جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے صرف آئین کے آرٹیکل 175 میں ترمیم کی گئی۔ ملٹری کورٹس الگ معاملہ ہے باقی معاملات میں مداخلت نہیں کی گئی۔ خالد انور نے کہا کہ عدالت کے اضافی اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئی۔ جوڈیشل اختیارات کے معانی عدالت کے اختیارات ہیں جو وہ کبھی بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ صرف اس وقت جوڈیشل اختیارات سے روکا جائے گا جب عدالتوں کو تباہ کرنا مقصود ہو۔ آرٹیکل 212 میں سپریم کورٹ کو خصوصی اختیار دیا گیا ہے جب کسی بھی ٹربیونل کے خلاف کوئی اپیل سپریم کورٹ آتی ہے تو وہ اس کی سماعت کا حق رکھتی ہے بنیادی حقوق کا معاملہ یا عوامی اہمیت کا معاملہ بھی عدالت کے اختیار کو بڑھاتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں عدالت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ اس وقت مداخلت کر سکتی ہے جب عوامی اہمیت کا معاملہ ہو۔ حقائق پر کوئی اپیل دائر نہیں ہو سکتی آرٹیکل 213 بھی پڑھ کر سنایا۔ جمہوریت کے لئے انتخابات انتہائی اہم ہیں انتخابات جمہوریت کا دل ہیں اگر انتخابات نہیں ہوئے تو کوئی جمہوریت نہیں آئے گی۔ یہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہوا ہے اصل آئین میں بھی نہیں ہے۔ خالد انور نے آرٹیکل 2A کا بھی تذکرہ کیا۔ آرٹیکل 215 میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے حکومت کو 3 نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرنا ہوتے ہیں جس میں ایک کا وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مشاورت سے فیصلہ کرتے ہیں۔ حقیقت میں صرف چیف الیکشن کمشنر ہوتا تھا مگر اب یہ عہدہ مستقل کر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 224 بھی پڑھ کر سنایا۔ منصفانہ‘ شفاف الیکٹورل پراسس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 1973ءکے آئین میں نگران کابینہ کا تذکرہ نہیں تھا مگر 224 (I) میں اب اس کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔