اسٹیوجابز کے نام سے آپ واقف ہیں ‘ دنیا میں جہاں بھی آئی پوڈ‘ آئی پیڈ اور آئی فون استعمال ہوتا ہے وہاں سٹیو جابز کا نام ضرور لیا جاتا ہے‘اس شخص کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں جدت ‘ معیار اورنئے آئیڈیاز کی وجہ سے ٹیکنالوجی کا امام مانا جاتا ہے لیکن ہمارا موضوع اس وقت اس کی کام یابیوںسے زیادہ اس کا بچپن ہے‘ اسٹیو جابز 24فروری 1955ء کو سان فرانسیسکو میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد عبد الفتاح جندلی تھے‘یہ شام کے مسلمان تھے جب کہ ان کی والدہ سوئس نژاد امریکن تھی اور ان کا نام جو این شبلے تھا‘ دونوں نے باقاعدہ شادی نہیں کی تھی‘ یہ مغربی معاشرے میں ایک عام سی بات ہے‘جو این شبلے کے ہاں اسٹیو کی پیدائش ہوئی ‘ سماجی دبائو کی وجہ سے جندلی اور جو این شبلے نے اسٹیوجابز کو کسی بے اولاد جوڑے کو گوددینے کا فیصلہ کیا‘ خوش قسمتی سے انھیں ایک جوڑا پال اور کلارا جابز کی صورت میں مل گیا‘
پال اور کلارا جابز نے اسٹیو کو گود لے لیا‘ اسٹیو اسی جوڑے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ جابز لکھتا ہے‘ پال اور کلارانے اسٹیو کو بھر پور محبت دی اور اس کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی‘ اسٹیو بڑا ہوا اور اپنی تخلیقی صلاحیت‘محنت اور جستجو کی وجہ سے تاریخ میں اپنا نام رقم کر گیا۔ آپ چند لمحوں کے لیے سوچیں اگر پال اور کلارا اسٹیو کو گود نہ لیتے تو شاید آج دنیا میں ایپل کمپنی ہوتی اور نہ ہی آئی فون‘ آئی فون اور اسٹیو کا نام ایک ساتھ آتا ہے تو جابز بھی لکھا جاتا ہے جو اصل میں اس گود لینے والی خاتون کے نام کا آخری لفظ ہے۔ کلارا جابز یوں پال اور کلارا جابز اپنے انسان دوست ہونے کی وجہ سے یاد رکھیں جائیں گے۔اللہ کا قانون یہی ہے وہ انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والوں کے نام کو زندہ رکھتا ہے۔
آپ اب ایک دوسری کہانی بھی ملاحظہ کیجیے۔
ایڈ گر ایلن پو ادب کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے ۔یہ The Tell-Tale Heart اور The Black Cat جیسی کہانیوں کا تخلیق کار ہے‘پو بے شمار ایسی کہانیوں‘ نغموں اور ناولز کا ذخیرہ چھوڑ کر گیا جو انگریزی ادب کی دنیا میں لمبے عرصے تک پڑھے جائیں گے‘ ایڈ گر ایلن پو 1809 میں پیدا ہوا۔ دو سو سال ہو گئے ہیں اس کا لٹریچر اور نام زندہ ہے ۔ پو کے والدین تھیٹر ادا کار تھے لیکن وہ دونوں اس وقت انتقال کر گئے جب ایڈ گر ایلن پو صرف تین سال کا تھا۔والدین کے بعد جان ایلن اورفرانسس ایلن نے پو کو گودلے لیا۔ فرانسس ایلن کی کوئی اولاد نہیں تھی‘ اس نے پو کو محبت اور شفقت کے ساتھ پالا۔ پو پوری زندگی اپنی تحریروں میں گود لینے والی اپنی اس ماں کا ذکرکرتا رہا‘ جان ایلن نے بھی پو کی پرورش کے معاملے میں اپنی بیوی کا بھرپور ساتھ دیاتھا یوں یہ یتیم بچہ پلا‘ اس نے تعلیم حاصل کی اور بعدازاں اس نے بڑا ہو کر انگریزی ادب میں اپنانام اور مقام پیدا کیا۔ ایڈ گر ایلن پو میں ایلن لفظ اسی گو د لینے والے جوڑے کے نام سے لیا گیا ہے۔ سوچیں اگر ایڈ گر کو یہ خاندان سہارا نہ دیتا‘یہ اسے گود نہ لیتا تو کیا دنیا میں ایڈگر اور اس جوڑے کا نام لینے والا کوئی موجو د ہوتا؟ کسی انسان کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے اللہ کا قانون حرکت میں آیا اور یو ں یہ جوڑا اور اس کا نام امر ہو گیا ۔
ہمارے ملک میں لاکھوں بچے اچھی خوراک اور تعلیم سے محروم ہیں‘ دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے کاغذ اور سیاہی کی خوشبو سونگھنے سے محروم ہیں۔یہ دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے بھی سٹیوجابز اور ایڈگرایلن پو ہیں‘ ان میں کتنا ٹیلنٹ چھپاہوا ہے یہ صرف اللہ جانتا ہے ۔ ان بچوں کی تعلیم ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اس وقت ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ یہ اس خوف ناک چیلنج سے ترجیحی بنیادوں پر نبٹ سکے چناں چہ پاکستان میں بہت سے لوگ انفرادی طور پر اورکئی ادارے اجتماعی طور پر تعلیم کے اس بحران کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ریڈفائونڈیشن بھی ان اداروں میں سے ایک ادارہ ہے‘ میں گزشتہ کئی سالوں سے اس ادارے سے واقف ہوں‘میں ان کے ساتھ رضاکارانہ طور پر بھی کام کرتا ہوں۔ریڈفائونڈیشن تعلیم کے میدان میں کمال کررہی ہے۔ یہ 400 تعلیمی ادارے 120 لٹریسی سنٹر اور 59 گورنمنٹ آف پنجاب کے تعلیمی اداروں کا انتظام سنبھال چکی ہے۔ سوالاکھ بچے ان اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ ان سوا لاکھ بچوں میں 30ہزار یتیم اور غریب بچے ہیں۔ یہ بچے فائونڈیشن کے کفالت پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ 8000 بچوں کو گھروں میں راشن کے لیے سپورٹ بھی دی جاتی ہے جب کہ 14000یتیم بچوں کی مکمل تعلیمی کفالت کی جاتی ہے۔ 16000 غریب بچوں کے لیے مفت تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان بچوں میں کئی اسٹیو جابز اور ایڈ گر ایلن چھپے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی سائنس دان ‘ انجینئر‘ ادیب اور بزنس مین موجو د ہیں۔ ان میں ٹیلنٹ کا خزانہ ہے۔ اس ٹیلنٹ کو تھوڑا سا پالش کرنے‘ ان بچوں کی ہمت باندھنے اور ان کی طرف تھوڑا سا دست شفقت بڑھانے کی دیر ہے اور یہ بھی ایڈگرایلن اور سٹیوجابز کی طرح کمال کر سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے یہ توفیق بھی اللہ نے آپ کے حصے میں لکھی ہو۔
رمضان المبارک کے مہینے کا آ غاز ہوچکا ہے۔آپ اس مہینے میں اپنی زکوٰۃ اور فطرہ دیتے ہیں ۔مسلمان اس مہینے میں بھوکے رہ کر بھوک کا احساس کرتے ہیں۔ پیاسا رہ کر پیاس کا ذائقہ چکھتے ہیں جس کے بعد ان کے دل میں بھوک اور پیاس سے سسکتے انسانو ں کے لیے احساس پیدا ہوتا ہے۔مسلمان ہر سال یہ پریکٹس کرتے ہیں ‘ اللہ نے رمضان کے روزے فرض کر کے اس احساس کو زندہ رکھنے کی تاقیامت یاد دہانی کا انتظام کر دیا۔ اس رمضان میں آپ اپنی زکوٰۃ ‘ فطرہ اور عطیات سے اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اکائونٹ کھول سکتے ہیں ۔آپ 48 ہزار روپے دے کر کسی ایک بچے کے لیے سال بھر تعلیم کا بندوبست کر سکتے ہیں‘ آپ نے سال میں ایک بار 48 ہزار روپے جمع کرانے ہیں اور اس سے مستفید ہونے والا بچہ سارا سال نئے کپڑے پہن کر کتابوں ‘کاپیوں‘ جوتوں اور فیس کی ادائیگی کے غم سے آزاد ہو کر سکول جائے گا‘ اس کی خوشی کا احساس سارا سال زندہ رہے گا۔اس کی ماں کے ہاتھ سارا سال آپ کے لیے اٹھتے رہیں گے ۔ آپ کی معمولی سی رقم آپ کی عد م موجودگی میں آپ کے لیے دعا بن جائے گی‘ آپ کی ڈھال بن جائے گی اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے قرب کا ذریعہ بن جائے گی۔ آپ جو ں ہی کسی بچے کی کفالت کی ذمہ داری لیں گے اور 48000 روپے سالانہ فائونڈیشن کے بینک اکائونٹ میں ٹرانسفر کریں گے تو فائونڈیشن کا نمائدہ آپ کو رقم کی رسید کے ساتھ بچے کی تفصیل آپ کو ارسال کردے گا۔
سال کے آخر میں آپ کو بچے کی پراگریس رپورٹ تازہ تصویر کے ساتھ ارسال کی جائیگی اور اگلے سال کے لیے یاد دہانی کروائی جائے گی یوں آپ اگر کفالت جاری رکھنا چاہیں گے تو سلسلہ مزید آگے چلتا رہے گاورنہ کوئی دوسرا خوش قسمت شخص اس بچے کے لیے وسائل فراہم کرنا شروع کر دے گا۔ فائونڈیشن یہ کام 30 سالوں سے کررہی ہے۔ فائونڈیشن نے مخیر حضرات کے تعاون سے 200 سکولز کی اپنی عمارتیں بنالی ہیںاور کئی مزید زیر تعمیر ہیں کئی لوگوں نے اپنے پیاروں کے نام سے مکمل سکولز بھی تعمیر کیے ہیں۔ کئی مخیر حضرات نے اپنی زائد از ضرورت جائیدادیں فائونڈیشن کو عطیہ کی ہیں۔ یوں سینکڑوں لو گ اس کار خیر سے جڑ چکے ہیں۔ آپ اپنی زکوٰۃ‘ صدقات‘ عطیات اور فطرہ سے ان یتیم بچوں کی کفالت کر سکتے ہیں۔ ایک بچے کا سالانہ خرچ 48000 روپے ہے۔ آپ بچے کی ذمہ داری نہ لینا چاہیںتو آپ جو بھی رقم دے سکتے ہیں وہ ارسال کر دیں۔ آپ کی یہ رقم یتیم بچوں کے لیے قائم پول فنڈ کے اکائونٹ میں جائے گی‘آپ اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق زیادہ بچوں کو بھی فنانس کر سکتے ہیں‘ میرے ایک مہربان دوبئی میں رہتے ہیں‘ یہ 250 بچوں کی کفالت کر رہے ہیں۔
میری اس کالم کے ذریعے آپ سے اپیل ہے آپ اپنا دست شفقت بڑھائیں‘ اپنی زکوٰۃ‘صدقات اور عطیات فائونڈیشن کو ارسال کریں ۔اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں آپ کی مدد فرمائے گا‘ آپ فائونڈیشن کے نمائندے سے بات کرنا چاہتے ہیں تو آپ ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں‘ آپ کی سہولت کے لیے فائونڈیشن کے اکائونٹ اور ویب سائٹ کی تفصیل بھی درج کررہا ہوں۔آپ کی تھوڑی سی مہربانی سے کسی بچے اور اس کے خاندان کی زندگی تبدیل ہو سکتی ہے۔