جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیئے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں فوج موجود ہے وہاں کے حالات آپ کے سامنے ہیں آرمی چیف اپنا کام کریں گے یا یہ کام کریں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لوگوں کو انصاف مل رہا ہے مگر انتظامیہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے ۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد انور نے کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت فوجی عدالتوں کے قیام کو درست قرار دیتی ہے اور آرمی ایکٹ میں ترمیم ہونے سے سپریم کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کو فوجی عدالتوں کی کارروائی کیخلاف کوئی بھی حکم جاری کرنے کا قطعی اختیار نہیں ہے ۔
مزید پڑھیے:کوریا کا کروڑپتی بحرین میں جھاڑو لگاتا ہے
جس پر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا قیام اوراس کی کارروائی ہمارے دائرہ کار سے قطعی طور پر باہر ہے اور ہم اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کرسکتے ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ چرچل نے کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو پھر جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر جنگ شروع ہوچکی ہے تو پھر انصاف کا خیال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ فوجی عدالت دو سال کے لئے ہیں اور ان میں مزید توسیع نہیں ہوگی ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے دو سال کی مدت آئین میں کہیں نہیں ہے جبکہ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے دہشتگردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں اورنقصانا ت کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کوئی اور اختیار ہو نہ ہو ہمارے پاس ازخود نوٹس کا اختیار موجود ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شہادتیں نہ آنے کی وجہ سے ملزمان بری ہوتے ہیں ۔ خالد انور نے کہا کہ قانون کی حکمرانی سے مراد سویلین حکومت ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ فوجی حکومتوں کی مخالفت کی ایک مقدمے کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ یہ سوال قانونی ہے اس کا تعلق کسی کے خوش ہونے یا نہ ہونے پر نہیں ہے ۔