اے کے ڈوگر نے کہا کہ 10 اے کی ترمیم کو پسند کیا گیا ہے ۔ 19 اے آیا اس کو بھی پسند آ گیا ۔ 25 اے سے بھی خوش ہیں میں تو اس سے بھی ناخوش ہوں کہ وزیر اعظم کو زیادہ مواقع دے دیئے جائیں ایک شخص کو بار بار پارٹی کا سربراہ بنانے کا بھی مخالف ہوں حالانکہ لیڈر کو نیچے سے ابھر کر آتا ہے ہمارے لوگ بہت بڑا پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہاکہ آپ نے 4 سے 5 سال قبل فہرست دی تھی جن میں سرور خان کا بھی ذکر تھا کہ یہ اس طبقے سے ہیں جو مراعات یافتہ طبقہ نہیں تھا کچھ ترامیم کو ملا کر پڑھا جائے تو وہ کسی بھی پارٹی کے سربراہ رہ سکتے ہیں اور اپنے کسی ممبر کی نااہلی کر سکتے ہیں ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آپ 175 اے پر خوش نہیں ہیں ۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ ان تمام معاملات کے مخالف ہیں جس سے آئین کو بگاڑا گیا ہے اب میں بات کرتا ہوں کہ جوڈیشل پاور اور جوڈیشل رویو ایک دوسرے کا بدل ہیں یا نہیں ۔ جوڈیشل رویو آئین کے بنیادی خدوخال کا حصہ ہے اور عدالتی اختیار محدود ہے کیونکہ عدالت نے یہ اختیار اختیارات کی تقسیم پر ہے جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ کے دلائل سے لگتا ہے کہ مکس اپ ہوگئے ہیں اے کے ڈوگر نے کہا کہ عدالت چونکہ عدالت ہے اس لئے ان کے پاس جوڈیشل اختیار ہے جسٹس دوست نے کہا کہ ہمیں اختیارات آئین نے دیئے ہیں اے کے ڈوگر نے کہا کہ کیا انتظامیہ مقننہ اور عدلیہ میں کوئی طاقتور ہے جوڈیشل اختیار چونکہ عدالت کے پاس ہے اس لئے اس کو طاقتور سمجھا جاتا ہے ایک جج کا کہنا تھا کہ یہ وارثتی اختیار ہے جسٹس جان مارشل نے کہا کہ جوڈیشل پاور عدالتی اختیار ہے قرارداد مقاصد جس طر ح سے آئین سے باہر ہے اس طرح سے عدالتی اختیار بھی آئین سے باہر ہے ججز پارلیمان کے تحت نیچے نہیں باہر ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ برطانیہ میں ججز تخت کے نیچے ہیں ۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ لوگ کہیں گے کہ اگر ایسا ہی رہے گا تو لوگ کچھ نہیں کرینگے تاج اچھالے جائیں گے اور یہ اچھالے گئے ہیں ۔ فرانس میں بادشاہ کا سر کاٹا گیا تھا ۔