سابقہ ملازمین اور فراڈ کے ماہرین کے مطابق یہ کمپنی ہر ماہ لاکھوں ڈالر کماتی ہے۔ Axact کو چھوڑنے والے کوالٹی کنٹرول آفیشل یاسر جمشید کے مطابق ”کسٹمر سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی یونیورسٹی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔“ یہ کمپنی جعلی اسناد کا کام عموماً پاکستان سے باہر کرتی ہے اور مشرق وسطیٰ کے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے علاوہ ایشیا، یورپ اور امریکا تک بیسیوں ممالک اس کی زد میں ہیں۔اخبار نے Axact کی دھوکہ دہی کا نشانہ بنے والے متعدد افراد کے بیانات کا بھی ذکر کیا ہے۔ سابقہ ملازم جمشید کے مطابق ایک سعودی شخص سے جعلی ڈگریاں اور سرٹیفکیٹس کے عوض 4لاکھ ڈالر (تقریباً 4 کروڑ پاکستانی روپے) ہتھیائے گئے۔ ایک مصری شخص نے گزشتہ سال انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری جان کیری کے دستخطوں کے ساتھ حاصل کرنے کے لئے 12ہزار ڈالر (تقریباً 12لاکھ پاکستانی روپے) ادا کئے۔ ابوظہبی کے ایک بڑے ہسپتال میں کام کرنے والی ایک نرس نے میڈیکل ڈگری کے حصول کے لئے 60ہزارڈالر (تقریباً 60 لاکھ پاکستانی روپے) لٹادئیے۔ ابوظہبی میں ہی ایک کنسٹرکشن کمپنی کے لئے کام کرنے والے جونیئر اکاﺅنٹنٹ موہن نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری اور انگلش لینگوئج ٹریننگ سرٹیفکیٹ کے لئے مختلف اوقات پر رقوم ادا کیں اور مجموعی طور پر 30 ہزار ڈالر (تقریباً 30 لاکھ پاکستانی روپے) لٹا بیٹھا۔2009میں امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے Axact کی ملکیت دو ویب سائٹوں بیلفرڈ ہائی سکول اور بیلفرڈ یونیورسٹی کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی۔ اس کارروائی میں جلد ہی 30 ہزار دیگر متاثرین بھی شامل ہوگئے، لیکن دفاع کے لئے Axactکی بجائے ایک پاکستانی شخص سلیم قریشی سامنے آگئے۔