جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ آپ جو بات کر رہے ہیں وہ قانون کے بارے میں کر رہے ہیں آئینی ترمیم میں ایسا نہیں کر سکتے ۔ اے کے ڈوگر نے محمود خان اچکزئی کیس کا حوالہ دیا بھارت نے بنیادی آئین خدوخال کی تھیوری فضل القادر 1963 کے مقدمے سے لی ہے جس پر انہوں نے تسلیم کیا کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ بھی ہوتا ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بھارت سے سند حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ یہ ہماری احساس کمتری ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اب تو اسناد دنیا بھر میں عام ہو گئی ہیں اب کسی کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں رہی ۔ اے کے ڈوگر نے کہاکہ 1962 کے آئین کو صدر ایوب خان نے ترمیم کر دی جس سے وہ نہ صدارتی رہا اور نہ ہی پارلیمانی ، پارلیمانی نظام حکومت میں تمام ارکان اسمبلی وزراءبن سکتے ہیں مگر صدارتی نظام حکومت میں ممبران وزراءنہیں بن سکتے ۔ مگر ان کو وزیر بننے کی اجازت دینے کے لئے ترمیم کر دی گئی ۔ کہا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے بغیر ملک میں امن نہیں ہو گا آئین تو تباہ ہونے سے روکا جائے یہ فوجی عدالتیں بھی عدالتیں ہیں یہ صرف آئین کی تباہی ہے اور کچھ نہیں ہے ۔ یہ سب باتیں غلط ہیں فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ آئینی ڈھانچے کے خلاف ہے ۔ اے کے ڈوگر نے مولوی تمیزالدین کا بھی حوالہ دیا ۔ ضیاءالرحمان بنام ریاست کا بھی حوالہ دیا ۔ عبدالولی خان 1976 کیس کا بھی حوالہ دیا ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ لادینی ریاست میں قانون سازی کرنے والا سپریم ہے اور قوانین اکثریت کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں ۔ بھائی اور بہن کی شادی تک کی اجازت دی جاتی ہے مگر یہ سب قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے ہماری ریاست میں اللہ تعالیٰ اقتدار اعلی کا مالک جبکہ مغربی ممالک میں اقتدار اعلی کے مالک لوگ ہوتے ہیں ۔ صرف وہی ترمیم ہی ممکن ہے جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کو متاثر نہ کرے ۔ ہائی کورٹ نے آرٹیکل 238 کے حوالے سے فیصلے دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا خیال نہیں رکھا ۔ ڈوگرہونے کے باوجود میں یورپ میں پیدا ہوا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وزیر آباد میں پیدا ہونے کے باوجود میں اردو بولتا ہوں وہاں پنجابی بولی جاتی ہے ۔ پنجابی مجھے آتی ہے مگر اردو میں کورا ہوں ۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ ان کو بتا دیں جو جسٹس جواد کی مالا جپتے ہیں کہ بیالیس کو بتالیس بولتے ہیں ۔ اے کے ڈوگر نے ظفر علی شاہ کیس کا بھی حوالہ دیا ۔ یہ فیصلہ 12 ججز نے دیا ہے ۔ پاکستان کی اعلی عدلیہ نے قرار دیا ہے کہ جو جوڈیشل رویوں کا اختیار تو رکھتی ہیں تاہم اس کے دائرہ کار کو آئین سے نکال دیا گیا ۔ عدالت نے کہا کہ 11 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی کوشش کریں ۔ انہوں نے کہاکہ یہ ناممکن ہے مگر وہ کوشش کریں گے ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج منگل تک کے لئے ملتوی کر دی ۔