خالد انور نے 1973ء کے آئین میں کئی آرٹیکلز میں کی گئی ترامیم بارے تفصیل سے دلائل دیئے اور موازنہ کیا۔ انہوں نے 89 کے تحت اختیارات کی تقسیم بارے بتایا گیا ہے امریکہ میں صدر کانگرس کے باوجود کام نہیں کر سکتا جبکہ پاکستان میں صدر مملکت آرڈیننس جاری کر سکتا ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر کے آرڈیننس کا اختیار استعمال کیا جاتا ہے۔ خالد انور نے 1962ءمیں آرڈیننس میں اختیارات دیئے گئے جس کو 1973ءمیں بھی شامل کیا گیا 1956ءاس میں قدرے محتاط تھا۔ اگر آرڈیننس کو 120 دن گزر چکے ہیں تو وہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ یہ عام پریکٹس ہے کہ حکومتیں آرڈیننس کے اختیار کا غلط استعمال کرتی ہے۔ خالد انور نے کہا کہ ہمارے ملک میں اختیارات کی تنسیخ کا استعمال بغیر کسی لالچ کے اور غیر ضروری اور بے قاعدگی سے کیا جاتا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بھارتی آئین میں اس بارے میں کیا کہا گیا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ 1935ءکے ایکٹ میں آرڈیننس بارے کیا کہا گیا ہے۔ خالد انور نے کہا کہ اس کو دیکھنا پڑے گا۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بعض تقاریر کا بھی حوالہ دیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ 89 کہتا ہے کہ آرڈیننس صرف ایک بار دہرایا جاتا ہے اور اب اس بارے میں کہا جاتا ہے کیا فریش آردیننس جاری ہو سکتا ہے یا نہیں۔ خالد انور نے کہا کہ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آرڈیننس کا استعمال بلاواسطہ یا بالواسطہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ بھارت میں قرار دیا گیا ہے کہ آردیننس کا دوبارہ اجراءقانون کے ساتھ فراڈ ہے۔ خالد انور نے کہا کہ آپ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس سے ریاست کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستانی پرچم میں سبز رنگ مسلمانوں کے لئے جبکہ سفید اقلیتوں کے لئے رکھا گیا۔ جمہوریت کا تصور بھی اسلامی تعلیمات سے لیا گیا ہے جہاں مشاورت کی بات کی گئی ہے۔ قائد اعظم کا کہنا تھا کہ جمہوریت بارے ہمیں اسلام کی تعلیمات سے تصور لیا گیا ہے پاکستان کبھی بھی مولویوں کا ملک نہیں بنے گا۔ ایران مولویوں کا ملک ہے