بار بار مداخلت پر کمیشن کے رکن جسٹس امیر ہانی مسلم نے شاہد حامد سے کہا کہ یہ نامناسب ہے آپ خاموش رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو سوال پر کوئی اعتراض ہے تو بتا ئیں با قی تو آپ کو کچھ نہیں کہنا چاہئے۔ یہ الیکشن کمیشن سے تعلق رکھتے ہیں یہ دستاویز الیکشن کمیشن نے جاری کی ہے یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے علم میں نہیں ہے۔ متعلقہ وقت یہ الیکشن کمیشن کا حصہ تھے آپ بیٹھ جائیں۔ پیرزادہ نے مداخلت پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ پیر زادہ نے گواہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ ڈاکومنٹ دیکھا تھا گواہ نے کہا کہ یہ نہیں دیکھا تھا۔ یہ ڈاکومنت میں نے تیار نہیں کیا اور نہ ہی یہ ڈاکومنٹ پہلے کبھی دیکھا ہے۔ پیرزادہ نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے ڈاکومنت مانگا تھا تین روز گزر گئے وہاں سے کوئی جواب تک نہیں آیا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ یہ ڈاکومنٹس میرے پاس موجود ہیں۔ پیرزادہ ان کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ پیرزادہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے جو ڈاکومنٹس داخل کرائے ہیں الیکشن کمیشن سے پوچھا جائے کہ وہ ان کو تسلیم کرتے ہیں یا مسترد۔ کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس کی ملکیت بارے بتائے۔ پیرزادہ سے کہا کہ آپ ان کو ڈاکومنٹ تو مہیا کریں۔ پیرزادہ نے کہا کہ ہم نے کمیسن کے پاس یہ ڈاکومنٹس فائل کر دیئے ہیں۔ یہ ڈاکومنٹ الیکشن کمیشن کو بھی دے دیتا ہوں جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ نے یہ سب الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے حاصل کئے ہیں؟ ممکن ہے کہ ان کو گزٹ میں بھی شامل کیا ہو۔ کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ پیرزادہ کیا آپ نے ڈاکومنت بارے ہوم ورک کیا ہے پیرزادہ نے کہا کہ یہ ان کا آفیشل ڈاکومنٹ ہے اس کے ہونے یا نہ ہونے کا اقرار کریں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ویب سائٹس پر پڑا ریکارڈ سارا درست بھی نہیں ہو سکتا۔ ہم صرف وہ ڈاکومنت مانیں گے جو براہ راست الیکشن کمیشن سے لیا گیا ہو۔ پیرزادہ نے کہا کہ ہمیں وقت دے دیں ہم ان کو ڈاکومنٹس دے دیتے ہیں یہ اس کی ملکیت بارے مبتلا دیں۔ یہ الیکشن کمیشن کا خصوصی ڈاکومنت ہے جس کو انہوں نے خود جاری کیا ہے کمیشن نے کہا کہ آپ ڈاکومنٹس فہرست دے دیں الیکشن کمیشن سے پوچھ لیتے ہیں 1 لاکھ 60 ہزار صفحات ہیں ایسے کیسے پتہ چلے گا۔سلمان اکرم نے کہا کہ ڈاکومنٹ دیکھے بعیر کیسے اس کی ملکیت بارے جواب دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سلمان سے کہا کہ آپ کو اس کا کتنا وقت درکار ہے جسٹس امیر نے کہا کہ آپ نے تحریک انصاف کی درخواست کا جواب دیا ہو گا آپ کیسے