جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ حالات کو سمجھنے کے لیے باریک بینی سے جائزہ لینا پڑتا ہے اس طرح کے مقدمات میں کئی ججز سماعت سے معذرت کرلیتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ آئین کے دیپاچہ سے کافی حد تک معاونت ملتی ہے کہ آئین و قانون کی تشریح کس طرح سے کرنا ہے ۔ اکیسویں ترمیم بارے دلائل دے رہے ہیں 31 ہزار معصوم افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اتنے ہی زخمی ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پچھلے سال سے اب تک کیا تبدیلی آئی ہے کیا صورتحال برقرار ہے یا نہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کردار تو موجود ہوتے ہیں سابق چیف جسٹس کے ساتھ کیا ہوا 30 ہزار کی تعداد ہے یا اس سے زیادہ ہے یہاں روایت نہیں رہی کہ اس طرح کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے ۔ 30 ہزار افراد کی ہلاکت میں ملوث کتنے دہشتگرد گرفتار ہوئے اور کتنے شہادت نہ ہونے کی وجہ سے رہا ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس حوالے سے اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگیں گے ۔ خالد انور نے کہا کہ ٹرائل کے لئے کوئی درخواست نہیں ہے صرف آرمی ایکٹ ے تحت ہی تمام تر کارروائی ہوسکتی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ امریکہ میں دوسری عدالتیں ناکام ہوئیں تو تب فوجی عدالتیں بنائی گئیں اور کانگریس نے آہستہ آہستہ قانون سازی کی ۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ عالمی جنگ میں بھی اس طرح کی صورتحال درپیش آئی اور اس سے نمٹا گیا ۔ خالد انور نے کہا کہ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے وہ دوسروں سے قدرے مختلف ہے ۔ خالد انور نے کہا کہ امریکہ اور آسٹریلیا میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو سول کورٹس میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا چونکہ ملکی دفاع ا کا معاملہ ہوتا ہے اس لئے انہوں نے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور فورسز کو لاءاینڈ آرڈر برقرار رکھنے کے لئے اختیارات دیئے ہیں یہ اختیارات عملی ہیں اور انتظامی ہیں۔ پاکستان میں یہ اختیار خصوصی طور پر دیا گیا ہے جس کو سپریم کورٹ زیر سماعت نہیں لا سکتی۔ امریکہ اور آسٹریلیا کی فوجی عدالتوں کے برعکس ہماری عدالتوں کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہیں۔ آرمی ایکٹ اور 21ویں ترمیم کے بعد اب فوج صرف اپنے اندر نظم و ضبط کی ہی پابند نہیں ہے بلکہ انہوں نے اس ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے اپنا کردار بھی ادا کرنا ہے سویلین کو اس نئے ترمیمی قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔