’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو گیا ہے‘‘ نرس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سختی سے کہا‘ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر نرس کو دیکھا‘ وہ انجیکشن کا سامان اٹھا کر سامنے کھڑی تھی اور اس کے چہرے پر بیزاری اور تھکاوٹ تھی‘ میں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ’’ہم بیڈ پر کیوں لیٹیں‘ ہمیں انجیکشن کیوں لگے گا؟‘‘ اس نے گھور کر ہماری طرف دیکھا اور پھر پوچھا ’’تم دونوں میں مریض کون ہے؟‘‘میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور دوست نے میری طرف اور پھر ہم نرس سے مخاطب ہوئے ’’کیا ہم آپ کو مریض دکھائی دے رہے ہیں؟‘‘ نرس نے سختی سے جواب دیا ’’یہ مذاق کا ٹائم نہیں‘ میرے پاس اور بھی مریض ہیں‘
پلیز بیڈ پر آ جائیں‘‘ اب اس کی نظروں کا فوکس میرا دوست تھا‘ مجھے محسوس ہوا نرس اس کی پشت پر انجیکشن ٹھوک کر رہے گی‘ اس نے فوراً ہاتھ جوڑ دیے اور مسکین لہجے میں بولا ’’میری بہن میں مریض نہیں ہوں‘ مریض باہر لان میں سگریٹ پی رہا ہے‘ ہم اس کی عیادت کے لیے آئے ہیں‘‘ نرس کو کرنٹ سا لگا اور غصے سے بولی ’’کیا مریض کیموتھراپی میں سگریٹ پی رہا ہے‘‘ ہم دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ نرس پائوں پٹختی ہوئی باہر چلی گئی‘ ہم دونوں اٹھے اور باہر لان میں آ گئے‘ ہمارا مریض درخت کے سائے میں کھڑا ہو کر سگریٹ پھونک رہا تھا‘ دائیں بائیں اس کے زائرین کھڑے تھے‘ وہ انہیں شعر سنا رہا تھا اور وہ قہقہے لگا رہا تھا‘ مریض نے ہمیں دیکھا اور مسکرا کر کہا ’’چودھری صاحب آپ بیٹھیں میں سوٹا لگا کر آ رہا ہوں‘‘ ہمیں مریض کی بات پر یقین نہیں تھا لہٰذا ہم وہاں کھڑے رہے‘ مریض نے آخری کش لگایا‘
سگریٹ نیچے پھینکا‘ پائوں سے مسلا اور ہمارے ساتھ ہسپتال کے کمرے میں آ گیا‘ ہم نے مریض کو راستے میں نرس کی واردات سنائی‘ مریض نے قہقہہ لگا کر بتایا ’’نرس نئی ہو گی‘ پرانی تمام نرسیں مجھے جانتی ہیں‘ دوسرا تم لوگ اپنے چہرے اور حلیے دیکھو‘ تم دونوں شکل سے مریض لگتے ہو‘ شکر کرو وہ زبردستی تم لوگوں کی۔۔۔۔پر انجیکشن نہیں لگا گئی‘‘ ہم نے بھی قہقہہ لگایا اور مریض کے ساتھ کمرے میں آگئے‘ اس مریض کا نام سینیٹر مشاہد اللہ تھا‘ یہ دوسری مرتبہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوئے تھے‘ انہیں پہلی مرتبہ 2011ء میں کینسر ہوا‘ علاج ہوا‘ یہ ٹھیک ہو گئے لیکن پھر دس سال بعد کینسر دوبارہ پھیل گیا اور یہ ہسپتال پہنچ گئے لیکن ان کا جذبہ مکمل صحت مند تھا‘ یہ دیکھنے والوں کو شکل سے قطعاً بیمار محسوس نہیں ہوتے تھے‘کیموتھراپی کے دوران سیشن اٹینڈ کرتے تھے اور پورے ملک کو شعروشاعری سے قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے تھے‘ میں نے ان سے سیکھا انسان خواہ کتنا ہی بیمار کیوں نہ ہو لیکن اسے حوصلہ قائم رکھنا چاہیے اور بیمار دکھائی نہیں دینا چاہیے۔
میری طالب علمی کے دور میں ایک مشہور پامسٹ ہوتے تھے‘ ایم اے ملک‘ پنجاب یونیورسٹی کے قریب وحدت روڈ پر ان کا گھر تھا‘ میں ان دنوں شدید ڈپریشن سے گزر رہا تھا‘ میں اس فیز میں ان کے گھر چلا گیا‘ وہ گھر کے چھوٹے سے لان میں بیٹھے تھے‘ میں ان سے ملا‘ انہوں نے میرے ہاتھ کے پرنٹس لیے اور اس کے بعد ہنس کر کہا ’’بیٹا تم جب میرے گھر میں داخل ہوئے تو تمہارے کندھے جھکے ہوئے تھے‘ سینہ اندر تھا اور گردن آگے کی طرف گری ہوئی تھی‘ میں نے بڑے عرصے بعد اتنا ڈپریس نوجوان دیکھا‘ آپ پامسٹری اور پام ریڈنگ کو چھوڑو‘ میں تمہیں ایک مشورہ دیتا ہوں‘ انسان کی اندرونی صورت حال کتنی ہی بری کیوں نہ ہو لیکن وہ اس کے چہرے اس کے جسم سے نظر نہیں آنی چاہیے‘ آپ کے اندر کیا چل رہا ہے اسے ہمیشہ اندر چھپا کر رکھو‘ باہر سے سر اٹھا کر‘ سینہ پھلا کر پورے اعتماد کے ساتھ چلو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی‘‘ میں نے یہ بات پلے باندھ لی اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں کبھی گردن اور سر جھکا کر نہیں چلتا‘ حالات جو بھی ہوں میں انہیں کبھی اپنی چال‘ اپنے چہرے اور اپنی آواز میں نہیں آنے دیتا‘ مشاہد اللہ کی نرس نے مجھے اس دن ایک بار پھر ایم اے ملک یاد کرا دیا اور مجھے محسوس ہوا شاید ہمارے چہرے بیمار دکھائی دیتے ہیں جب کہ مشاہد اللہ نے اپنی بیماری اپنے چہرے پر بھی نہیں آنے دی‘
اس کے جسم میں کینسر کتنا پھیل چکا ہے ‘یہ کتنا کم زور ہو گیا ہے اور اس کے بدن میں کہاں کہاں درد ہوتا ہے یہ اسے اپنے چہرے تک نہیں آنے دے رہا اور یہ اس کا کمال ہے۔ میں نے ظہیر الدین بابر کے بارے میں پڑھا تھا اسے ایک بار جسم پر خارش ہو گئی‘ خارش اتنی شدید تھی کہ اگر کوئی کپڑا اس کے جسم سے چھو بھی جاتا تھا تو اس کے منہ سے چیخ نکل جاتی تھی‘ اس کے مخالف شیبانی خان کو پتا چلا تو وہ عیادت کے بہانے اس کی تکلیف انجوائے کرنے کے لیے آ گیا‘ بابر کو اطلاع ہوئی تو اس نے سر سے لے کر پائوں تک شاہی لباس پہنا‘ سر پر تاج رکھا اور دربار میں آ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا‘ شیبانی خان سارا دن اس کے ساتھ بیٹھا رہا‘ اس نے کھانا بھی اس کے ساتھ کھایا لیکن بابر نے اپنی تکلیف اپنے چہرے اور آواز تک نہیں آنے دی یہاں تک کہ آخر میں شیبانی خان مایوس ہو کر چلا گیا‘ مہمان جوں ہی محل سے نکلا‘ بابر نے فوری طور پر اپنا سارا لباس اتار کر پھینک دیا‘
پورے دربار نے دیکھا‘ اس کا پورا جسم سرخ تھا اور اس پر بڑے بڑے آبلے بن چکے تھے اور وہ سارا دن انہیں برداشت کرتا رہا تھا۔ میرے ساتھ خود ایک عجیب واقعہ پیش آیا تھا‘ راولپنڈی میں میرے ایک دوست ہوتے تھے‘ میں لاہور میں رہتا تھا‘ ان سے خط اور فون کے ذریعے رابطہ رہتا تھا‘ مجھے انہوں نے بہت اصرار کر کے راولپنڈی بلایا‘ سردیوں کا موسم تھا‘ کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی‘ میں بس کے ذریعے بڑی مشکل سے ان کے گھر پہنچا لیکن خلاف معمول ان کے رویے میں گرم جوشی نہیں تھی‘ انہوں نے بڑے ڈھیلے انداز سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا‘ مجھے بٹھایا‘ کھانا کھلایا اور چائے پلائی‘ وہ میری خدمت کر رہے تھے لیکن مجھے اس خدمت میں حرارت محسوس نہیں ہو رہی تھی‘ میں تین گھنٹے ان کے پاس بیٹھا رہا‘ ان سے گپ لگاتا رہا‘ وہ میرا ساتھ بھی دیتے رہے لیکن مزا نہیں آیا‘
میں نے آخر میں ان سے تکلفاً کہا‘ آپ مجھے اجازت دیں‘ میں واپس لاہور چلا جاتا ہوں‘ میرا خیال تھا وہ مجھے رکنے کا کہیں گے مگر توقع کے خلاف انہوں نے کہا ’’جیسے آپ کی مرضی‘‘ مجھے بہت برا لگا اور میں ان سے مل کر لاہور واپس چلا گیا‘ واپسی کا سفر بہت اذیت ناک تھا‘ بہرحال قصہ مختصر میرا دل ٹوٹ گیا اور میں نے ان سے قطع تعلق کر لیا‘ دس بارہ سال بعد ان سے سرراہ ملاقات ہوئی تو میں نے شکوہ کیا‘ وہ خاموشی سے سنتے رہے‘ میں جب اپنی بھڑاس نکال چکا تو وہ آہستہ سے بولے ’’جاوید صاحب میں آپ سے شرمندہ ہوں‘ میں نے خود آپ کو بلایا تھا لیکن جس وقت آپ میرے گھر پہنچے تھے اس وقت تازہ تازہ میرے بیٹے کا انتقال ہوا تھا‘ میرے گھر میں میت پڑی تھی‘ میں نہیں چاہتا تھا آپ کو پتا چلے اور آپ کی چھٹی خراب ہو جائے چناں چہ میں نے اپنی بیوی کو سختی سے کہا اندر سے رونے کی آواز نہیں آنی چاہیے‘ میرے مہمان کو ڈسٹرب نہیں ہونا چاہیے‘ میری بیوی نے اس صورت حال میں چائے بھی بنائی اور کھانے کا بندوبست بھی کیا‘ میں بھی آپ کے ساتھ گپ لگاتا رہا لیکن باپ ہوں گفتگو کے دوران میرا مائینڈ آف ہو جاتا تھا‘ آپ نے یقینا اسے سردمہری سمجھا ہو گا بہرحال قصہ مختصر آپ جوں ہی رخصت ہوئے‘ میں اور میری بیوی سیدھے بیٹے کی لاش پر گئے اور اس سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر روئے‘ ہم نے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کو بھی اس کے بعد اطلاع دی‘میرے دوست اس کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے جب کہ مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا اور میں ان کے پائوں میں بیٹھ گیا‘ آپ اس شخص کا حوصلہ دیکھیں وہ اس حالت میں بھی میری خدمت کرتا رہا تھا‘ میرے لطیفے اور واہیات گفتگو سنتا رہا تھا اور اس نے اپنے دکھ کو اپنے چہرے‘ اپنی آنکھوں تک نہیں آنے دیا تھا۔
میری زندگی کا نچوڑ ہے دنیا کو ہمارے دکھوں اور تکلیفوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا لہٰذا ہمیں چاہیے ہم اگر بیمار ہیں تو مشاہد اللہ کی طرح اپنی بیماری کو گردن سے نیچے چھپا لیں‘ اسے چہرے پر نہ آنے دیں‘ ہم اگر غریب ہیں تو غربت ہماری شکل اور ہمارے جسم پر دکھائی نہیں دینی چاہیے‘ ہم اگر ناکام ہیں تو ناکامی ہمارے حلیے‘ ہماری صورت پر نہیں آنی چاہیے‘ ہم اگر خوف زدہ ہیں تو خوف ہماری آواز‘ ہماری آنکھوں اور ہماری شکل پر نظر نہیں آنا چاہیے اور ہم اگر جاہل ہیں تو بھی ہماری جہالت ہماری صورت اور ہماری گفتگو تک نہیں پہنچنی چاہیے‘ یقین کریں زندگی اچھی گزرتی ہے ورنہ لوگ لوگوں کو جیتے جی دفن کر کے چلے جاتے ہیں۔