میں آج سے چھ سال پہلے بائی روڈ اسلام آباد سے ملتان گیا تھا‘ وہ سفر مشکل اور ناقابل برداشت تھا‘ رات لاہور رکنا پڑا‘ اگلی صبح نکلے تو ملتان پہنچنے میں سات گھنٹے لگ گئے‘ سڑک خراب تھی اور اس کی مرمت جاری تھی لہٰذا گرمی‘ پسینہ اور خواری بھگتنا پڑی‘ ہفتے کے دن چھ سال بعد ایک بار پھر ملتان جانا پڑا‘ فلائیٹ نہیں تھی‘ سڑک کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘میں ڈر رہا تھا
مگر ملتان میں میرے ایک دوست رہتے ہیں‘ ضیاء الرحمن‘ یہ میٹل سکریپ کا کام کرتے ہیں‘ ابوظہی‘ استنبول اور ملتان میں منقسم زندگی گزار رہے ہیں‘ مجھے انہوں نے تحریک دی اور میں اللہ کا نام لے کر نکل کھڑا ہوا‘ فیصل آباد ملتان موٹر وے میاں نواز شریف کے دور میں کھل گئی تھی‘ میں نے سفر شروع کیا اور میں پانچ گھنٹے میں ملتان پہنچ گیا‘ میرے لیے یہ بات حیران کن تھی‘ ہمیں موٹروے سے لاہور پہنچنے میں چار گھنٹے لگتے ہیں جب کہ ملتان صرف پانچ گھنٹے کی دوری پر تھا‘ سفر بھی انتہائی آرام دہ تھا‘ بس دو پریشانیاں ہوئیں‘ پہلی پریشانی فیصل آباد سے ملتان موٹروے دو لین پر مشتمل ہے لہٰذا ٹریفک کا دبائو بڑھ جاتا ہے اور دوسرا اس زون کے سروس ایریاز موٹروے کے معیار سے بہت پست ہیں‘ واش رومز گندے ہیں اور راستے میں ڈھنگ کی کوئی کافی شاپ‘ چائے خانہ اور ریستوران نہیں ہے‘ یہ موٹروے بھی اگر تین لین کی ہوتی اور اس پر بھی ایم ٹو جیسے سروس ایریاز ہوتے تو یہ زون بھی اچھا ہو جاتا لیکن بہرحال یہ اس کے باوجود غنیمت بھی ہے اور رواں بھی‘ مجھے ملتان کے لوگوں نے بتایا یہ حصہ بھی تین لین کا تھا اور اس کا سٹینڈرڈ بھی لاہور اسلام آباد موٹروے جیسا تھا لیکن 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اور پھر 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی اور ان دونوں نے اس منصوبے کو ڈبل لین کر دیا تھا جس سے یہ نام کی موٹروے رہ گئی مگر یہ منصوبہ بھی میاں نواز شریف نے ہی مکمل کرایا تاہم ملتان سے سکھر موٹروے تین لین ہے اور یہ ایم ٹو سے بھی اچھی ہے‘ لوگ میاں نواز شریف کو دعائیں دے رہے تھے‘ یہ کہہ رہے تھے میاں صاحب آدھے
ملک کو آپس میں جوڑ گئے‘ اس سے فاصلے بھی کم ہو گئے اور ملتان ریجن میں ڈویلپمنٹ بھی ہونے لگی‘ ملتان کے ایک آرکی ٹیکٹ بتا رہے تھے موٹروے نے ملتان کی معیشت بدل کر رکھ دی‘ہم ڈیڑھ گھنٹے میں فیصل آباد پہنچ جاتے ہیں اور اڑھائی گھنٹے میں لاہور چناں چہ بڑی کمپنیاں اب لاہور سے ملتان شفٹ ہو رہی ہیں‘ یہ یہاں دفاتر بنا رہی ہیں اور ملتان کے لوگ بھی اب اپنی گاڑی پر
سوات چلے جاتے ہیں ورنہ پوری نسل زندگی میں صرف ایک بار مری یا سوات دیکھ پاتی تھی‘ مجھے لوگوں نے بتایا ملتان سکھر موٹروے کی وجہ سے پنجاب سے سندھ جانا بھی آسان ہو چکا ہے‘ مجھے یہ سن کر اور دیکھ کر اچھا لگا اور میں نے اپنے میزبانوں سے عرض کیا ’’نوازشریف کو ہر بار اسی ڈویلپمنٹ کی سزا ملتی ہے‘ یہ اس بار بھی ان سڑکوں کی وجہ سے ہی لندن بیٹھے ہیں‘‘ وہ ہنس کر چپ ہو گئے۔
ملکوں کی زندگی میں انفراسٹرکچر یعنی سڑکیں‘ ریلوے لائینز‘ پل‘ ڈیم اور ائیرپورٹ اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ہم کیوں کہ ترقی کے جانی دشمن ہیں لہٰذا ہم انفراسٹرکچر بچھانے والوں کو ہمیشہ عبرت کی نشانی بنا دیتے ہیں‘ میاں نواز شریف نے 1992ء میں پہلی موٹروے شروع کی تھی‘ یہ اس وقت صرف 23ارب روپے میں بن رہی تھی‘ ہم اگر انہیں کام کرنے دیتے تو 2000ء تک پورا ملک ہائی ویز اور نئے ریلوے ٹریکس سے جڑ چکا ہوتا اور آج ملک کہیں سے کہیں پہنچ گیاہوتا لیکن ہم نے سیاست بازی
میں ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا‘ ہم بہت دل چسپ لوگ ہیں‘ ہم سیاسی دشمنیوں میں ترقیاتی کاموں کو بھی روک کر بیٹھ جاتے ہیں‘ اس کے نتیجے میں قوم کا سرمایہ اور وقت دونوں برباد ہو جاتے ہیں‘ ملک اگر آپس میں جڑ جائے گا اور اگر گلگت بلتستان کے لوگ اپنی گاڑیوں پر کراچی‘ کوئٹہ اور ملتان آ جائیں گے اور ہم بھی اپنی گاڑیوں میں جب چاہیں گے اور جس طرف چاہیں گے نکل جائیں گے تو آخر اس میں حرج کیا ہے؟ ہمارے وزیراعظم اپوزیشن کے دور میں کہا کرتے تھے ’’قومیں
سڑکوں اور پلوں سے نہیں بنتیں‘‘ میں اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں سے پوچھا کرتا تھا ’’پھر یہ کس سے بنتی ہیں‘‘ یہ فرمایا کرتے تھے ’’تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سے بنتی ہیں‘‘ میں پوچھتا تھا ’’اور اگر سڑکیں نہیں ہوں گی تو کیا طالب علم اونٹوں اور کشتیوں پر کالج اور یونیورسٹی پہنچیں گے اور کیا لوگ مریضوں کو چار پائیوں پر ڈال کر ہسپتال لے کر جائیں گے‘‘ اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا تھابہرحال اللہ کا کرنا یہ ہوا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ گئی توپتا چلا قومیں
لنگر خانوں سے بنتی ہیں یا پھر قومی اسمبلی میں ایک دوسرے پر بجٹ کی کتابیں پھینکنے سے بنتی ہیں‘ کیا ہم اس قوم کو ایسا بنانا چاہتے تھے؟اگر ہاں تو پھر مبارک ہو اور اگر نہیں تو پھر ہمیں ترقیاتی کاموں کے لیے کوئی مستقل نیشنل ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنانا پڑے گی‘ حکومتیں آئیں یا چلی جائیں لیکن کوئی حکومت اس اتھارٹی کو نہ چھیڑ سکے‘ ملک اس سے ترقی کرے گا‘ امریکا آج امریکا‘ یورپ یورپ‘
جاپان جاپان اور چین آج اس لیے چین ہے کہ یہ مدت پہلے اپنا انفراسٹرکچر مکمل کر چکے ہیں‘ یورپ‘ امریکا اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دس برسوں میں اپنے ملک سڑکوں‘ پلوں اور ریلوے ٹریکس سے جوڑ لیے تھے‘ یہ اپنی ضرورت کے ڈیمز‘ بندرگاہیں ‘ ائیرپورٹس اور بجلی اور گیس کا بندوبست بھی کر چکے تھے جب کہ ہم ابھی تک انفراسٹرکچر ہی سے باہر نہیں نکلے‘ چھوٹے
شہروں‘ قصبوں اور دیہات کی ترقی تو ابھی بہت دور ہے‘ ہمیں ان تک پہنچنے میں مزید 50سال لگیں گے اور یہ بھی اس وقت ممکن ہے جب ہم بڑے شہروں اور صوبوں کو آپس میں ملانے سے فارغ ہو جائیں‘ اس کے لیے ظاہر ہے ہمیں اپنی اپروچ بدلنا ہو گی‘ ہمیں اپنے دل اور دماغ بڑے کرنا ہوں گے جب کہ ہم ہر پانچ سال بعد ترقی کو ریورس گیئر میں ڈال دیتے ہیں۔
آپ کسی دن ایوب خان کے بعد پاکستان کی ترقیاتی تاریخ دیکھ لیں‘ آپ کو ہر نئی حکومت پرانی حکومتوں کے اچھے اور مفید کاموں کو حرام قرار دیتی نظر آئے گی اور اس روکا روکی کے کھیل میں پورے ملک کا بیڑہ غرق ہو گیا‘ وسائل گھٹتے گھٹتے فاقہ کشی تک آ گئے اور آبادی بڑھتے بڑھتے بحیرہ عرب تک پہنچ گئی‘ ہم نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہم اگلے پانچ برسوں میں نالی بنانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے‘ ہم جو کمائیں اور بچائیں گے وہ لنگر خانوں اور ہسپتالوں میں خرچ ہو جائے گا
اور عوام ڈنڈے لے کر سڑکوں پر پھر رہے ہوں گے‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ چناں چہ ریاست کو چاہیے یہ جاگ جائے‘ یہ سارے سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا بٹھائے اور نیشنل ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنا دے‘ یہ اتھارٹی اور اس کے پراجیکٹس عدالتوں اور نیب جیسے اداروں سے بالاتر ہوں‘ عدالتیں ان پر سٹے آرڈر نہ دے سکیں اور نیب ان منصوبوں کو روک نہ سکے‘ آپ کے سامنے منگلا اور تربیلا جیسے ڈیمز اور ایٹمی پروگرام کی مثال موجود ہے‘ یہ منصوبے عدالتوں اور احتساب سے بالاتر تھے لہٰذا ہم نے
یہ بنا لیے اگر آج ایٹمی پروگرام اور ڈیمز ہوتے تو ان کے خلاف سٹے آرڈرز بھی جاری ہو چکے ہوتے اور ڈیم بنانے اور ایٹم بم کے بارے میں سوچنے والے نیب کی حراست میں بھی ہوتے‘ لاہور کی اورنج لائین ٹرین کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے‘ یہ 2015 ء میں شروع ہوئی اور اس نے 2018ء میں مکمل ہو جانا تھا‘ یہ پراجیکٹ پہلے عدالتوں میں پھنسا رہا‘ اس سے اس کی کاسٹ میں 162ارب روپے کا
اضافہ ہو گیا‘ 2018ء میں نئی حکومت آئی اور اس نے اسے کھوہ کھاتے ڈال دیا یوں 324ارب روپے کا منصوبہ رو رو کر 2020ء میں مکمل ہوا‘ یہ آخر کس کا نقصان تھا؟ موٹرویز کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا‘ نواز شریف آتے تھے‘ یہ موٹرویز شروع کرتے تھے اور نئی حکومتیں یہ منصوبے روک دیتی تھیں یوں سرمایہ اور وقت دونوں ضائع ہوتے چلے گئے‘ ہم نے ڈیمز میں بھی یہی کیا‘
کالا باغ ڈیم 1980ء کی دہائی میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا‘ یہ آج تک نہیں بن سکا‘ بھاشااورمہمند ڈیم بھی پھنسے رہے‘ نیلم جہلم 84 ارب روپے کا منصوبہ تھا‘بار بار کی تاخیر کی وجہ سے اس کی کاسٹ 274 ارب روپے ہو گئی‘ یہ بھی کس کا نقصان تھا؟ ہم بین الاقوامی معاہدے بھی روک کر بیٹھ جاتے ہیں‘ ریکوڈک اور کارکے میں کیا ہوا؟ ہم نے ویسٹ مینجمنٹ میں ٹرکش کمپنی کے ساتھ کیا کیا
اور براڈ شیٹ کا کیس کیوں 11برس تک عالمی عدالتوں میں دھکے کھاتا رہا ‘ ہم کیوں وکیلوں کی فیسیں ادا کرتے رہے؟ یہ بھی کس کا نقصان تھا؟ ہمارا دماغ کم از کم اب تو ٹھکانے لگ جانا چاہیے‘ ہمیں اب کم از کم اپنی سمت ضرور ٹھیک کر لینی چاہیے‘ ہم آخر کب تک رائونڈ ابائوٹ پر گاڑی چلاتے رہیں گے‘ یہ حماقتوں کا کھیل کہیں تو ختم ہونا چاہیے اور اپنے منہ پر تھپڑ بازی کا یہ سلسلہ کبھی تو رکنا چاہیے‘ ہم نے آخر کہاں تک پہنچنا ہے‘ ہم آخر کب تک روکا روکی کا یہ میچ کھیلتے رہیں گے؟۔