت سے انٹرویوں کیلئے اقوام متحدہ کمیشن کو کہا گیا۔ جو اس نے نہیں کیا۔ شاہ محمود قریشی کے خط میں اقوام متحدہ کمیشن پرفوج اور آئی ایس آئی کو طالبان کے ساتھ کام کرنے کا قصور وار قرار دینے کا الزام عائد کیا گیا۔روزنامہ جنگ کے مطابق کمیشن کی رپورٹ کے اس حصے کو ناقابل قبول قرار دے کرمسترد کردیا گیا اور کہا گیا کہ یہ کمیشن ارکان کی ذاتی آراء پر مبنی ہونے کے باعث ناقابل اعتبار ہے۔ 9جولائی2010 کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے شاہ محمود قریشی کے اعتراضات کو مستردہوئے تحقیقاتی رپورٹ پر اپنے قائم رہنے کی بات کی اور کہا کہ یہ قابل تعریف کام ہے۔ شاہ محمود قریشی کے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام خط میں جو نقطہ وار اعتراضات اٹھائے گئے۔ نمبر۔ایک: کمیشن نے انٹرویو کئے جانے والوں کے رپورٹ میں نام دیئے اور نہ انہیں رپورٹ کا حصہ بنایا تاکہ پاکستان میں تفتیش کار اسے بروئے کار لائے۔ نمبر۔دو رپورٹ میں زبانی بنیادپر تیار کردہ دستاویزات تک دسترس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ نمبر۔تین: رپورٹ میں ان افراد کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں جن سے کمیشن پوچھ گچھ کا ارادہ رکھتا تھا لیکن ایسا نہیں کیاجاسکا۔ نمبر چار: رپورٹ میں تفتیشی طریقہ کار کی تفصیلات موجود نہیں ہیں کہ آیا تحقیقات انفرادی یااجتماعی طور پر کی گئیں۔ نمبر پانچ: اس بات کا بھی رپورٹ میں کوئی اشارہ نہیں کہ پاکستان سے باہر بھی لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہو۔ نمبر چھ: پاکستان کے اندر یا باہر کمیشن ارکان کی جانب سے جائزہ لئے گئے مختلف ریکارڈز اور مواد کی تحویل اور شناخت کا بھی رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ نمبر سات: اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ تیار کردہ مواد یا دستاویزات کمیشن کی تحویل میں ہیں یا مستقبل میں پاکستانی حکام کو ضرورت پیش آئے تو وہ اقوام متحدہ کے دفتر میں محفوط ہو۔شاہ محمود قریشی کے خط کے دوسرے حصے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ حکومت پاکستان کو رپورٹ کے بعض حصوںمیں مشاہدات پر تشویش ہے۔ جو شرائط و ضوابط طے کیے گئے۔ ان میں رہتے ہوئے کام نہیں کیا گیا۔ حکومت پاکستان کو یقین ہے کہ کمیشن ارکان اپنے تبصروں اور مشاہدات کے ذریعہ خارجہ پالیسی یا پاکستان کے طویل المعیاد اسٹریٹجک مفادات پر اثر انداز ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے دفتر کیلئے مندرجہ ذیل آبزرویشن دی۔نمبر ایک :رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیس کی سنجیدگی اور تندہی سے تحقیقات پاکستانی حکام کی ذمہ داری ہے جس سے حکومت پاکستان مکمل اتفاق کرتی ہے۔ تاہم اس مقصد کا حصول اس وقت مشکل ہوجاتا ہے۔ جب کمیشن رپورٹ میں بیان کردہ مخصوص امور اور معاملات کی وضاحت موجود نہ ہو۔ ایسی کوئی حوالہ جاتی معلومات یا معاون مواد موجود نہیں ہے جن کی بنیادپر سوالات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح مختلف لوگوں کے کردار کو کسی ثبوت یا مواد کے بغیر زیر بحث لایا گیا۔ نمبر دو: تاہم یہ بات تشویش کے ساتھ نوٹ کی گئی کہ تحقیقات کو شرائط و ضوابط کے تحت حالات اور واقعات تک محدود رکھنے کے بجائے جس کاحوالہ2 فروری2009 کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خط میں موجود ہے، کمیشن ارکان نے اپنی مخصوص توجہ پاکستان آرمی(رپورٹ کے مختلف حصوں میں اسٹیبلشمنٹ یا اعلیٰ فوجی کمان کے نام سے ذکر کیا گیا) پر مرکوز رکھی۔ نمبر تین: رپورٹ کے حصہ سوم کو ”دھمکیاں، ذمہ داریاں اور ممکنہ مجرمان“ کا عنوان دیا گیا جس میں کمیشن ارکان نے اس حوالے سے مفروضوں کا تجزیہ کیا۔ رپورٹ میں ایک نامعلوم ذریعہ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ پر بھی کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن اس کے بارے میں کوئی ثبوت یا شہادت اور نہ مواد فراہم کیا گیا۔ کوئی دستاویز ہے اور نہ ہی حلف نامہ۔ کمیشن رپورٹ میں کئی معاملات اس کے مینڈیٹ میں نہیں ا?تے۔ نمبر چار: حکومت پاکستان کے خیال میں کمیشن ارکان نے نامعلوم ذرائع کیلئے کوئی معقول جواز دیئےبغیر درخواستیں قبول کرکے مستند رپورٹ کی تیاری کیلئے اپنی صوابدید کو اختیار نہیں کیا۔ یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ طریقہ کار ہے کہ تمام حقائق جاننے کیلئے قائم انکوائری کمیشن ضروری شہادتوں کے حوالے سے تمام تفصیلات کو ریکا ر ڈ میں لاتے ہیں۔ نمبر پانچ: رپورٹ میں کچھ آبزرویشنز اور تبادلہ خیال علاقائی امور میں مداخلت کا تاثر رکھتے ہیں۔ جس سے باہمی تعلقات میں پاکستان کا اختیار کردہ موقف متاثر ہوتا ہے۔ تاہم کمیشن نے اپنے دیئے گئے مینڈیٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بین الاقوامی طور پر کام کرنے والی کچھ تنظیموں یا بی بی سی، القاعدہ یا افغان طالبان، متحدہ عرب امارات میں حکام اور سی آئی اے جیسی تیسری قوتوں پر بھروسہ یا تعلق جوڑنے کی کوشش کی۔ لیکن کمیشن نے قواعد و ضوابط کے تحت اپنے اختیارات استعمال نہیں کئے۔ ان تیسری قوتوں کے متعلقہ حکام اور ذمہ داران سے بھی بات کرنے کی ضرورت تھی۔ اس بات کا امکان تھا کہ بین الاقوامی ذرائع سے تفصیل میں سوالات کرنے سے بے نظیر بھٹو کے قتل میں کسی بین الاقوامی تعلق کو بے نقاب کیا جاتا۔ پاکستان سے باہر موجود شخصیات اس معاملے میں معلومات فراہم کرنے میں اہم ثابت ہو تیں۔ اس سلسلے میں اس بات کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ افغانستان کے اس وقت صدر حامد کرزئی بھی25 اپریل 2010 سے قبل کسی بھی وقت اقوام متحدہ کمیشن کے ارکان سے کابل میں ملنے کیلئے تیار تھے۔ تاہم کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ملنے کا ذکر کیا اور نہ ہی وجہ بتائی۔ پاکستان میں عوام کا یہ عام تاثر ہے کہ بین الاقوامی پایہ کی رہنمائ کا قتل کسی منصوبہ بندی اور بین الاقوامی ذرائع سے مالی تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کمیشن کو تیسری قوتوں تک پہنچنے کا اختیار دیا گیا۔ کمیشن نے اس کا ذکر بھی کیا لیکن بعد ازاں اس بارے میں معلومات کی فراہمی کو نظر انداز کردیا گیا۔ نمبر چھ: حکومت پاکستان نے خصوصاً پاک فوج پرغیر مصدقہ مشاہدات اور تبصروں پر تشویش کا اظہار کیا۔ جس سے پاک فوج کی ساکھ ، ثابت قومی اور مورال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔ نمبر سات: حکومت پاکستان پاک فوج اور طالبان کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑ کی رپورٹ میں ا?بزرویشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ایسی آبزرویشن کمیشن کے شرائط و ضوابط کے تحت اس کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔ نمبر آٹھ: اسی طرح رپورٹ کے مختلف حصوں میں آئی ایس آئی اور انٹلی جنس اداروں کے مبینہ کردار پر ضرورت سے زیادہ بات کی گئی۔ یہ بھی شرائط و ضوابط سے ماورائ اقدام تھا۔ نمبر نو:حکومت پاکستان یہ بھی سمجھتی ہے کہ مختلف مفروضوں کا جائزہ لینے میں اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی صوابدید کو مناسب طور پر استعمال نہیں کیا۔ نمبر دس: رپورٹ میں دی جانے والی آبزرویشن پر حکومت کو اس حوالے سے بھی تشویش تھی کہ اس میں بعض شخصیات کو مستثنیٰ یا ذمہ دار قرار دیا گیا حالانکہ2 فروری2009 کو سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے تحریر کردہ خط میں واضح کردیا گیا تھا کہ کمیشن کا مینڈیٹ کرمنل انوسٹی گیشن کرنا نہیں ہے۔ نمبر گیارہ:حکومت پاکستان کی نظر میں رپورٹ میں تمام امور سوائے ان کے جو بے نظیر بھٹو کے قتل کے حقائق اور واقعات سے براہِ راست متعلق ہوں، کوئی تبصرہ یا مشاہدہ ملکی خارجہ پالیسی کے تعین کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ نمبر بارہ: رپورٹ میں سنگین غلطی ہے وہ یہ کہ کمیشن معتبر اور باوثوق اطلاعات کو سامنے لانے کیلئے تیسری قوتوں سے رابطے میں ناکام رہا۔ کمیشن کو اس حوالے سے مزید وقت لینا چاہئے تھا۔ بدقسمتی سے اس نے اس حوالے سے پوری توجہ نہیں دی۔ اس کی توجہ اندرونی معاملات پر رہی۔ بین الاقوامی رابطے کمیشن کے مینڈیٹ کا اہم جزو تھا جو نا تمام ہی رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کی حمایت سے کمیشن انٹراسٹیٹ تحقیقات کی بہتر پوزیشن میں تھا۔ نمبر تیرہ: مزید یہ کہ حکومت پاکستان سیکر یٹری جنرل اقوام متحدہ کے دفتر سے واضح افہام و تفہیم کی خواہشمند تھی کہ کمیشن ارکان کی جانب سے تبصرے اور مشا ہد ے جو مستند ہیں اور نہ حوالہ جاتی، انہیں کسی ادارے یا ریاست کو حقائق کے تعین میں اختیار نہیں کیاجاناچاہئے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



مورج میں چھ دن


ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…