انہوں نے کہاکہ ہم دونوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن بین الافغان مفاہمتی عمل کے بغیر صرف خواب رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے افغانیوں کی قیادت میں اور افغانیوں کے ملکیتی مفاہمتی عمل کیلئے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے اور صدر اشرف غنی کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے تمام ممکن کوششیں کریگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغان طالبان کی جانب سے تشددمیں اضافے اور آپریشن عزم کے نام سے کئے جانیوالے حملوں کی بھر پور مذمت کرتے ہیں اس طرح کے حملے دہشتگردانہ اقدام سمجھے جائیں گے اور ہم ایسے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کی جو بھی پناہ گاہیں تلاش کی جائیں گی انہیں براہ راست کارروائی کے ذریعے ختم کر دیا جائیگا اور اس حوالے سے موجود میکنزم کے ذریعے نگرانی کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو غیرمستحکم کرنے کی غرض سے کسی عسکریت پسند یا کسی گروپ کی جانب سے کی جانیوالی کی بھی کوشش کے ساتھ سختی سے نمٹا جائیگا اور ایسے عناصر کو تلاش کر کے نشانہ بنایا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی دہشتگردانہ کارروائی کی صورت میں پاکستان اور افغانستان کو جوابی کارروائی کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان پولیس کی استعداد کار میں اضافے کیلئے اقدامات کریگا جس میں پولیس کی تربیت بھی شامل ہے اور اس بارے میں ہم پہلے سے پیشکش کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرحد کے ساتھ عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کیلئے باہمی طور پر متفقہ بنیاد پر مربوط آپریشنز کی منصوبہ بندی کر کے ان پر عمل کیا جائیگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے دو طرفہ تعلقات تین اصولوں پر برقرار رہیں گے جن میں ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے عملدرآمد ، دوسرے ملک کیخلاف دہشتگردوں کو اپنی سرمین کے استعمال کی اجازت نہ دینا اور افغانستان کے دشمنوں کو پاکستان کے دشمن اور پاکستان کے دشمنوں کو افغانستان کے دشمن سمجھنا شامل ہیں۔ نواز شریف نے کہا