عبدالجبار اوکاڑہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ سافٹ ویئر ڈویلپر ہیں‘ موٹر سائیکل پر سفر کا شوق ہے اور یہ اس کے ذریعے آدھا ملک گھوم چکے ہیں‘ مجھے دو سال قبل ان کے وائس میسجز آنا شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ ہمارا رابطہ استوار ہو گیا‘ گرو زاہد عرفان سے میرا رابطہ بھی انہوں نے کرایا تھا‘
مجھے انہوں نے شوگر کے علاج سے متعلق ان کی ایک ویڈیو بھجوائی‘ میں نے زاہد عرفان کا نمبر تلاش کیا اور اس کے بعد میرا ان سے تعلق استوار ہو گیا‘ میں نے زاہد عرفان کو گرو زاہد کا نام دیا اور ان کے ساتھ مل کر خوراک پر کام شروع کر دیا‘ ہم نے آرگینیکلز (Organicals) کے نام سے برینڈ بنایا اور ہم اب ایسے صدیوں پرانے نسخے تلاش کر رہے ہیں جو سادے ہوں‘ آرگینک ہوں اور جن کے ذریعے پاکستانیوں کو ڈاکٹرز اور فارما سوٹیکل کمپنیوں سے بچایا جا سکے۔ پوری دنیا کے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں ہماری 95 فیصد بیماریوں کی وجہ خوراک ہوتی ہے اگر ہماری خوراک ناخالص ہو گی اور ہم اگر اپنی ضرورت سے زیادہ کھائیں گے تو ہم ہر صورت بیمار ہوں گے چناں چہ ہم انسان اگر تین اصول اپنا لیں‘ کم کھائیں‘ خالص خوراک کھائیں اور ایکسرسائز کریں تو ہم دوا اور ڈاکٹر سے بچ سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان تینوں چیزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا‘ ہم ایکسرسائز کو جرم سمجھتے ہیں‘ ہماری خوراک انتہائی ناخالص اور جعلی ہے‘ دودھ‘ سبزیاں‘ دالیں‘ آٹا حتیٰ کہ پانی تک ناخالص اور کیمیکل ملا ہوتا ہے اور ہم اپنی ضرورت سے تین چار گنا زیادہ کھاتے بھی ہیں
لہٰذا ہم میں سے ہر شخص شام کے وقت کیمسٹ کی دکان سے ہو کر گھر آتا ہے اور ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے ایک دوا آپ کو چار مزید دوائوں تک لے کر جاتی ہے‘ آپ نے اگر بلڈ پریشر کی دوا شروع کر دی تو وہ آپ کے گردے ضرور خراب کرے گی اور آپ نے اگر گردوں کی دوا شروع کر دی تو آپ کو اس کے ساتھ معدے اور یورک ایسڈ کی دوا کھانا پڑے گی اور یوں آپ ایک دو سال میں پورا میڈیکل سٹور بن جائیں گے‘
میرے والد روزانہ 14 دوائیں کھاتے تھے اور والدہ کی ادویات اس وقت گیارہ ہیں‘ مجھے اگر دس سال پہلے علاج بالغذا کا علم ہو جاتا تو شاید میں انہیں دوائوں کے نام پر زہر نہ دیتا‘ میں انہیں خوراک سے ٹھیک ٹھاک کر لیتا‘ بہرحال دیر آید درست آید ہم اب خوراک پر کام کر رہے ہیں اور ہزاروں لوگ ہماری کوشش کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ ہم نے 21 سو لوگوں کی شوگر‘ بلڈ پریشر‘ یورک ایسڈ‘ جوڑوں کے دردوں اور موٹاپے سے جان چھڑا دی ہے‘ یہ لوگ اب ’’زیرو میڈیسن لائف‘‘ گزار رہے ہیں‘
گرو زاہد نے ایک طلسماتی ناشتہ بھی بنایا ہے‘ اس میں صرف اور صرف قدرتی اشیاء ہیں اور یہ توانائی کا حیران کن مرکب ہے‘ یہ قدرتی وٹامن ہے‘ آپ اگر اس کا ایک پیالہ صبح یا دوپہر یا شام(صرف ایک پیالہ) لے لیں‘آپ اگر یہ اپنے بچوں کو پلا دیں‘ بوڑھوں کو دے دیں‘ خواتین یا پھر دفتروں میں کام کرنے والوں کو پلا دیں تو ان کا فوکس بھی بڑھ جائے گا‘
تھکاوٹ اور دردیں بھی ختم ہو جائیں گی اور جسم میں جان اور توانائی بھی آ جائے گی‘ ہم لوگوں کو یہ نسخے سکھا بھی رہے ہیں‘ یہ گھروں پر بناتے ہیں اور ہمیں دعائیں دیتے ہیں‘ ہم اسی طرح جسمانی دردیں ختم کرنے کا تیل بھی بنا رہے ہیں‘ دنیا میں اب اسینشل آئل (Essential Oil) کے ذریعے کینسر تک کا علاج ہوتا ہے‘یورپ میںلوگ جوڑوں‘ ہڈیوں اور سردرد کا علاج تیل کے ساتھ کرتے ہیں جب کہ
ہم لوگوں کو دھڑا دھڑ پین کلرز کھلارہے ہیں اور ہمارے مریض چند ماہ میں گردوں سے فارغ ہو جاتے ہیں‘ لوگ اگر پین کلرز کی بجائے درد کی جگہ اسینشل آئلز کا مرکب لگا لیں تو یہ تیل جلد میں جذب ہو کر پین کلر سے زیادہ سپیڈ میں درد ختم کر دیتا ہے اور یہ نسخہ پوری دنیا میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں کیوں کہ ڈاکٹرز کو زیادہ مالی فائدہ نظر نہیں آتا چناں چہ یہ مریضوں کو پین کلرز کھلا کھلا کرتباہ کر رہے ہیں۔
میں ان شاء اللہ عن قریب قدرتی علاج پر بڑی تفصیل سے کالم لکھوں گا‘ سردست میں عبدالجبار کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دو سال کے رابطے کے بعد دو دن قبل مجھ سے ملاقات کے لیے موٹر سائیکل پر اوکاڑہ سے اسلام آباد آئے اور مجھے چند گھنٹے ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا‘ ان کی کہانی ایک بنی بنائی موٹی ویشنل سٹوری تھی‘ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے‘ میٹرک ڈی گریڈ میں کیا
اور اس کے بعد اکائونٹنگ میں ڈپلومہ کر لیا‘ اس میں بھی نمبر نہ ہونے کے برابر تھے‘ یہ اس ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ کے بعد اوکاڑہ کی ایک گھی مل میں ڈیٹا انٹری کی ملازمت کرنے لگے‘ 2004ء میں ان کی تنخواہ اڑھائی ہزار روپے ماہانہ تھی‘ مل نے اس زمانے میں اکائوٹنگ کا کوئی سافٹ ویئر خریدا‘ سافٹ ویئر کی مینٹیننس کے لیے فیصل آباد سے ایک کنسلٹنٹ ہر مہینے اوکاڑہ آتا تھا‘
فیکٹری اسے آنے جانے کا کرایہ بھی دیتی تھی‘ رہائش بھی اور فی وزٹ تین ہزار روپے بھی‘ عبدالجبار نے ایک دن اپنا موازنہ اس نوجوان کے ساتھ کیا اور اپنے آپ سے پوچھا تم پورا مہینہ محنت کے بعد صرف اڑھائی ہزار روپے کماتے ہو جب کہ یہ لڑکا ایک دن میں تین ہزار روپے لے لیتا ہے اور مالکان اس کے نخرے بھی برداشت کرتے ہیں اگر میں بھی وہ سیکھ لوں
جو اس شخص نے سیکھ رکھا ہے تو میں بھی روزانہ تین ہزار روپے کما لوں گا‘ آخر یہ کون سی راکٹ سائنس ہے‘ ان کے بقول میں نے آپ کے کسی کالم میں پڑھ رکھا تھا انسان زندگی کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی کام سیکھ سکتا ہے بس انسان کو اتنی محنت کرنی چاہیے کہ اللہ کو اس پر ترس آ جائے لہٰذا میں نے کمر کس لی‘ نوکری سے استعفیٰ دیا‘ والد کی منت کی اور انہوں نے مجھے کمپیوٹر خرید دیا‘
میں نے سافٹ ویئر کی الف ب وی بی 6 سے سٹارٹ کی‘ گائیڈ بک سے گائیڈنس لیتا رہا اور دس دس گھنٹے کمپیوٹر پر بیٹھا رہا اور یوںمیں کوڈنگ سیکھ گیا‘ میں شاید پاکستان کا پہلا سافٹ ویئر انجینئر ہوں جو صرف میٹرک پاس تھا اور جس نے سافٹ ویئر کی کوئی فارمل ایجوکیشن نہیں لی تھی‘
میں نے خود سیکھ کر اپنی فیملی کے دوسرے بے کار اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کو سکھانا شروع کر دیا یوں ہماری چار لوگوں کی ٹیم بن گئی‘ میں نے اس کے بعد چھوٹی سی کمپنی بنائی اور سافٹ ویئر بنا کر بیچنا شروع کر دیے اور اللہ کے کرم سے اچھی اور بہتر زندگی گزارنے لگا‘ میں اب سافٹ ویئر بیچ لیتا ہوں‘
موٹر سائیکل پر پورا ملک گھوم پھر لیتا ہوں‘ اپنے خاندان کو بھی پال رہا ہوں اور عزیز رشتے داروں کے بچوں کو بھی‘ عبدالجبار کا کہنا تھا میں نے جس دور میں گھر میں بیٹھ کر سافٹ ویئر سیکھا تھا اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا‘ موبائل فون بھی جدید اور عام نہیں تھے جب کہ آج اگر کسی شخص کے پاس سمارٹ فون اور انٹرنیٹ ہو تو یہ کچھ بھی سیکھ سکتا ہے‘
آپ تھری ڈبلیو سکول ڈاٹ کام پر چلے جائیں اور بے شک بل گیٹس بن جائیں‘ آپ کو کوئی شخص نہیں روک سکے گا‘ ان کا کہنا تھا آج کے دور میں اگر کوئی شخص غریب یا محتاج ہے تو اسے جوتے مارنے چاہییں‘ موبائل فون نے پوری دنیا کے لیے سیکھنے‘ سکھانے اور کاروبار کرنے کے اربوں مواقع تخلیق کر دیے ہیں‘ آپ نے بس ہمت کرنی ہے اور بیڑا پار‘ آپ چند ماہ میں کہیں سے کہیں پہنچ جائیں گے لیکن فارمولہ وہی ہے اتنی محنت کریں کہ اللہ کو آپ پر ترس آ جائے۔
مجھے عبدالجبار صاحب کی کہانی نے واقعی بہت متاثر کیا‘ یہ پاکستان کے نمائندہ انسان ہیں‘ ایک ایسے نمائندہ انسان جس نے غربت سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور پھر تعلیم‘ وسائل اور سوشل سٹیٹس کسی کمی کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا‘ جبار صاحب جیسے لوگ اس ملک کے اصل لیجنڈ ہیں‘ ایسے لیجنڈ جو دیے سے دیا جلاتے ہیں‘ یہ لوگ ہیومین لائبریری بھی ہیں
اور ہمیں انہیں کتاب اور ریسرچ پیپر کی طرح پڑھنا چاہیے اور ان سے زندگی اور ترقی کا سبق سیکھنا چاہیے‘ میں مدت سے لوگوں کو بتا رہا ہوں آپ اگر آج کے دور میں بیمار‘ ناکام‘ غریب‘ مایوس اور نالائق ہیں تو اس کے صرف اور صرف آپ ذمہ دار ہیں‘ دنیا بھرکی ڈگریاں‘ مہارتیں‘ تجربے اور عقل اب گلیوں میں رل رہی ہے‘ آپ کو اب ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور کیمبرج میں پڑھنے کے لیے امریکا اور برطانیہ نہیں جانا پڑتا‘
آپ اپنا موبائل فون آن کریں اور دنیا جہاں کا علم آپ کی انگلیوں کے نیچے بہنے لگے گا مگر ہم نے بدقسمتی سے آج کی اس ڈیجیٹل ورلڈ کو بھی سیاپا بنا دیا ہے‘ ہم سارا سارا دن فضول کلپس اور غیرمعیاری سیاسی ٹوٹے دیکھتے رہتے ہیں جب کہ دوسری طرف جبار صاحب جیسے لوگ موبائل فون سے سافٹ ویئر اور ایپلی کیشن سیکھتے ہیں اور خود بھی اچھی زندگی گزارتے ہیں
اور دوسروں کو بھی اچھی زندگی کا سلیقہ سکھاتے ہیں‘ میرا آپ کو بھی مشورہ ہے آپ بھی موبائل فون کو اپنی یونیورسٹی بنائیں‘ نئے علم سیکھیں‘ آن لائین کام کریں اور اچھی اور معیاری زندگی گزاریں‘ آپ یقین کریں آپ اور اچھی زندگی کے درمیان صرف ایک سافٹ ویئر کا فاصلہ ہے اور وہ سافٹ ویئر آپ خود ہیں‘ آپ اگر اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کر لیں تو پوری دنیا بدل جائے گی لیکن شاید ہمارے پاس ہمارے لیے ہی وقت نہیں ہے۔