مخصوص قسم کے ہتھیار سے پانچ گولیاں مارکر قتل کرنا بالکل ایک نیا رجحان ہے ۔کراچی میں اچانک دوبارہ زور پکڑتی وارداتوں کا اعلٰی ترین سطح پر نوٹس لیا گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف گزشتہ روز مختصر دورے پر کراچی آئے اور انہوں نے بھی دہشت گردی کی نئی اور ایک ہی انداز میں ہونے والی وارداتوں کی جانب نشاندہی کی۔ آرمی چیف نے رینجرز کو ایک ہی انداز میں ہونے والی وارداتوں کے پیچھے کار فرماں عوامل کو بے نقاب کرنے کی ہدایت بھی کی۔تجزیہ کاروں کی آراء میں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ تو آپریشن کے دوران بھی جاری تھی لہذا حکومتی حلقوں میں تھانیدار کے قتل پر تو زیادہ بے چینی نہیں دیکھی گئی۔ لیکن سماجی کارکن سبین محمود کا قتل یقیناٰ اس وقت ہوا جب وہ بلوچستان کے حالات پر اپنے کیفے میں سیمینار منعقد کرنے کے بعد والدہ کے ہمراہ گھر واپس جارہی تھیں۔ جس کے باعث سوشل میڈیا پر شہریوں نے ملکی سلامتی کے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔ لیکن جلد ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے قتل کی مذمت اور تحقیقات میں معاون نے صورت حال واضح کردی۔سبین محمود کے قتل کی تحیقیقات کرنے والے ڈی آئی جی ڈاکٹر جمیل نے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سبین محمود کا قتل ایک انتہائی پیچیدہ واردات ہے جس کی لیے دہشتگردوں نے مکمل منصوبہ بندی کی ہے۔ واقعہ میں سبین کی والدہ مہناز بھی گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہوئیں ہیں جس کے تفتیش کار تاحال ان سے ملاقات نہیں کرسکے ہیں۔ البتٰہ ڈرائیور غلام عباس کے بیان سے کوئی مدد نہیں ملی۔ فرانزک تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سبین کے قتل میں استعمال ہونے والا ہتھیار اس سے قبل کسی واردات میں استعمال نہیں ہوا۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کسی نئے انتہا پسند گروہ کی کارروائی ہوسکتی ہے۔