جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ان کو چھوڑ کر آپ آگے بات کریں سٹیٹ بنک کے افتتاح کی تقریر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر آپ چھوڑیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کیا کہیں گے کہ آئین میں کی گئی تبدیلیاں کیا بنیادی آئینی ڈھانچے کو تقویت دیتا ہے یا اس سے نقصان ہوا ہے۔ آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کو آپ آئینی ڈھانچے میں بھی تبدیلی قرار دیتے ہیں یا نہیں؟ خالد انور نے کہا کہ تبدیلی تو آئے گی مگر کوئی خاص نہیں ہو گی جمہوریت کی ماضی میں ناکامی بارے میں مطالعہ کیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا آپ نے بنیادی تبدیلی محسوس کی ہے یا نہیں خالد انور نے کہا کہ اسلام ہر طرح کی رہنمائی فراہم کرتا ہے اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور عوام دیئے گئے اختیار کو استعمال کرتا ہے۔ اگر آئینی ڈھانچہ ایسا ہے کہ شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے تو پھر یہ تبدیلی نہیں ہے۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ نے بنیادی آئینی ڈھانچے کے دو تصور دیئے ہیں کیا یہ تصورات مضبوط ہوتے ہیں یا ان کے خلاف ورزی ہوئی ہے کیا پارلیمنٹ کو اس طرح کا کوئی اختیار مل گیا ہے کہ وہ بنیادی آئینی ڈھانچے سے ہٹ کر کوئی اختیار استعمال کر سکے۔ خالد انور نے کہا کہ اگر بات صرف پڑھنے کی حد تک ہے تو کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے اگر بات فعال ہونے کی ہے تو تبدیلی آتی ہے۔ عدلیہ مقننہ انتظامیہ ہمارے آئینی بنیادی ڈھانچے کے تین ستون ہیں ان میں تبدیلی نہیں آئی مگر ان کو چلانے میں تبدیلی آئی ہے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ کیا آپ ایک مثال دے سکتے ہیں کہ جس سے فرق آیا ہو۔ خالد انور نے کہا کہ جمہوریت کا حوالہ دوں گا۔ بھارتی پارلیمنٹ کی بات کروں گا وہاں آئین و قانون میں کسی طرح سے بھی ماورا کوئی اقدام کیا جا سکے۔ آئین میں بگاڑ صرف امر کرتے ہیں پارلیمنٹ صرف ختم کر سکتی ہے۔ 175 اے کے تحت جوڈیشل کمیشن کا قیام ججوں کی اکثریت پر مشتمل ہے سوال یہ اٹھتا ہے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے کیا فرق پڑا ہے تو اس میں بہت بڑا فرق آیا ہے۔ ججوں کا تقرر اصل آئین میں صرف انتظامیہ کا اختیار تھا جو وہ مرضی کرتی تھی کر لیتی تھی اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کا تقرر سوائے چیف جسٹس کے سب انتظامیہ کے پاس تھا چیف جسٹس کے اختیارات پر 18 ویں ترمیم نے کچھ قدغن لگائی ہے۔ اسلامی تاریخ دیکھیں تو مشاورت کا ذکر تو موجود ہے پارلیمنٹ کا کہیں ذکر نہیں جو خلیفہ ہو گا اس پر مشاورت ہو گی پاکستان میں 18 ویں ترمیم میں صرف ایک شخص کو تقرر کا اختیار نہیں دیا گیا وہ غلطی بھی کر سکتا تھا۔