القاعدہ کے مرحوم سربراہ اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ سے بر آمد ہونے والے ایک خط سے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے القاعدہ سے مذاکرات کرنے کیلئے رابطہ کیا تھا جس پر القاعدہ نے بھی مثبت جواب دیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق یہ خط القاعدہ کے نائب عطیہ عبدالرحمن کی طرف سے سال 2010میں تحریر کیا گیا تھا جس کو حال ہی میں امریکی عدالت میں ایک دہشتگرد عابد نصیر کے کیس کی سماعت کے دوران بطور ثبوت پیش کیا گیا۔ خط کی تحریر کے مطابق القاعدہ کو کاروائیاں جاری رکھنے کیلئے جہاں ایک طرف حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی خفیہ اداروں کی مدد حاصل تھی وہیں پاکستانی سیاست دان بھی ان کے ساتھ کسی قابل عمل مفاہمتی معاہدے کیلئے سرگرداں تھے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ادارے حقانی نیٹ ورک کے ذریعے القاعدہ سے رابطہ میں تھے اور اس ضمن میں حرکت المجاہدین کے رہنماء فضل الرحمن خلیل بھی کافی متحرک رہے۔ اسی خط میں پاکستانی خفیہ ادارے کے کسی ’شجاع شاہ‘ نامی افسر کے بھی القاعدہ سے بات چیت کیلئے رابطوں کا تذکرہ کیا گیا ہے مگر اس ضمن میں کوئی واضح بات نہیں کی گئی کہ وہ کون تھا یا ادارے میں اس کا عہدہ کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق احمد شجاع پاشا نے اس قسم کے کسی بھی رابطے کی تردید کی تھی۔ خط کے آخری حصے میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات میں تیز پیشرفت کیلئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کو بھی ایک ملاقات میں لایا گیا جبکہ القاعدہ سے مسلسل یہ درخواست بھی کی جا تی رہی کہ وہ پاکستان میں شدت پسندانہ کاروائیوں میں سست روی اختیار اور پاکستان کو امریکہ کو راضی کرنے کیلئے مناسب وقت دے۔ ایک اور خط میں عبدالرحمن نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ کہیں پاکستانی ادارے یہ سب کھیل محض القاعدہ کو پھنسانے کیلئے ہی تو نہیں رہے۔ واضح رہے جب ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا تو امریکی فوجی ان کی رہائش گاہ سے بر آمد ہونے والی تمام تر دستاویزات بھی اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔