چیف جسٹس نے کہا کہ اکثریتی رائے اس بارے کیا ہے؟ اے کے ڈوگر نے کہا کہ صرف ایک نے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ 4 نے مخالفت کی تھی۔ آرٹیکل 239 شتر بے مہار آرتیکل نہیں ہے پارلیمنٹ ہر طرح کی ترمیم کر سکتی ہے مگر آئین کے بنیادی خدوخال‘ وفاقیت اسلامی تعلیمات کے برعکس ترمیم نہیں کر سکتی ہے۔ عام طور پر وفاقیت‘ جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کو بنیادی خدوخال کہا جاتا ہے اور بھی ہیں جن کو یہ سب کہا جا سکتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہیں اے کے ڈوگر نے کہا کہ اسلامی نظریہ اور جمہوریت میں بھی بنیاد اسلام پر ہے وہ بھی بنیادی خدوخال میں شامل ہے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ اقلیتی ویو کیا کہتا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس سلیم اختر نے کہا کہ یہ ٹچ اسٹون نہیں ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی میں بنیادی حقوق بھی شامل ہیں۔ اس میں مصنفانہ اور شفاف انتخابات بھی بنیادی خدوخال کا حصہ ہیں بھارتی مصنف نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے اور پھر عدالتی اختیار بھی شامل ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ دنیا کے ہر حصے کے لوگ انصاف چاہتے ہیں اقدار انصاف ہیں اور یہ سب معاشرے سے لی جاتی ہیں قدریں ہی اہم ہوتی ہیں اگر کوئی نظام ان قدروں کو حاصل نہیں کرتا تو پھر حالات بھی نہیں بدلتے‘ قدریں ہی سچائی ہیں۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ بعض مصنفتین اس کو بنیادی انسانی اخلاقیات قرار دیتے ہیں جو برقرار رہتی ہیں ان کو کوئی چوری نہیں کر سکتا۔ اچھا یا برا آئین بن گیا۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ جسٹس سلیم اختر نے جن کی بات کی ہے وہ قدریں ہیں۔ آمروں کے سیاہ کردار نے آئین کے بنیادی خدوخال کو دھندلایا اگر سوچیں بدلتی رہیں تو پھر معاملات بھی بدل جاتے ہیں۔ قدریں ہمیشہ برقرار رہتی ہیں مگر ان کا طریقہ کار بدلتا رہتا ہے۔ اے کے ڈوگر نے ایک فیصلہ کے مندرجات پڑھ کر سنائے۔اے کے ڈوگر نے کہا کہ قدروں میں تبدیلی ممکن نہیں جب 1400 سال قبل قرآن و سنت نے قدریں متعین کر دی تھیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ تبدیل نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان میں مزید بہتری آئی ہے قرآن غلط نہیں کہتا ۔ سپریم کورٹ کے 2000 کے مقدمے کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ آئین میں کی گئی ترامیم کو آرٹیکل 2 اے کے مطابق ہونا چاہئے ۔ 1993