ہندوستان پہنچ کرانگریز کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ چالیس کروڑ لوگوں کو انگریزی سکھاتے‘ لوگوں کی زبان میںلوگوں سے کمیونی کیشن کرتے اور آقا اور غلام کا فرق مٹ جاتا یا پھر انگریز ہندوستانی زبان سیکھ لیتے‘ یہ مقامی لوگوں سے مقامی زبان میں گفتگو کرتے‘ دوسرا آپشن آسان تھا‘ انگریزوں نے مقامی زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا‘ فیصلہ ہو گیا مگر فیصلے کے بعد کی صورت حال پہلی حالت سے زیادہ مشکل‘ زیادہ گنجلک تھی‘
ہندوستان میں چار سو زبانیں بولی جاتی تھیں‘ تین سو میل بعد زبان‘ کلچر‘ رنگ اور مذہب بدل جاتا تھا‘ ہندوستان میں ہندوئوں کی اکثریت تھی مگر ہر چوتھے ہندو کی مورتی‘ بھگوان اور حلیہ دوسروں سے مختلف تھا‘ ہندوئوں کی زبان سنسکرت تھی‘ مسلمان فارسی اور عربی بولتے تھے‘ مغلوں کی سرکاری زبان فارسی تھی‘ جنوبی حصوں کی زبان بنگالی‘ ملیالی اور تامل تھی‘ بحر ہند کے ساتھ ساتھ سندھی بولی جاتی تھی‘ پنجاب کی زبان پنجابی اور افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر واقع شہروں میں پشتو اور بلوچی بولی جاتی تھی‘ انگریز پریشان ہوگیا‘ اس کے لیے کسی ایک زبان کا انتخاب مشکل ہو گیا‘ جان گلکرسٹ زبانوں کا ماہر تھا‘ انگریز سرکار نے اسے یہ فریضہ سونپ دیا‘ گلکرسٹ نے تحقیق کی تو پتہ چلا ہندوستان میں ان زبانوں کے علاوہ بھی ایک زبان ہے‘ یہ گلی محلے کی زبان ہے‘ یہ زبان مختلف زبانوں کے ملاپ سے پیدا ہوئی‘ اس میں ہندوستان بلکہ باہر سے آنے والی تمام زبانوں کے الفاظ بھی موجود ہیں‘ یہ زبان ہندوستان کے تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے‘ جان گلکرسٹ نے انگریز سرکار کو اس زبان کی سرپرستی کا مشورہ دے دیا‘ یہ زبان شروع میں ہندوستانی اور بعد میں اردو کہلائی۔
انگریز نے جولائی 1800ء میںکلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا‘ اس کالج میں انگریزوں کو اردو‘ فارسی اور سنسکرت سکھائی جاتی تھی جب کہ مقامی لوگوں کو انگریز کی تعلیم دی جاتی تھی‘ کالج سے فارغ ہونے والے انگریز اعلیٰ افسر بنتے تھے جب کہ مقامی لوگ ان افسروں کے ماتحت یا اہلکار ہوتے تھے‘ جان گلکرسٹ کو ہندوستانی (اردو) زبان کا انچارج بنا دیا گیا‘ گلکرسٹ نے اردو کی صرف و نحو تخلیق کروائی‘
اس کے حروف تہجی بنوائے‘ اس کا رسم الخط طے کیا‘ نستعلیق رسم الخط کا ٹائپ اور چھاپہ خانہ تیار کروایا‘ منشی بھرتی کیے اور اردو کی کتابیں لکھوانا شروع کر دیں‘ جان گلکرسٹ کی سرپرستی میں 1803ء میں اردو کی پہلی کتاب شائع ہوئی‘ اس کتاب کا نام اخلاق ہندی تھا‘
یہ کتاب میر بہادر علی حسینی نے لکھی‘ یہ کتاب اس وقت شائع ہوئی جب مرزا اسد اللہ غالب سات سال کے بچے جب کہ ہندوستان کے سب سے بڑے شاعر میر تقی میر زندگی کے آخری سات سال گزار رہے تھے‘ اخلاق ہندی انگریزوں کو اردو سکھانے کے لیے لکھی گئی ‘ یہ کتاب شائع ہونے سے قبل فورٹ ولیم کالج کے نصاب میں شامل ہو گئی‘ یہ ہندوستان کے گلی کوچوں میں آوارہ پھرنے والے واقعات پر مبنی تھی‘
اس نے انگریز سرکار کو مقامی لوگوں کو سمجھنے میں بہت مدد دی‘ اخلاق ہندی کے بعد واقعات پر مبنی کتابوں کی لائین لگ گئی‘ جان گلکرسٹ کے منشی دھڑا دھڑ کتابیں لکھنے لگے اور انگریز سرکار یہ کتابیں شائع کرتی چلی گئی‘انیسویں صدی کے آخر میں ان کتابوں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی‘ انگریز حکومت ان کتابوں کے چند نسخے لندن بھجوا دیتی تھی‘ یہ کتابیں آج بھی لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہیں‘
یہ کتابیں ہندوستان اور اردو دونوں کی تاریخ ہیں‘ کاش ہماری حکومت یا کوئی یونیورسٹی برطانیہ کی مدد سے ان کتابوں کی ڈیجیٹل لائبریری بنادے اور یہ کتابیں پاکستان کی تمام بڑی لائبریریوں اور یونیورسٹیوں میں رکھوا دی جائیں‘ اگر حکومت یہ کتابیں دوبارہ شائع کروا دے تو یہ اردو سے محبت کرنے والوں پر بہت بڑی مہربانی ہو گی۔ہندوستان کی ان قدیم کتابوں میں ’’ جامع الحکایات‘‘ نام کی ایک کتاب بھی شامل ہے‘
یہ کتاب دکن کے مشہور دانشور شیخ صالح محمد عثمانی نے لکھی تھی‘ یہ 1825ء میں شائع ہوئی اور اس نے اپنے دور میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے‘ یہ ہاتھوں ہاتھ بکی اور ایک طویل عرصے تک ہندوستان کے عوام اور خواص کی محفلوں میں زیر بحث رہی‘ اس کتاب میں دو سو حکایتیں ہیں‘ یہ کتاب سنٹرل ایشیا‘ افغانستان‘ ایران اور ہندوستان کے راجائوں‘ ملکائوں‘ بادشاہوں اور شہزادوں کے قصوں اور واقعات پر مبنی ہے‘
مجھے اس کتاب کے چند واقعات پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ جامع الحکایات کے ایک واقعے نے ذہن کی تنابیں تھام لیں اور یہ آج تک اس واقعے کے ہاتھ میں ہیں‘ واقعہ کچھ یوں تھا‘ ترکستان کا بادشاہ لمبی عمر کا خواہاں تھا‘ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کے طبیبوں نے بتایا‘ ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں آب حیات کی تاثیر ہے‘
آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک ایسی دوا بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے‘ ترکستان کے بادشاہ نے دس لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور یہ وفد ہندوستان کے راجہ کے پاس بھجوا دیا‘ اس وفد میں ترکستان کے طبیب بھی شامل تھے اور بادشاہ کے انتہائی قریبی مشیر بھی‘ وفد نے ہندوستان کے راجہ کو ترک بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا‘ راجہ نے پیغام پڑھا‘ قہقہہ لگایا‘
سپاہی بلوائے اور وفد کو گرفتار کروا دیا‘ راجہ گرفتاری کے بعد انہیں سلطنت کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے قریب لے گیا‘ اس نے پہاڑ کے نیچے خیمہ لگوایا‘ ان دس لوگوں کو اس خیمے میں بند کروایا اور اس کے بعد حکم جاری کیا‘ جب تک یہ پہاڑ نہیں گرتا‘ تم لوگ اس جگہ سے کہیں نہیں جا سکتے‘ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن مار دی جائے گی‘
راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آگیا‘ ترکستانی وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی‘ وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے‘ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی حامی ‘ کوئی ناصر نہیں تھا‘ وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے‘ وہ صرف کھانا کھانے‘ واش روم جانے یا پھر وضو کرنے کے لیے سجدے سے اٹھتے تھے اور پھر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا چناںچہ ایک دن زلزلہ آیا‘
زمین دائیں سے بائیں ہوئی‘ پہاڑ جڑوں سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے‘ ان دس لوگوں اور سپاہیوں نے بھاگ کر جان بچائی‘ راجہ کے سپاہی دس لوگوں کو لے کر دربار میں حاضر ہو گئے‘ انہوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنا دیا‘ راجہ نے بات سن کر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا‘ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جائو‘ اسے یہ واقعہ سنائو اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو‘
اسے کہو ’’ دس لوگوں کی بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح دس بیس لاکھ عوام کی بددعائیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو ریت بنا سکتی ہیں‘ تم اگر لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بددعائوں سے بچو‘ تمہیں کسی دوا‘ کسی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔انگریزوں کا خیال تھا شیخ صالح محمد عثمانی نے یہ حکایت سرکار کو سمجھانے کے لیے لکھی‘
وہ اس حکایت کے ذریعے انہیں یہ سمجھانا چاہتے تھے‘ آپ مقامی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں‘ لوگوں کی بد دعائیں نہ لیں‘ بددعائیں پہاڑ توڑدیتی ہیں‘ آپ تو پھر بھی گوشت پوست کے عام لوگ ہیں‘ انگریز سرکار نے ایسی حکایات سے سبق سیکھا یا نہیں سیکھا‘ یہ ایک طرف مگر یہ حقیقت ہے اس نوعیت کی حکایات دنیا کے ہر معاشرے‘ ہر ملک اور ہر دور کے حکمرانوں کے لیے ہوتی ہیں ‘
عام آدمی کی دعا اور بد دعا میں بہت اثر ہوتا ہے‘ دنیا کے تمام انبیاء کا تعلق اعلیٰ خاندانوں سے تھا لیکن یہ رہائش پذیر عام لوگوں کے ساتھ ہوئے‘ کیوں؟ کیوںکہ اللہ اور اس کی رحمت غریبوں میں ہوتی ہے اگر غریب آپ سے خوش ہیں‘ یہ جھولی پھیلا کر آپ کے لیے دعا کر رہے ہیں تو مصائب کے بڑے بڑے پہاڑ بھی آپ کے لیے ریزہ ریزہ ہو جائیں گے لیکن اگر عام آدمی آپ سے تنگ ہے‘
یہ آپ کو بددعائیں دے رہا ہو تو پھر آپ کی طبعی عمر اور اقتدار دونوں کا دورانیہ لمبا نہیں ہو گا‘ آپ اپنی بربادی کا چلتا پھرتا اشتہار ہوں گے اور آپ کے اقتدار کا برج کسی بھی دن گرجائے گا اور آپ اس کے نیچے آکر عبرت کی قبر بن جائیں گے‘
یہ حکایت دنیا کے ہر اس حکمران کے لیے تخلیق ہوئی جو مسند اقتدار پر فروکش ہوکر خود کو عقل کل‘ سکندر اعظم اور عظمت کا رشتہ دار سمجھ لیتا ہے‘ جو مخلوق کو حقیر‘ عوام کو جذباتی اور مشورے دینے والوں کو بے وقوف سمجھنے لگتاہے اور یہ بھول جاتا ہے جہاں اقتدار ختم ہوتا ہے اللہ کا اختیار وہاں سے شروع ہوتا ہے اور اللہ عوام کی زیادہ سنتا ہے‘ یہ محروم بندوں کو زیادہ توجہ دیتا ہے۔