بابا جی سے میں نے ایک دن پوچھا ’’ ہماری روحانی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے‘وہ بزرگ چلتے چلتے ندی کے کنارے پہنچے‘ پانی کی سطح پر پائوں رکھا اور پانی پر چلتے چلتے ندی کے پار اتر گئے‘ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا انسان روحانیت کے زور سے پانی پر چل سکتا ہے‘‘ بابا جی نے قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’تذکرہ نویس ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کے بزرگ روحانی طاقت سے انسان سے بطخ بن گئے تھے‘‘ میں نے حیران ہو کر عرض کیا ’’کیا مطلب؟‘‘ وہ بولے ’’ لاکھوں‘ کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں میں سے کوئی ایک پانی پر چلنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہو گا مگر یہ کام دنیا کی ہر بطخ اور اس کے بچے روز کرتے ہیں‘ تمام بگلے‘ پانی کے تمام پرندے دنیا کے ہر کونے میں پانی پر تیرتے اور چلتے پھرتے ہیں لہٰذا یہ کیا روحانیت ہوئی‘ انسان‘ انسان سے بطخ بن گیا‘‘
میں نے عرض کیا ’’ بزرگوں کے بارے میں لکھا جاتا ہے وہ اچانک ہوا میں اڑنا شروع ہو گئے‘‘ بابا جی نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا اور فرمایا ’’ گویا وہ روحانی طاقت سے مکھی بن گئے‘‘ میں نے سر جھکا لیا‘ وہ بولے ’’ بیٹا ہم اگر دس‘ بیس‘ چالیس سال کی تپسیا سے اڑنے کی شکتی حاصل کر لیں تو بھی ہم مکھی سے بہتر نہیں اڑ سکتے‘ ہم چڑیوں‘ طوطوں‘ کوئوں‘ چیلوں اور عقابوں سے اچھا نہیں اڑ سکیں گے چناںچہ یہ کیا روحانیت ہوئی‘ انسان‘ انسان نہ رہا‘ مکھی‘ طوطا یا کوا بن گیا یا چیلوں اور چڑیوں کا مقابلہ کرنے لگا‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’ اور بزرگوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے‘ اللہ کے فلاں ولی چشم زدن میں ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ جاتے تھے‘‘ بابا جی نے مسکرا کر جواب دیا ’’ یہ بھی کوئی کمال نہیں‘ شیطان کی سپیڈ اس سے بھی ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے‘ یہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دنیا کے کسی بھی مقام پر پہنچ سکتا ہے‘
شیطان اپنی سپیڈ ہی کی وجہ سے ایک لمحے میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو گمراہ کرتا ہے چناںچہ یہ کیا روحانیت ہوئی‘ انسان دس بیس پچاس سال وظیفے اور چلے کرے اور آخر میں شیطان کے ساتھ ریس شروع کر دے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ پھر روحانیت کیا ہے‘ ‘ بابا جی بولے ’’روحانیت اشرف المخلوقیت ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس قدر مطمئن‘ شاکر‘ صابر‘ عالم‘ متحرک اور خوش پیدا کیا تھا‘ انسان ٹینشن‘ پریشانیوں‘ ہوس اور افراتفری کے اس زمانے میں خود کو واپس اس بنیاد کی طرف لے جائے‘ یہ لوگوں کے درمیان رہے‘ ان سے معاملہ کرے‘ ترقی کرے‘ آگے بڑھے‘ لوگوں کی مدد کرے اور اپنے اہل و عیال کے نان نفقے کا بندوبست بھی کرے لیکن ان تمام کارہائے دراز کے باوجود اللہ کی یاد سے بھی غافل نہ ہو‘ یہ اپنی ہر کام یابی اور اپنی ہر ناکامی میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے‘ یہ سوئے تو اللہ سے توبہ کر کے سوئے‘ یہ جاگے تو اللہ کا شکر ادا کرے‘ یہ رزق حلال پائے تو اللہ کا شکر گزار ہو‘ یہ رزق حلال ہضم ہو جائے تواللہ کا احسان مند ہو‘ مشکلیں پڑیں تو مخلوق کی بجائے خالق سے رابطہ کرے‘ مشکلیں آسان ہو جائیں تو بھی مخلوق سے قبل خالق کا شکر ادا کرے‘ یہ کل روحانیت ہے۔
میں نے عرض کیا ’’ کیا حکمران بھی ولی ہو سکتے ہیں‘‘ بابا جی نے جواب دیا ’’ حکمران عام آدمی کے مقابلے میں ولایت کے بہت قریب ہوتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیسے؟‘‘ باباجی نے فرمایا ’’ بیٹا ہم لوگ جہاں سینکڑوں ہزاروں راتوں کے وظیفوں کے بعد پہنچتے ہیں‘ حکمران صرف حکومت کا حلف اٹھا کر وہاں پہنچ جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ہمیں سینکڑوں قربانیوں کے بعد خلق خدا کو مشکلات سے نکالنے‘ ان کا درد دور کرنے‘ ان کے مالی مسائل حل کرنے اور انہیں ریلیف دینے کی طاقت دیتا ہے مگر حکمرانوں کو یہ اختیار‘ یہ طاقت اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی مل جاتا ہے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ’’ دنیا کے ہر بزرگ کے ڈیرے پر لنگر چلتا ہے‘
یہ لنگر دن رات جاری رہتا ہے لیکن ہم اس لنگر سے صرف چند سو یا چند ہزار لوگوں کو کھانا کھلا سکتے ہیں لیکن حکمران تین سطروں کا آرڈر جاری کر دے‘ یہ آٹے کی قیمت میں نصف کمی کر دے تو لاکھوں کروڑوں لوگوں کے چولہے جلنے لگتے ہیں‘ یہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول کر دے‘ یہ فیصلہ کر لے‘ ہم ایگریکلچر کو فروغ دیں گے‘ ہم ملک میں سبزیوں‘ دالوں‘ اناج اور پھلوں کی فراوانی کر دیں گے‘ ہم دودھ‘ روٹی اور چینی کی قیمت نہیں بڑھنے دیں گے اور یہ تہیہ کر لیں ہمارے ملک میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوئے گا تو آپ یقین کیجیے چند دنوں یا ہفتوں میں کروڑوں لوگوں کی بھوک کا مسئلہ حل ہو جائے‘ لوگ خوش حال ہو جائیں‘‘۔ بابا جی نے فرمایا ’’ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا کر‘ اللہ تعالیٰ کی منت کر کے ایک آدھ بے روزگار کو برسر روز گار کر سکتے ہیں‘ ہم اس کے لیے خوش حالی کے دروازے کھول سکتے ہیں لیکن حکمران فیصلہ کر لیں‘ ہمارے ملک میں آج سے کوئی شخص بے روز گار نہیں رہے گا‘ ملک کا ہر وہ نوجوان جس کی عمر اٹھارہ سال ہو جائے گی‘ وہ کوئی نہ کوئی کام کرے گا‘
اس کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر ہو گا اور وہ اس ہنر کے ذریعے روزانہ روزی کمائے گا تو چند مہینوں میں لاکھوں کروڑوں لوگ خوشحال ہو جائیں گے‘ لوگوں کا مقدر بدل جائے گا‘‘ باباجی بولے ’’ ہم اللہ تعالیٰ کی منت کر کے کسی ایک آدھ مریض کی شفاء کا ذریعہ بن سکتے ہیں‘ کسی ایک آدھ زخمی کے زخموں کا علاج کر سکتے ہیں لیکن حکمران آج فیصلہ کر لیں‘ میرے ملک میں کوئی زخمی‘ کوئی مریض علاج کے بغیر نہیں رہے گا‘ ملک کے ہر شہری کو ڈاکٹر اور دوا ملے گی تو لاکھوں‘ کروڑوں مریضوں تک شفاء پہنچ جائے گی‘ مریض مطمئن ہو جائیں گے‘‘ بابا جی بولے ’’اور ہم اللہ کے دس بیس گناہ گار بندے اللہ کے در پر سر رکھ کر ایک آدھ مظلوم کو انصاف دلا پاتے ہیں لیکن اگر حکمران فیصلہ کر لے میرے ملک میں آج سے کسی شخص کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی‘ ملک کے ہر شہری کو عدل ملے گا تو کروڑوں مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کو قرار آ جائے گا‘‘ بابا جی نے لمبی سانس لی اور فرمایا ’’ آپ بتائو ہم بڑے ولی ہیں یا حکمران‘ ہم اپنی کوشش‘ تپسیا اور منت سے اللہ تعالیٰ کے رحم کی زنجیر ہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہم پر کرم کر کے ہماری جھولی میں اپنے انعام کے چند پھول ڈال دیتا ہے مگر یہ حکمرانوں کو بن مانگے اپنے لاتعداد اختیارات دے دیتا ہے‘ یہ انہیں قطب‘ ابدال اور مجدد سے زیادہ بڑا مقام دے دیتا مگر افسوس یہ لوگ اللہ کے اس کرم کی قدر نہیں کرتے‘ یہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیتے ہیں‘‘۔
میں نے بابا جی سے پوچھا ’’اللہ جب حکمرانوں سے ناراض ہوتا ہے تو یہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے‘‘ بابا جی مسکرائے اور بولے ’’ حکمرانوں کے ساتھ اللہ کے سلوک کی طرف جانے سے قبل میں آپ کو یہ بتاتا ہوں‘ ہمارا خالق جب روحانی بزرگوں سے ناراض ہوتا ہے تو یہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ بزرگوں کی دعائوں سے اثر خارج کر دیتا ہے‘ ہم اس سے کسی کے لیے رزق کی فراوانی مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے مزید مالی مسائل کا شکار کر دیتا ہے‘ ہم کسی کیلئے شفاء مانگتے ہیں‘ کسی کے لیے خوش حالی کی دعا کرتے ہیں یا پھر اس کے لیے انصاف کی عرضی ڈالتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے شکنجے کی مزید گراریاں چڑھا دیتا ہے‘ یہ مزید مشکلات میں پھنس جاتا ہے بالکل حکمرانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے اللہ جب کسی حکمران سے ناراض ہوتا ہے تو یہ اس کے احکامات میں سے حکم اڑا دیتا ہے‘
حکمران حکم جاری کرتے ہیں مگر مسئلہ حل ہونے کی بجائے اس کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ یہ مہنگائی کنٹرول کرنے کا حکم دیتے ہیں‘ مہنگائی بڑھ جاتی ہے‘ یہ امن قائم کرنے کے احکامات جاری کرتے ہیں‘ ملک میں بدامنی بڑھ جاتی ہے‘ یہ انصاف دینے کے آرڈر جاری کرتے ہیں‘ ملک میں ظلم بڑھ جاتا ہے اور یہ روزگار کی سکیمیں بناتے ہیں اور بے روزگاری میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے گویا اللہ تعالیٰ ان کے احکامات سے برکت ختم کر دیتا ہے اور یوں یہ تمام تر اختیارات اور مینڈیٹ کے باوجود بے توقیر اور بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں اور حکمرانوں کی یہ بے بسی اللہ تعالیٰ کی ناراضی‘ اللہ تعالیٰ کے غصے کی نشانی ہوتی ہے‘‘۔