یہ پچھلے سال کی بات ہے‘ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ڈی ایچ اے لاہور کے بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں گیا‘ ہسپتال بہت جدید اور مہنگا ہے اور یہ جسٹس ثاقب نثار کے چھاپے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہوا تھا‘ میرے دوست کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی اور میں اسے معائنے کے لیے ہسپتال لے گیا تھا‘ ہم دونوں جب ہسپتال میں داخل ہوئے تو ہم نے کوریڈورز میں سٹریچر پر
ایک نوجوان کی لاش دیکھی‘ اللہ تعالیٰ برے وقت سے بچائے‘ ہمیں اور ہماری اولادوں کو محفوظ رکھے‘ وہ ایک ہول ناک منظر تھا‘ نوجوان بیس بائیس برس کا ہو گا‘ منہ خوف ناک حد تک کھلا تھا‘ آنکھیں پپوٹوں سے باہر اُبل رہی تھیں‘ گردن کی نسیں پھولی ہوئی تھیں‘ ٹانگیں پھیلی ہوئی تھیں اور بازو سٹریچر سے نیچے لٹک رہے تھے‘ وہ کسی ’’ہارر مووی‘‘ کا کوئی کردار دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے زندگی میں آج تک اتنا تکلیف دہ چہرہ نہیں دیکھا‘ نوجوان کپڑوں‘ جوتوں اور گھڑی سے کسی امیر خاندان کا چشم وچراغ دکھائی دے رہا تھا لیکن وہ عبرت بن کر سٹریچر پر پڑا تھا‘ ہم چند لمحے وہاں رک کر ڈاکٹر کے پاس چلے گئے‘ ڈاکٹر نے مجھے پہچان لیا اور بڑی محبت سے ملا‘ میرے دوست کا بلڈ پریشر زیادہ تھا‘ ڈاکٹر نے اسے گولی دی‘ لمبے لمبے سانس لینے کا مشورہ دیا‘ دو گلاس پانی پلایا اور ہمیں جانے کی اجازت دے دی‘ وہ ہمیں باہر چھوڑنے کے لیے آیا تو میں نے لاش کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ’’اس بے چارے کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ ڈاکٹر نے افسوس سے جواب دیا ’’نشہ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ وہ بولا ’’یہ دوستوں کے ساتھ رات پارٹی کر رہا تھا اور کوکین کی اوور ڈوز کی وجہ سے فوت ہو گیا‘‘ میں گھبرا گیا اور ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’یہ کون ہے اور آپ اتنے اعتماد سے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے دکھی آواز میں جواب دیا ’’میرے بھائی ہمارے ہسپتال میں روز کسی نہ کسی نشئی کی لاش آتی ہے‘ لڑکے اور لڑکیاں پارٹیاں کرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی اوور ڈوز کی وجہ سے مر جاتا ہے اور اس کے ساتھی اسے ہسپتال کے دروازے پر چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں‘ ہم اسے ری وائیو کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کے بعد اسے سٹریچر پر رکھ دیتے ہیں تا کہ اگلے دن لواحقین آ کر اسے شناخت کریں اور لے جائیں‘‘ یہ ہمارا روز کا کام ہے لہٰذا ہم چہرہ دیکھتے ہی ایشو تک پہنچ جاتے ہیں‘ میں نے پوچھا ’’لیکن کیا یہ پولیس کیس نہیں بنتا؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’سر یہ اہم‘ امیر اور بڑے لوگوں کے بیٹے ہوتے ہیں‘ ان پر کیا کیس بنیں گے؟‘‘ میں نے سر ہلایا‘ ڈاکٹر صاحب سے ہاتھ ملایا اور دکھی دل کے ساتھ باہر نکل گیا۔یہ صرف لاہور شہر کے ایک سیکٹر کی صورت حال ہے‘ آپ اگر پورے ملک کا سروے کریں تو آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے‘ پاکستان میں آٹا‘ چینی‘ دالیں‘ پانی‘ پٹرول‘ بجلی اور گیس ملے نہ ملے لیکن ملک کے ہر کونے میں منشیات ضرورت دستیاب ہیں‘ آپ کسی شہر‘ کسی آبادی میں نکل جائیں آپ کو وہاں ہر طبقے کا جہاز مل جائے گا‘ مزدور سے لے کر سیٹھ تک اکثریت کوئی نہ کوئی نشہ کر رہی ہو گی‘ حالت یہ ہے
ملک میں ہر سال زہریلی شراب پی کر سیکڑوں لوگ مر جاتے ہیں‘ نوے فیصد بس اور ٹرک ڈرائیور چرس پیتے ہیں‘ ملک میں ہر جگہ سے ہیروئن مل جاتی ہے اور افیون اور چرس بھی سڑکوں پر دستیاب ہے‘ اسلام آباد اس لحاظ سے بدقسمت ترین شہر ہے‘ ملک کا خوش حال ترین سٹی ہونے کی وجہ سے91 فیصد آبادی کروڑ پتی ہے‘ سب سے زیادہ فی کس گاڑیاں بھی اسی شہر میں ہیں‘ ڈیڑھ ڈیڑھ ارب روپے کے گھر ہیں اور لوگ لبرل اور پارٹی کلچر کے شوقین ہیں لہٰذا یہ شہر انتہائی بدتر صورت حال کا شکار ہے‘
آپ رات بارہ بجے کے بعد سڑک پر نکل کر دکھا دیں‘ آپ کانپ اٹھیں گے‘ مجھے چند دن قبل اسلام آباد کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا‘ شہر میں اگر کوئی نوجوان نشے سے بچا ہوا ہے تو یہ معجزہ ہو گا‘ اس کا کہنا تھا میرا بیٹا او لیول کر رہا ہے‘ یہ سارا دن میری یا میری بیوی کی نظروں کے سامنے رہتا ہے لیکن مجھے بھی یہ یقین نہیں یہ نشے سے بچا ہو گا‘ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ سپلائرز ہیں اور یہ آٹھ آٹھ‘ دس دس سال کے لڑکوں کو اس دلدل میں دھکیل رہے ہیں‘ لڑکیوں میں بھی
یہ خوف ناک رجحان جڑ پکڑ چکا ہے لہٰذا اگر یہ کہا جائے گلی سے لے کر محل تک ملک منشیات کی دلدل میں لت پت ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا اور پورا ملک ایک سرحد سے لے کر دوسری سرحد تک اس میں دھنسا ہوا ہے تو یہ بھی جھوٹ نہیں ہوگا‘ بڑے بڑے نیٹ ورکس ہیں اور یہ نیٹ ورکس ٹن سے لے کر پڑیا تک کا سسٹم چلا رہے ہیں‘ بڑے چھوٹے شہروں میں اب کوکین بھی عام ہے اور آئس بھی اور اس نے ہماری پوری جنریشن تباہ کر دی۔آئس ہیروئن سے بھی زیادہ خوف ناک اور تباہ کن ہے‘
میں پچھلے دنوں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا‘ ملک کے زیادہ تر ٹارگٹ کلرز آئس کی لت شکار ہوتے ہیں مثلاً آپ لاہور میں ہونے والے چند بڑی وارداتوں کی مثال لے لیں‘مسلم ٹائون لاہورمیں ایف بی آر کے ڈپٹی کمشنرز سلمان بٹ اور سردار علی سولنگی پر فائرنگ ہوئی‘ ملزمان اعجاز اور موسیٰ مسیح آئس کے عادی نکلے‘ 24 جنوری کو صحافی حسنین شاہ کو لاہور پریس کلب کے قریب گولی مار
کر ہلاک کر دیا گیا‘ ٹارگٹ کلرز کو حسنین شاہ کے مخالفین نے آئس پلا کر واردات کے لیے بھجوایا تھا لہٰذا انہوں نے چلتی ٹریفک اور لوگوں کے سامنے صحافی کو گولی مار دی‘ 31 دسمبر کو ایم پی اے بلال یاسین پرگوال منڈل کے علاقے میں فائرنگ ہوئی‘ انہیں تین گولیاں لگیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی جان بچا لی لیکن یہ اس وقت بھی بستر پر ہیں‘ ان پر حملہ کرنے والے ملزمان ماجد اور کاشف بھی آئس کے
شکار تھے اور اسی طرح 19 جنوری کو کاہنہ لاہور میں زین نام کے لڑکے نے اپنی والدہ ڈاکٹر ناہید‘ دو بہنوں اور بھائی کوفائرنگ کر کے قتل کر دیا‘ یہ بھی آئس کی لت میں مبتلا تھا‘ اسلام آباد میں بھی پچھلے دنوں دو کیس بہت ہائی لائیٹ ہوئے‘ نور مقدم قتل کیس اور ویڈیو سکینڈل‘ یہ دونوں بھی آئس کا رد عمل تھے‘ نور مقدم کو قتل کر کے اس کا سر تن سے جدا کرنے والا نوجوان ظاہر جعفرآئس اور
کوکین کا عادی تھا‘ یہ باقاعدہ علاج بھی کراتا رہا تھا جب کہ ویڈیو سکینڈل کے ملزمان بھی پارٹی باز تھے اور یہ بھی اسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث رہے تھے‘ میرا خیال ہے ہم اگر تھوڑی سی مزید ریسرچ کریں تو ہمیں زیادہ تر جرائم کے پیچھے منشیات بالخصوص آئس کا ہاتھ ملے گا‘ آئس ایک خوف ناک کیمیکل ہے‘ یہ انسان کی سوچ کو منفی بھی بنا دیتا ہے اور پھر اس میں عملی قدم اٹھانے کی ہمت بھی پیدا کر دیتا ہے چناں چہ وہ شخص اٹھتا ہے اور پستول لے کر سڑک پر نکل آتا ہے اور
یہ لت اکراس دی بورڈ پورے ملک کو متاثر کر رہی ہے۔ہم ایک اسلامی ریاست بھی ہیں اور ایٹمی طاقت بھی‘ ہمیں اپنے خفیہ اداروں پر بھی ناز ہے‘ ہم فخر سے کہتے ہیں ہماری آئی ایس آئی نے سوویت یوین توڑ دیا تھا اور ہم نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ جیت کر پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا‘ یہ دعویٰ درست ہے اور ہم بم دھماکوں کے ملزم تلاش کرنے میں بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا ہم ان ایکسپرٹیز کے باوجود ملک سے منشیات کا کینسر ختم نہیں کر سکتے؟ کیا ہم 24 کلو میٹر کے شہر
اسلام آباد کو بھی اس لعنت سے پاک نہیں کر سکتے؟ ملک میں اس وقت ایک کروڑ لوگ منشیات کی وجہ سے سڑکوں اور گلیوں میں دھکے کھا رہے ہیں‘ یہ لوگوں کے برتن اور گٹڑوں کے ڈھکن چوری کر کے پڑیا یا ٹیکا خریدتے ہیں اور سرعام نشہ کرتے ہیں‘ آپ پشاور سے کراچی تک دیکھ لیں آپ کو سڑکوں اور پلوں کے نیچے ایسے منظر دکھائی دیں گے جو آپ کو اندر سے ہلا کر رکھ دیں گے لیکن ہم اس کے باوجود اپنے آپ کو عظیم قوم بھی کہتے ہیں‘ کیا ہمیں ایک کروڑ نشئیوں کے
ساتھ یہ دعویٰ سوٹ کرتا ہے لہٰذا میری حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ دونوں سے درخواست ہے آپ مہربانی کریں اور ملک میں منشیات کے خلاف مکمل اور سیریس کریک ڈائون کریں اور کم از کم اس عفریت کو اسلام آباد کی جڑوں ہی سے کھود کر نکال دیں‘ قوم آپ کو دعائیں دے گی ورنہ یہ اس پوری زندہ اور پائندہ قوم کو نگل جائے گا‘ حکومت اس سلسلے میں آئی ایس آئی میں ایک خصوصی یونٹ بھی بنا سکتی ہے‘ وزیراعظم اسلام آباد‘ گورنر سندھ عمران اسماعیل کراچی اور وزیراعلیٰ کے پی اٹک کے
پل کی دوسری طرف اس آپریشن کلین کو لیڈ کریں اور آرمی چیف جس طرح افغانستان اور کشمیر کا کریڈٹ لیتے ہیں یہ اسی طرح پاکستان کو منشیات فری ملک بنانے کا اعزاز بھی حاصل کریں ورنہ ہم جس طرح نشئیوں کی قوم بنتے جا رہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب دشمن کو ہمیں فتح کرنے کے لیے کسی جنگ کی ضرورت نہیں ہو گی‘ ہم خود ہی پھونک پھونک اور سونگھ سونگھ کر مر جائیں گے‘ کیا اس ملک میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں جو اس ملک کو کم از کم اس لعنت ہی سے پاک کر دے جو پاکستان کو دنیا کا پہلا منشیات فری ملک بنا دے۔