چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل تین رکنی کمیشن نے جمعرات کے روز انتخابی دھاندلی بارے تحقیقات جاری رکھیں اس دوران کمیشن نے سابق الیکشن کمشنر پنجاب انور محبوب پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جو کچھ جانتے ہیں اس کے صحیح صحیح جواب دیں انہوں نے حلف اٹھایا کہ کمیشن کے حوالے سے کسی کو کچھ نہیں بتائینگے جو سوالات پوچھے جارہے ہیں ان کے جوابات دیں ۔ انور محبوب نے عبدالحفیظ کے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ آفیسر طے کرتاہے کہ کتنے بیلٹ پیپر چھاپنے ہیں وہ لکھ کر دیتا ہے ہر حلقے میںووٹرز کی تعداد سے زیادہ بیلٹ پیپر چھاپے جاتے ہیں انہیں یہ نہیں معلوم کہ کتنے حلقوں کے اضافی بیلٹ پیپر چھاپے گئے ہیں انہیں یہ بھی یاد نہیں ہے کہ پندرہ ہزار اضافی بیلٹ پیپرز بارے کس نے درخواست دی تھی آراوز کی جانب سے درخواستوں کاریکارڈ موجود ہے چھپائی کب شروع ہوئی اسے صحیح طو پر یاد نہیں پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا 19اپریل 2013ء کو چھپائی کا عمل شروع ہوچکا تھا اس پر انور محبوب نے کہا کہ یہ عمل پانچ مئی سے شروع ہوا میرا دفتر صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر میں تھا چھبیس مارچ کو جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی سے ملاقات ہوئی ۔ ملاقات عام نوعیت کی تھی جس میں انتخابی امور کے علاوہ کوئی معاملہ زیر بحث نہیں آیا اس دوران حفیظ پیرزادہ نے انہیں پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کی جانب سے بھجوائے گئے خط کا پوچھا تو انہوں کہا کہ انہیں اس حوالے سے صحیح طور پر یاد نہیں الیکشن کمیشن کے جواب پر اپنے دستخط پہنچانے سے بھی انہوں نے انکار کیا ۔ پیرزادہ نے ان سے پوچھا کہ بیلٹ پیپرز کس طرح پہنچائے گئے کیا یہ براہ راست کارروائی کارپوریشن سے آراوز کو ہوئی اس پر سابق الیکشن کمیشن پنجاب نے بتایا کہ یہ طریقہ کار کے مطابق بیلٹ پیپرز بھجوائے گئے اور براہ راست کارپوریشن سے آر اوز کو یہ بیلٹ پیپرز بھجوائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ انتخابات سے تین روز قبل تک انتخابی سامان مذکورہ حلقوں تک پہنچانے میں ہم کامیاب نہیں ہوئے تھے اضافی بیلٹ پیپر بھی چھاپے گئے اور یہ ویسے بھی چھاپے جاتے ہیں اور اس حوالے سے اضافی بیلٹ پیپرز کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو انہوں نے تحریری طور پر آگاہ بھی کیا تھا ۔