اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) 2004ءمیں نئی دہلی کے تاج محل ہوٹل میں الطاف حسین کی جانب سے پاکستان کے خلاف انتہائی متنازع خطاب کے چند روز بعد اس وقت بھارت میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر پر اسلام آباد کی جانب سے دباﺅ ڈالا گیا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے قائد کو عشائیہ دیں۔ اگرچہ ہائی کمیشن کے حکام پہلے ہی الطاف حسین کے نئی دہلی میں خطاب کی وجہ سے غم و غصے میں مبتلا تھے لیکن اس کے باوجود ہائی کمشنر عزیز احمد خان کو اسلام آباد کے دباﺅ کی وجہ سے ایم کیو ایم کے قائد کو رات کے کھانے پر مدعو کرنا پڑا۔ عزیز خان کو یاد دہانی کرائی گئی کہ الطاف حسین کی جماعت پرویز مشرف کی حکومت میں اتحادی ہے۔ نتیجتاً پاکستانی ہائی کمیشن کو ایسے شخص کیلئے ”نجی ڈنر“ کا اہتمام کرنا پڑا جس نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ”خطے کیلئے جو ویژن دیکھا گیا تھا وہ بہت بڑی غلطی تھی۔۔۔۔۔۔ یہ زمین کی نہیں بلکہ خون کی تقسیم تھی۔۔۔” اس حوالے سے اگرچہ عزیز احمد خان تبصرے کیلئے دستیاب نہیں تھے لیکن ان کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ عزیز احمد خان کو اسلام آباد کے دباﺅ میں الطاف حسین کو رات کے کھانے پر مدعو کرنا پڑا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائی کمیشن کی جانب سے نئی دہلی میں الطاف حسین کی زہر افشانی کے حوالے سے دفتر خارجہ کو بروقت آگاہ کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود ہائی کمشنر پر ڈنر کا اہتمام کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا گیا۔ کسی کارروائی کے بجائے، پرویز مشرف حکومت نے ایم کیو ایم چیف اور پارٹی کے دیگر رہنماﺅں کیلئے ضیافت کا اہتمام کرایا۔ جبکہ پرویز مشرف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے۔ رابطہ کرنے پر اس وقت پاکستانی ہائی کمیشن میں پریس منسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ رائے ریاض حسین نے بتایا کہ وہ تاج محل ہوٹل میں ہندوستان ٹائمز کونکلیو میں نومبر 2004ء میں الطاف حسین کی جانب سے کیے جانے والے خطاب کے چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دشمن ملک کی سر زمین پر الطاف حسین کی جانب سے اس طرح کا خطاب کرنا میرے لیے زندگی کا بدترین دن تھا۔ رائے ریاض نے کہا کہ الطاف حسین کے خطاب کے کچھ حصے انگریزی جبکہ کچھ حصے اردو میں لکھے تھے۔ شاید انگریزی والا حصہ انہیں کہیں سے ملا تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ الطاف حسین نے کہا تھا کہ جب وہ دہلی ایئر پورٹ پر پہنچے تو انہوں نے دائیں دیکھا، بائیں دیکھا، اوپر اور نیچے دیکھا تو ایسا لگا کہ وہ اپنے ہی گھر میں ہیں۔ رائے ریاض نے کہا کہ اس کے بعد الطاف حسین نے بھارت کی تقسیم کو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ توہین آمیز کلمات کہنے کے بعد الطاف حسین اردو میں چیخے اور کہا کہ پاکستان میں ہمارے ساتھ مہاجر ہونے کی وجہ سے برا سلوک کیا جاتا ہے، اور اگر ہمارے ساتھ مہاجر ہونے کی وجہ سے برا سلوک کیا جائے گا تو ہم آپ (بھارت) سے پناہ مانگیں گے۔ اس کے بعد الطاف حسین نے تقریب کے شرکاء سے براہِ راست سوال کیا کہ ”دلّی والو! بولو ہمیں پناہ دو گے؟“۔ اس موقع پر ہال میں سکوت چھا گیا، وہاں اشرافیہ اور انتہائی پڑھے اور دانشور افراد، سفارت کار اور سینئر صحافی موجود تھے۔ رائے ریاض نے کہا کہ الطاف حسین نے شرکاء سے تین مرتبہ یہی سوال پوچھا اور کوئی جواب نہ ملا تو کہا کہ شاید انہوں نے مشکل سوال پوچھ لیا ہے۔ رائے ریاض نے کہا کہ اس موقع پر پاکستانی سفارت کار حیران و پریشان تھے اور اس طرح کے کلمات کی وجہ سے شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے میں نے بحیثیت پریس منسٹر رپورٹ حکومتِ پاکستان کو بھجوائی اور میڈیا میں جاری کی۔ ہم اس صورتحال کی وجہ سے بہت ہی پریشان تھے لیکن ہمارے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کہ ہائی کمشنر نے ایم کیو ایم کے وفد کو اسی ہوٹل میں رات کے کھانے کی دعوت دی جہاں وہ قیام پذیر تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس بات پر احتجاج کیا تھا لیکن ہائی کمشنر عزیز احمد خان نے کہا کہ ”یار اوپر سے حکم ہے“۔ رائے ریاض نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف اس بات پر ناراض تھے کہ ہائی کمیشن نے ایم کیو ایم کے وفد کی میزبانی کیوں نہیں کی۔ رائے ریاض نے کہا کہ یہ میری زندگی کا سب سے افسوس ناک باب ہے۔ انہوں نے کہا کہ الطاف حسین کی نئی دہلی آمد سے قبل ایئر پورٹ سے ہوٹل تک جانے والی سڑکوں پر الطاف حسین کی تصاویر اور بینرز لگائے گئے تھے اور یہ غیر معمولی تھا۔ایم کیو ایم اس حوالے سے بہت سی باتوں کی تردیدکرتی رہی ہے اور اس نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ جس طرح یہ باتیں بیان کی جارہی ہیں اس طرح کچھ نہیں ہوا تھا۔