منگل‬‮ ، 15 جولائی‬‮ 2025 

این آ ر او کیس میں سپریم کورٹ کے قانونی نکات غیر متعلقہ تھے،جسٹس ثاقب نثار

datetime 19  مئی‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جسٹس آصف نے کہا کہ اگر چیف جسٹس کے ہی اختیارات لئے گئے ہیں تو اب وزیراعظم‘ وزرائ‘ گورنرز اور صدر تک کا اختیار نہیں رہا ہے اب صرف ان کا ایک محدود کردار ضرور رکھ دیا گیا ہے اور اب سب مل کر ہی یہ تقرری کرتے ہیں۔ خالد انور انتظامیہ اور عدالیہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ پریشانی کا سبب رہے جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ 1996ءمیں وزارت داخلہ اور عدلیہ کے درمیان معاملہ رہا عدلیہ نے داخلہ کا حکم ختم کر دیا۔ اب لگتا ہے کہ ان میں بھی دوستی ہو گئی ہے خالد انور نے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان اب تعلقات بہتر ہو گئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں آ سکتی۔ عیر قانونی اقدامات باقی نہیں رکھے جا سکتے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ججز کے تقرر میں پارلیمانی کمیتی کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ خالد انور نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان سے زیادہ عدلیہ کسی ملک کی مضبوط نہیں ہے کسی ملک میں بھی اتنے اختیارات عدلیہ کو نہیں دیئے گئے کہ وہ ججز کا تقرر کر سکتے۔ آسٹریلیا میں اٹارنی جنرل وزیراعظم اور کابینہ کے نام حاصل کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی ججز بارے مشاورت سے تقرر کرتا ہے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کامن ویلتھ کے ممالک میں ہائی کورٹس کو ماتحت عدالیہ قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کو زیادہ اختیار دیا ہے اب دوسرے ملکوں کو اس کی پیروی کرنا چاہئے پارلیمانی کمیٹی کے کردار پر ضروری دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کو ججز کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن سے زیادہ اختیار دیا گیا ہے جسٹس دوست محمد نے کہا کہ جہاںجہاں پارلیمنٹ کا کیا کردار ہے وہاں کا بتایئے۔ خالد انور نے بنگلہ دیش‘ کینیڈا کا تذکرہ کیا۔ وہاں انتظامیہ کو اختیار دیا گیا ہے جرمنی میں ججوں کا تقرر ایوان بالا دو تہائی اکثریت سے کرتا ہے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی رکھی گئی ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جرمن نظام تو اچھا نہیں مگر ان کے سکالر اچھے ہیں۔ خالد انور نے کہا کہ بھارت میں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ نیوزی لینڈ میں اٹارنی جنرل مشاورت رکھی گئی ہے۔ جنوبی افریقہ میں جوڈیشل کمیشن رکھا گیا ہے اس حوالے سے 3 ممبران رکھے گئے ہیں 6 ممبران قومی اسمبلی سے لئے جاتے ہیں صدر چیف جسٹس اور ڈپٹی چیف کا تقرر کرتا ہے برطانیہ میں کمیشن ججز کا تقرر کرتا ہے۔ 3 بار مشاورت ہوتی ہے امریکہ میں ججوں کا تقرر سب سے زیادہ دنیا میں سیاست زدہ نظام ہے۔ سینٹ کمیٹی میں پہلی رپورٹ سے تقرر کا آغاز آتا ہے اس کے 17 ممبران ہیں جبکہ نامزد لوگ آتے ہیں ان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے قسم اٹھوائی جاتی ہے کہ وہ سچ بولیں گے جسٹس آصف نے کہا کہ 20 سال بطور جج کام کرنے کے بعد بھی امریکہ میں ہر جج کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیمو کریٹک پارٹی کا جج ہے یا ریبپلیکن کا ہے۔ خالد انور نے کہا کہ ہمارے ہاں پارلیمانی پارٹی نامزدگی نہیں کرتی۔ پارلیمانی کمیٹی کسی نام کو مسترد کر دیتی ہے تو جوڈیشل کمیشن کسی اور کو مقرر کر دیتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کو ججز کے تقرر میں مالکوں کا کردار دے دیا گیا ہے جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ منیر بھٹی کیس دیکھ لیں اگر پارلیمانی کمیٹی کسی جج کے لئے گئے نام کو مسترد کر دیتی ہے تو اس کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ کیا پارلیمانی کمیٹی صرف دکھاوے کے لئے ہے؟

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



حقیقتیں(دوسرا حصہ)


کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…