480طالب علم منتظر

18  اپریل‬‮  2023

پہلی کہانی چک نمبر345تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جویریہ نورین کی ہے‘ اس کا والد ان پڑھ اور بے ہنر تھا‘وہ مزدوری کرکے بمشکل اتنے پیسے کماتا تھا جس سے گھر کا چولہا جل سکتا تھا‘چاربہن بھائیوں میں صرف جویریہ نورین کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا‘گائوں کے سرکاری سکول میں پڑھ کر اس نے میٹرک میں82 فیصد نمبر حاصل کیے‘علاقے کے کچھ نیک دل لوگوں نے مالی تعاون کیا

اور یہ بچی ایف ایس سی میں داخل ہو گئی‘ جویریہ نورین سال اول میں تھی تووالدہ وفات پا گئی‘ ایک سال بعد و الد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا‘تین بہنیں اور بڑا بھائی شادی شدہ تھے لہٰذا یہ اکیلی رہ گئی ‘اس غربت اور نفسیاتی دبائو کے باوجود اس نے ایف ایس سی کا امتحان بھی ا علیٰ نمبروں سے پاس کر لیا‘ والدین کا سایہ سرپر نہیں تھا اور بہن بھائی اس کی روزمرہ ضروریات کے لیے مدد نہیںکر سکتے تھے لہٰذااس نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردی‘ایف ایس سی اعلیٰ نمبروں سے پاس کرنے کے باوجود میڈیکل کالج میں داخلے کا خواب پورا نہ ہوسکا‘ٹیوشن کی کمائی اور ایک بہن کے مالی تعاون سے اس نے گورنمنٹ کالج فار ویمن یونیورسٹی فیصل آباد میں بی ایس آنرز (فزکس) میں داخلہ لے لیا‘ اب ٹیوشن پڑھا کر رقم کمانا بھی ممکن نہیں رہا تھا‘تعلیم اور میس کے اخراجات دینے مشکل ہوئے تو اس نے اساتذہ سے مدد کی درخواست کی‘

یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسے کاروان علم فائونڈیشن کا بتایا‘اس نے سکالرشپ کے لیے درخواست ارسال کی تو اسے فائونڈیشن کی طرف سے تمام تعلیمی ضروریات کے لیے مالی مدد فراہم کی جانے لگی‘ آج یہ طالبہ بی ایس آنرز کے آخری سمسٹر میں زیر تعلیم ہے۔دوسری کہانی بستی بوہڑ والا ضلع مظفر گڑھ کے فہیم عباس کی ہے‘ گھر میںغربت اور والدین میں ناچاقی کا ماحول تھا‘بچپن میں ایک حادثے نے اسے دائیں بازو سے معذور کر دیا‘ جب وہ دس سال کا تھا تو والد نے دوسری شادی کرلی‘

یہ پانچ بھائی والدہ کی ذمہ د اری بن گے‘ والدہ نے گھروں میں صفائی اور برتن دھو کر بچوں کو رزق کھلانا شروع کر دیا‘ماں نے فہیم عباس کو بتا دیا تھا اگر وہ تعلیم حاصل کرے گا تو ان کے حالات بدلیں گے‘فہیم عباس نے چھٹی کلاس سے ہی گائوں کی ایک دکان پر ملازمت کرلی تھی‘وہ صبح دکان پر صفائی وغیرہ کرکے سکول چلا جاتا‘ واپسی پر پھر دکان پر آجاتا‘ شام کے بعد چھٹی ملتی‘

رات کو باقی گھر والے سو رہے ہوتے تو وہ سکول کا ’’ہوم ورک‘‘ کررہا ہوتا‘یہ سلسلہ جاری رہا‘اس نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا‘کسی نے مشورہ دیا لائیو اسٹاک اسسٹنٹ کا ڈپلومہ کرلو تو جلد برسرروزگار ہو جائو گے‘ محلے داروں اور عزیز و اقارب کی مدد سے اس نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں داخلہ لے لیا‘اساتذہ اور دوست ا حباب کے تعاون سے میس کا خرچ پورا ہونے لگا‘

والدہ بھی کبھی کبھا ر گھر سے رقم بھیج دیتی تھی لیکن وہ ا گلے دو سمسٹرز کی فیس نہ دے سکا‘چوتھے سمسٹر کی فیس بھی واجب الاداتھی‘یونیورسٹی کے ایک کلرک نے اسے کاروان علم فائونڈیشن کا بتایا‘اس نے درخواست ارسال کی اورفائونڈیشن نے اسے فوری طور پر سکالرشپ جاری کردیا‘دوران تعلیم اس طالب علم کی تمام تعلیمی ضروریات کے لیے کاروان علم فائونڈیشن مدد کرتی رہی‘آج یہ نوجوان برسرروزگارہوکر اپنے خاندان کا سہارا بن چکاہے۔

تیسری کہانی جام سمیع اللہ کی ہے جس کا تعلق تحصیل جتوئی کے نواحی گائوں سے ہے‘ اس باہمت نوجوان کے والد معذور تھے اور وہ ایک بک شاپ پر کتابیں جلد کرکے بمشکل اتنے پیسے کماتے تھے کہ دو وقت کی روٹی پوری ہوسکتی تھی‘جام سمیع اللہ اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا‘گھر کی غربت اور گائوں کا ماحول اسے مایوسی کے اندھیروں کی نذر کرنے کے درپے تھا

لیکن اس کے معذور والد نے اسے قدم قدم پر تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی‘وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی کام کرنا چاہتاتھا لیکن والد نے کہا کہ ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے تم ساری توجہ تعلیم پر رکھو‘اچھی تعلیم دلوانے کے لیے اسے ملتان کے ایک نجی اقامتی اسکول میں داخل کروا دیا گیا‘اسکول انتظامیہ نے اس کی قابلیت دیکھتے ہوئے اس کی فیس اور ہاسٹل کے اخراجات معاف کردیے‘

میٹرک کے امتحان میں اس نے 95فیصد نمبر حاصل کیے تو ایک نجی کالج نے اسے سکالرشپ پرایف ایس سی کی آفر کردی‘جام سمیع اللہ نے تعلیم کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ملازمتیںبھی شروع کر دیں‘کبھی کسی ہوٹل پر برتن دھونے اور کبھی کسی سٹور پر سیلزمین کاکام کیا‘تعلیم اور کام اکٹھے جاری رکھنے کے باوجود اس نے ایف ایس سی کے امتحان میں90فیصد نمبر حاصل کیے‘

اس کی اگلی منزل ایم بی بی ایس میں داخلہ لینا تھا‘چھوٹی چھوٹی نوکریوں سے کمائے گئے پیسوں سے نجی اکیڈمی کی فیس دے کر انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی اور اس کا داخلہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان میں ہوگیا‘ رشتہ داروں اور دوستوں نے مالی مدد کی اور اس نے ایم بی بی ایس میں داخلہ لے لیا‘ اخراجات زیادہ تھے لہٰذا اس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ نوکری بھی جاری رکھی‘

دوسرے سال میں تعلیمی بوجھ اتنا بڑھا کہ اسے نوکری چھوڑنی پڑگئی‘تعلیم کو وقت دینے سے مالی مشکلات نے گھیر لیا‘ایک دوست نے اسے کاروان علم فائونڈیشن کا بتایا‘ اس نے اپنی روداد لکھ بھیجی اور کاروان علم فائونڈیشن نے اس باہمت نوجوان کو بھی سکالرشپ جاری کر دیا‘جام سمیع اللہ نے کاروان علم فائونڈیشن کی سکالرشپ سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی اور یہ اس وقت دکھی انسانیت کی خدمت کررہاہے۔

جویریہ نورین ‘فہیم عباس اور جام سمیع اللہ جیسے ہزاروں نوجوان ہیں جن کے خوابوں کو تعبیر دینے میں کاروان علم فائونڈیشن کلیدی کردار ادا کررہی ہے‘یہ ادارہ2002ء سے اب تک7821طلباء کو24 کروڑروپے کے سکالرشپ جاری کر چکا ہے۔ان میں 1431یتیم طلباء اور 479خصوصی طلبہ(نابینا‘پولیوزدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں‘ مالی اعانت حاصل کرنے والوں میںایم بی بی ایس (ڈاکٹر) کے 1835‘بی ڈی ایس(ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری)کے72‘

فزیوتھراپی(ڈاکٹر آف فزیوتھراپسٹ) کے77‘ڈی وی ایم (ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز)کے154‘ڈی فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی)کے152‘بی ایس آنرز (ہیلتھ سائنسز ) کے 95‘ایم ایس سی کے178‘ایم اے کے 148‘ایم کام کے41‘ ایم بی اے کے68‘ایم فل کے32‘ بی ایس سی انجینئرنگ کے1815‘بی کام آنرز کے176‘ بی ایس آنرز کے1316 ‘ بی سی ایس کے 80‘بی ایس آئی ٹی کے 51‘

بی بی اے کے 107‘اے سی سی اے کے 24‘سی اے کے 04‘بی ایس ایڈ ‘بی ایڈ کے 75‘ ایل ایل بی کے29‘بی اے آنرز کے67‘ بی اے کے89‘ بی ٹیک کے 24‘ ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے169‘ایف ایس سی کے731‘ایف اے کے 115‘آئی کام کے59‘ڈی کام کے08‘آئی سی ایس کے30طلباء و طالبات کو کروڑوں روپے کے سکالرشپ جاری کیے گئے۔کاروان علم فائونڈیشن کے دروازے

ضرورت مند طلباء کے لیے سارا سال کھلے رہتے ہیں‘ جہد مسلسل سے میٹرک اور انٹر پاس کرنے والے غریب گھرانوں کے طلباء اس امید اور آس پر رابطہ کرتے ہیں کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے اس ادارے سے سکالرشپ مل جائے گی‘کاروان علم فائونڈیشن امید ا ور آس کایہ چراغ مخیر پاکستانیوں کے تعاون سے روشن کیے ہوئے ہے‘مستحق طلباء کوسکالرشپ فراہم کرنے کا انتظام اتناشان دار ہے کہ

ہر طالب علم کو اس کی ضرورت کے مطابق مالی مدد فراہم کی جاتی ہے اس کے علاوہ سکالرشپ ہولڈر ز طلباء کی بیوہ مائوں اور ضعیف والدین کو روزمرہ اخرجات اور علاج معالجے کے لیے بھی مالی مدد فراہم کی جاتی ہے تاکہ پاکستان کے ذہین نوجوان مکمل اطمینان کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں‘گزشتہ برس سیلاب کی تباہ کاریوں سے جنوبی پنجاب ‘سندھ اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کے سفید پوش گھرانوں کے طلباء وطالبات بھی سکالرشپ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

کاروان علم فائونڈیشن مشکل کی اس گھڑی میں ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میںمیڈیکل‘انجینئرنگ‘ سائنس و ٹیکنالوجی ‘کامرس‘ مینجمنٹ اور سوشل سائنسز کے شعبہ جات میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کا تعلیمی سفر جاری رکھنے میں ہر ممکن مدد کے لیے کوشاں ہے۔

میں ہر سال پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اس ادارے کے ساتھ تعاون کی درخواست کرتاہوں کیوںکہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ہم پاکستانی معاشرے سے غربت‘بے روزگاری اور بدامنی ختم کرسکتے ہیں‘اس وقت کاروان علم فائونڈیشن کے پاس 480طلبہ کی درخواستیں زیر غور ہیںجنہیںسکالرشپ جاری کرنے کے لیے پانچ کر وڑ روپے سے زائد رقم درکارہے‘یہ رقم اتنی بڑی نہیں ہے‘

پاکستان میں ایسے ہزاروں مخیرحضرات موجود ہیں جو 480 طلبہ کی اکیلے مالی مدد کرکے ان کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ میں تمام مخیر پاکستانیوں سے درخواست کرتا ہوں ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں زیر تعلیم ان480 طلبہ کا تعلیمی سفر جاری رکھنے میں مالی تعاون کریں‘چند سال بعد یہ نوجوان ملک کے فعال شہری بھی ہوںگے اور اپنے خاندان کا سہارا بھی۔آپ کاروان علم فائونڈیشن کو زکوٰۃ و عطیات حسب ذیل اکائونٹ میں ارسال کرسکتے ہیں ۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…