میں نے چند برس قبل حیات بعد ازمرگ پر کالم لکھا تھا‘ وہ عام سی فضول تحریر تھی‘ لوگوں نے اسے یاوہ گوئی سمجھ کر اگنور کر دیا لیکن وہ پڑھ کر میڈیکل کالج کی ایک سٹوڈنٹ نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا ’’مجھے بچپن سے خواب آتے ہیں‘ میرا بڑا سا گھر ‘ ایک جوان بیٹا اور بہو تھی‘ ہم ایک خوش حال زندگی گزار رہے ہیں لیکن پھر ہم سب مر گئے‘ یہ خواب وقت کے ساتھ بڑھتے چلے گئے‘
میرے گھر والوں نے میرا ہر قسم کا علاج کرایا ‘ یہ مجھے علاج کے لیے باہر بھی لے کر گئے لیکن ڈاکٹروں کا کہنا تھا‘ میرے دماغ میں کوئی خلل نہیں‘ یہ میرا وہم ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے میری اس زندگی کے پیچھے بھی ایک زندگی ہے‘میں نے آپ کا کالم پڑھا تو مجھے محسوس ہوا میری فیلنگز غلط نہیں ہیں‘ یہ شاید میرا دوسرا جنم ہے‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور عرض کیا‘ آپ غلط فہمی کا شکار ہو گئی ہیں‘ میں ’’ری ان کارنیشن‘‘ پر یقین نہیں رکھتا‘ میرے پاس کوئی دوسرا ٹاپک نہیں تھا لہٰذا میں نے بلاوجہ کالم گھسیٹ دیا‘ آپ اسے زیادہ سیریس نہ لیں‘ خاتون نے جواب دیا’’ آپ میرا نمبر سیو کر لیں‘ میں اپنے بیٹے اور اپنے پہلے جنم کو ڈھونڈ کر رہوں گی اور آپ سے پھر رابطہ کروں گی‘‘ میں نے ہنس کر فون بند کر دیا۔ سال ڈیڑھ سال بعد اس خاتون کا دوبارہ فون آ گیااور اس نے مجھے بتایا’’ مجھے میرا بیٹا مل گیا ہے‘ یہ بھی ڈاکٹر ہے اور اس کی عمر مجھ سے دوگنی ہے‘‘ میرے منہ سے پھر قہقہہ نکل گیا اور میں نے ان سے کہا ’’بی بی اس ملک میں لاکھوں پاگل ہیں‘ آپ صرف میرے پیچھے کیوں پڑ گئی ہیں؟ آپ مہربانی فرما کر کوئی اور چغد تلاش کر لیں‘‘ خاتون نے میری بات کاٹ کر کہا ’’آپ یقین کریں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں‘ میں اپنے گولو خان کے ساتھ اپنے پرانے شہر بھی گئی ہوں اور ہم نے وہاں اپنے خاندان کی قبریں بھی دیکھی ہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’ہم دونوں جاہل نہیں ہیں‘ ہم ڈاکٹر ہیں اور ہمارا مقصد کوئی اور ہوتا تو ہم میاں بیوی بنتے‘ مجھے اپنی عمر سے دوگنی عمر کے شخص کو بیٹا بنانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ میں نے بہرحال اس کو ڈانٹ دیا‘ خاتون کا کہنا تھا ’’آپ پلیز میرا فون نمبر سیو کر لیں‘ مجھے یقین ہے آپ کبھی نہ کبھی مجھے فون ضرور کریں گے‘‘ میں نے اس بار اس کی یہ خواہش پوری کر دی اور بھول گیا۔
آج سے دو ماہ قبل میں نے ڈاکٹر برائن وائس کی کتاب پڑھنا شروع کر دی‘ ارشاد بھٹی صاحب ان دنوں میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے پوچھا‘ آپ آج کل کیا پڑھ رہے ہیں‘ میں نے انہیں ڈاکٹر برائن وائس اور ری ان کارنیشن کے بارے میں بتانا شروع کر دیا‘ ارشاد بھٹی صاحب نے آخر میں پوچھا’’ کیا آپ کبھی کسی ایسے شخص سے ملے ہیں جس نے دوبارہ جنم کا دعویٰ کیا ہو‘‘ بس یہ فقرہ میرے کان سے ٹکرانے کی دیر تھی اور مجھے وہ میڈیکل سٹوڈنٹ یاد آ گئی‘ میں نے بھٹی صاحب کی فرمائش پر
خاتون کو آڈیو میسج بھجوا دیا‘ اگلے دن جواب آ گیا‘ خاتون کا کہنا تھا ’’میں نے آپ سے دس سال پہلے کہا تھا‘ آپ مجھے فون ضرور کریں گے‘ میرے فون میں صرف چار نمبر سیو ہیں اور ان میں ایک آپ کا ہے‘‘ میں نے ڈاکٹر برائن وائس کا ذکر کیا‘ ڈاکٹر صاحبہ کا جواب تھا’’صرف میں اور میرا بیٹا دوبارہ پیدا نہیں ہوئے‘ ہماری پوری فیملی دنیامیں دوبارہ آ ئی اور ہم سب نے ایک دوسرے کو تلاش کر لیا‘‘ یہ حیران کن انکشاف تھا‘ میں نے خاتون اور اس کے بزرگ بیٹے کو اسلام آباد آنے کی دعوت دے دی اور یہ سات آٹھ گھنٹے کا طویل سفر کر کے میرے پاس آ گئے۔
ڈاکٹرصاحب پچاس باون سال کے تھے جب کہ خاتون چھبیس ستائیس سال کی تھی‘ ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے اپنی کہانی سنائی‘ ان کا کہنا تھا مجھے بچپن سے خوف ناک خواب آتے تھے‘ میں خوابوں میں قتل ہو جاتا تھا اور میری ماں مجھے آوازیں دیتی تھی‘ یہ خواب آہستہ آہستہ بیماری بن گئے‘ میں نیم پاگل ہو گیا اور میں بابائوں اور ملنگوں کے پیچھے پھرنے لگا‘ مجھے اس دوران ایک صوفی بزرگ نے وظیفہ دیا اور میری طبیعت سنبھلنے لگی‘ میں نے میڈیکل کیا اور پریکٹس شروع کر دی‘ شادی ہو گئی‘ بچے بھی ہو گئے لیکن میری راتیں بہت بے چین گزرتی تھیں‘ میں خواب دیکھتا تھا اور رات عین ایک
بجے جاگ جاتا تھا اور پھر دعائیں کر کر کے باقی رات گزارتا تھا‘ مجھے دس سال قبل خواب میں ایک جوان لڑکی نظر آنے لگی‘ اس کے بال بہت لمبے تھے اور وہ مجھے موٹو بھائی کہتی تھی‘ میں ہڑبڑا کر اٹھ جاتا تھا‘ میں ایک دن کلینک گیا تو وہ لڑکی میرے کمرے میں بیٹھی تھی‘ پتا چلا یہ نفسیاتی مریض ہے‘ یہ رات کو ڈر جاتی ہے‘ لڑکی مجھے دیکھتی رہی اور میں اسے‘ ہمیں ایک دوسرے میں بے تحاشا کشش محسوس ہوئی‘ میں نے لڑکی کا علاج شروع کیا تو وہ چند دن میں ٹھیک ہو گئی‘
وہ مجھے ایک دن اپنے گھر لے گئی‘ اس نے اپنی پرانی کاپیاں نکالیں اور میرے سامنے رکھ دیں‘ وہ بچپن سے کاربن پنسل کے ساتھ کسی مرد کی تصویر بناتی آ رہی تھی‘ وہ شکل مجھ سے ملتی تھی‘ اس کے گھر والوں نے بتایا یہ بچپن سے کہہ رہی ہے میرا ایک بھائی ہے‘ وہ ایک دن آئے گا اور مجھے ساتھ لے جائے گا‘ وہ کاپی دیکھنے کی دیر تھی مجھے اپنا پچھلا جنم یاد آ گیا‘ ہم دونوں بہن بھائی مل گئے اور ہم نے اس کے بعد اپنی ماں تلاش کرنا شروع کر دی‘ میں ایک دن لاہور میں میڈیکل کالج کے
پرنسپل سے ملنے گیا‘ میں باہر نکل رہا تھا تو ایک لڑکی دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی اور مجھے منتیں کر کے کینٹین لے گئی‘ لڑکی نے بتایا‘ میں نے آپ کی آواز سنی تو میں بے چین ہو گئی‘ آپ پلیز مجھے اپنا نمبر دے دیں اور مجھ سے رابطے میں رہیں‘ میں نے اپنا نمبر دے دیا‘ مجھے دوسرے دن اس کا فون آیا‘بات شروع ہوئی اور درمیان میں اس نے بے اختیار کہا‘ آپ گولو خان ہو ناں‘ بس یہ فقرہ سننے کی دیر تھی‘ میرے منہ سے بے اختیار ماں نکلا اور ہم دونوں نے دیوانوں کی طرح رونا شروع کر دیا‘
یہ میری ماں تھی‘ ہماری عمروں میں فرق تھا لیکن ہم اس کے باوجود ایک دوسرے کا حصہ تھے‘ ہم اب تین ہو گئے‘ میں نے اس کے بعد اپنی بیوی اور دادا کی تلاش شروع کر دی‘ ہمارے پچھلے جنم میں میرا ایک دادا بھی تھا اور بیوی بھی اور پھر مجھے ایک دن میری بیوی بھی مل گئی‘ یہ لندن میں رہتی ہے اور چار بچوں کی ماں ہے‘ اس بار اس نے مجھے تلاش کیا تھا اور باقی کہانی مجھے اس نے سنائی‘
اس نے بتایا ہم 1850ء میں مردان میں رہتے تھے‘ تم بگڑے ہوئے نواب تھے‘ شراب پیتے تھے اور گانے سنتے تھے‘ دادا اور ماں نے تمہیں بگاڑ دیا تھا‘ تمہاری عیاشیوں کی وجہ سے میری تم تینوں سے لڑائی ہوتی رہتی تھی‘ ایک دن خوف ناک لڑائی ہوئی‘ میں نے تمہارے دادا کو خنجر مار دیا‘ تم مجھے مارنے کے لیے دوڑے‘ درمیان میں ماں آ گئی‘ اس کو خنجر لگ گیا‘ ہم ایک دوسرے کے ساتھ لڑے اور ہم بھی مر گئے جب کہ میری بہن کے بارے میں اسے کچھ یاد نہیں تھا‘ ہمیں اس کے ساتھ ہی ساری کہانی یاد آ گئی‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا ’’ آپ سب نے واقعی دوبارہ جنم لیا! اس کا کیا ثبوت ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا‘ کوئی ثبوت نہیں بس چار لاجکس ہیں‘ ہم سب بیمار تھے‘ ہمیں ایک ہی قسم کے خواب آتے تھے اور ہم ڈر کر جاگ جاتے تھے‘ ہم جب ایک دوسرے سے ملے تو خواب بھی بند ہوگئے اور ہم صحت یاب بھی ہو گئے‘ دوسرا یہ تینوں خواتین اسلحہ چلانا جانتی ہیں‘ انہوں نے کسی سے اسلحہ چلانا نہیں سیکھا‘
آپ ان کے سامنے کوئی پستول یا رائفل رکھ دیں‘ یہ اسے کھول کر جوڑ بھی دیں گی اور ٹھک ٹھک گولیاں بھی چلانے لگیں گی‘ تیسرا ہم ایک دوسرے سے عجیب وغریب رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں‘ ایک میری بہن ہے‘ دوسری ماں اور تیسری بیوی‘بیوی چھ ہزار کلو میٹر دور ہے اور اس نے میرے پاس اور میں نے اس کے پاس نہیں جانا‘ ہمیں پھر ان عجیب وغریب رشتوں میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی؟
میں تینوں خواتین سے شادی کر لیتا اور مزے سے زندگی گزارتا اور چوتھی لاجک ہم نے آج تک اپنی کہانی کسی کو نہیں سنائی‘ آپ دنیا میں واحد شخص ہیں جو ہمارے راز سے واقف ہیں چناں چہ ہم شہرت بھی نہیں چاہتے لہٰذا فیصلہ آپ خود کرلیں تاہم آپ ہمارے محسن ہیں‘ ہم تمام کریکٹر آپ کے ایک کالم کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے تھے‘ آپ کا وہ کالم ہم سب نے پڑھا تھا اور ہمیں یوں محسوس ہوا تھا یہ ہمارے لیے لکھا گیا ہے‘‘۔
وہ دونوں چلے گئے‘ میں آواگان یا ری ان کارنیشن کو نہیں مانتا لیکن یہ بھی سچ ہے میرے پاس دونوں ڈاکٹروں کے چاروں لاجکس کا کوئی جواب نہیں تھا‘ میں یہ بھی مانتا ہوں میں نے اگر ڈاکٹر برائن وائس کی کتاب نہ پڑھی ہوتی تو شاید میں ان لوگوں سے کبھی رابطہ نہ کرتا‘ بہرحال بات ایک بار پھر آئی گئی ہو گئی اور میں اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا مگر کل مجھے اچانک ڈاکٹر صاحب کا فون آیا اور انہوں نے تمتماتی ہوئی آواز میں کہا ’’چودھری صاحب لیں‘ میں نے اپنا دادا بھی تلاش کر لیا‘ ہمارا خاندان اب مکمل ہو چکا ہے‘ ہم 1850ء کے بعد 2021ء میں دوبارہ اکٹھے ہو گئے ہیں‘‘ اور میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔