میاں نواز شریف بیک وقت خوش قسمتی اور بدقسمتی ساتھ لے کر پیدا ہوئے‘ تین بار وزیراعظم بنے‘ دو بار دو تہائی اکثریت لی‘ ایوب خان کے بعد تمام بڑے منصوبے ان کے دور میں مکمل ہوئے اور ایٹم بم سے سی پیک تک پاکستان کی زیادہ تر اچیومنٹس کے پیچھے نواز شریف ہیں لیکن آپ ان کی بدقسمتی بھی ملاحظہ کیجیے‘ ان کی زندگی میں تین ہی مقام ہیں‘ وزارت عظمیٰ‘ عدالتیں اور جلاوطنی‘ یہ وزیراعظم ہاؤس آتے ہیں‘نکالے جاتے ہیں‘ جیل اور عدالتیں بھگتتے ہیں اور باہر بھجوا دیے جاتے ہیں۔
یہ 37 برسوں سے لائم لائیٹ میں ہیں اور 37 برسوں ہی سے سلگتی اور تڑپتی ہوئی دھواں دھار زندگی گزار رہے ہیں‘ ان 37 برسوں میں میاں نواز شریف کی واحد ذاتی اچیومنٹ ”ووٹ بینک“ ہے‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا ووٹ بینک سالڈ سے سالڈ ہوا اور اگر آج بھی آزاد اور شفاف الیکشن کرا دیا جائے تو یہ ریکارڈ ووٹ لے جائیں گے‘ اللہ تعالیٰ کو نہ جانے اس شخص کی کون سی ادا پسند ہے کہ یہ اپنی مرضی کا مقدر لکھوا کر دنیا میں آ گیا اور اللہ تعالیٰ کو نہ جانے ان کی کون سی عادت بری لگتی ہے کہ یہ ہر بار ”گریک ٹریجڈی“ کا شکار ہو کر خاندان سمیت سڑکوں‘ عدالتوں اور جیلوں میں رل جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو ویسے تو کسی عنایت کے لیے کوئی جواز نہیں چاہیے ہوتا مگر میں اس کے باوجود محسوس کرتا ہوں نواز شریف کی دو خوبیاں شاید اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں گی‘ یہ دوسروں کو عزت دیتے ہیں‘ یہ جیل میں تھے‘ یہ بیمار ہوئے‘ حکومت نے میڈیکل بورڈ بنادیا‘ بورڈ میں میرا ایک جاننے والا ڈاکٹر بھی شامل تھا‘ یہ پی ٹی آئی اور عمران خان کا ٹائیگر تھا اور یہ شریف برادران سے نفرت کرتا تھا‘ یہ تین بار جیل میں میاں نواز شریف سے ملا اور ان کا دیوانہ ہو گیا‘ اس نے مجھے بتایا‘ نواز شریف کے کمرے میں ایک چارپائی اور پلاسٹک کی ایک کرسی تھی‘ میں جب بھی معائنے کے لیے گیا‘ اس شخص نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا اور جیل کا عملہ جب تک میرے لیے کرسی کا بندوبست نہیں کرتا تھا یہ بیمار ہونے کے باوجود کھڑے رہتے تھے۔
ڈی ہائیڈریشن ان کے چہرے اور ہونٹوں سے نظر آتی تھی لیکن انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی‘ یہ ہر بار کہتے تھے میں اللہ کے فضل وکرم سے بالکل ٹھیک ہوں اور معائنے کے بعد یہ مجھے دروازے تک چھوڑکر آتے تھے‘ گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے تھے اور کہتے تھے میرے لیے دعا کیجیے گا‘ مجھے آج تک سیاست دان تو دور کسی بیوروکریٹ نے بھی یہ عزت نہیں دی‘ڈاکٹر کی بات درست تھی‘ نواز شریف اپنے ملازمین کو بھی صاحب کہہ کر بلاتے ہیں۔
دوسرا واقعہ سپرنٹنڈنٹ جیل کا تھا‘ 11 ستمبر 2018ء بیگم کلثوم نواز کا آخری دن تھا‘ میاں نواز شریف کی پیشی تھی‘ یہ واپسی پر بہت متفکر تھے‘ انہوں نے اس دن پہلی بارجیلر سے کہا”سپرنٹنڈنٹ صاحب میری بیوی علیل ہیں‘ میں صرف خیریت معلوم کرنا چاہتا ہوں‘ آپ مجھے چند منٹوں کے لیے فون کرنے کی اجازت دے دیں‘ سپرنٹنڈنٹ کے مطابق ”میرے اوپر اس وقت شدید دباؤ تھا‘ میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ”سر آپ کا فون کا کوٹہ ختم ہو چکا ہے“۔
یہ بولے‘ آپ مجھے اپنا موبائل دے دیں‘ میں آپ کے سامنے فون کر کے صرف خیریت معلوم کروں گا‘ یہ آپ کا میرے اوپر بہت بڑا احسان ہو گا‘ میں نے یہ کہہ کر پھر معذرت کر لی سر میرا فون سرکاری ہے‘ میں یہ کسی ملزم کو نہیں دے سکتا‘ یہ خاموش ہو گئے‘ سہ پہرکو اچانک بیگم صاحبہ کے انتقال کی خبر آ گئی‘ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے‘ میں گھبرایا ہوا ان کے سیل میں گیا اور انہیں یہ بری خبر سنائی‘ یہ سر جھکا کر ورد کرنے لگے اور پھر پوچھا کیا مریم کو اطلاع ہو چکی ہے‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ یہ بولے‘ وہ اکیلی ہیں‘ آپ اگر اجازت دیں تو یہ اطلاع میں انہیں خود دے دوں تاکہ میں انہیں تسلی بھی دے سکوں۔
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ یہ میرے ساتھ مریم نواز کے سیل میں گئے‘ انہیں اطلاع دی اور ان کے بولنے‘ چیخنے یا دہائی دینے سے پہلے کہا ”لیکن بیٹا کسی کو بددعا نہیں دینی‘ یہ بس ہمارا نصیب تھا“ یہ فقرہ سیدھا میرے دل میں لگ گیا“۔یہ دوسرے لوگوں کو عزت دیتے ہیں اور معاف کر دیتے ہیں‘ یہ دونوں وہ خوبیاں ہیں جو شاید اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں چناں چہ یہ بدنصیبی کے ہر بیلنے سے بچ بھی جاتے ہیں اور بار بار نکالے جانے کے باوجود اقتدار میں واپس بھی آ جاتے ہیں‘ یہ میری رائے ہے۔
یہ اس وقت لندن میں ہیں اور یہ حقیقت ہے یہ ڈیل کے ذریعے لندن گئے تھے‘ ڈیل میاں شہباز شریف نے کی تھی‘ یہ ہسپتال میں اپنے بڑے بھائی سے ملے اور ان کی منت کی آپ لندن چلے جائیں‘ اپنا علاج کرائیں‘ ایک ماہ بعد مریم نواز بھی آ جائیں گی‘ آپ مجھے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرنے دیں‘ مارچ 2020ء میں شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں قومی حکومت بن جائے گی اور یہ حکومت فیئر اینڈ فری الیکشن کرا دے گی‘میں یہ وعدہ لے چکا ہوں۔
میاں نواز شریف باہر نہیں جانا چاہتے تھے‘ یہ جیل بھگتنا چاہتے تھے لیکن فیملی نے دباؤ ڈالا اور یہ پارٹی چھوٹے بھائی کے حوالے کر کے لندن چلے گئے لیکن میاں نواز شریف کے جانے کے بعد مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا‘ حمزہ شہباز کی ضمانت بھی نہ ہوئی‘ شہباز شریف کی اہلیہ اور صاحب زادی کے خلاف بھی نوٹس جاری ہو گئے اور قومی حکومت کا خواب بھی پورا نہ ہوا اور میاں نواز شریف لندن میں خاموشی سے بیٹھ کر ”مفاہمت“ کا نتیجہ دیکھتے رہے۔
یہ سب کچھ برداشت کر رہے تھے لیکن یہ سمجھتے ہیں شریف فیملی کی خواتین کے خلاف مقدمے نہیں بننا چاہیے تھے‘ یہ شہباز شریف کی بیٹیوں کے خلاف مقدموں پر دکھی ہو گئے اور انہوں نے پارٹی کو واپس اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ لندن میں حسن نواز کے دفتر میں بیٹھنے لگے اور سیاسی رابطے شروع کر دیے اور اس دوران شہباز شریف گرفتار ہوئے‘ پی ڈی ایم بنی‘ مریم نواز سامنے آئیں اور یہ سیاسی لیڈر کی حیثیت سے ڈویلپ ہونے لگیں۔
پارٹی کے سینئر قائدین کا خیال ہے کلثوم نواز صاحبہ نے انتقال سے پہلے میاں نواز شریف سے مریم نواز کو وزیراعظم بنوانے کا وعدہ لیا تھا‘ یہ بات کس حد تک درست ہے میں نہیں جانتا لیکن لوگ سرگوشیاں کر رہے ہیں‘ پی ڈی ایم کے جلسے ہوئے اور میاں نواز شریف نے گوجرانوالہ کے جلسے میں 2018ء کے الیکشنز میں دھاندلی کے ذمہ داروں کے نام لینا شروع کر دیے‘ اس سے پہلے میاں نواز شریف اور خواجہ آصف کے درمیان بھی تلخی پیدا ہو گئی تھی اور دونوں کے درمیان رابطے کم زور ہو گئے۔
پی ڈی ایم چلتی رہی لیکن یہ مارچ 2021ء میں ٹھس کر گئی‘ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن شروع دن سے اسمبلیوں سے استعفے دینا چاہتے تھے لیکن پیپلزپارٹی وقت مانگتی رہی‘ وقت کے اس لین دین میں آصف علی زرداری کی ڈیل میچور ہو گئی اور پی ڈی ایم عملاً فوت ہو گئی جس کے بعد اب تمام سیاسی جماعتوں کو 2023ء کے الیکشنز نظر آ رہے ہیں‘ ن لیگ کے سینئر رہنماؤں کا خیال ہے پارٹی پر اگلے چھ ماہ بہت مشکل ہیں‘ حکومت تمام بڑے رہنماؤں کو جھوٹے سچے مقدموں میں جیلوں میں پھینک دے گی تاہم 2022ء کے شروع میں الیکشن کا غلغلہ شروع ہو جائے گا اور عمران خان اپوزیشن کی بجائے اگلے الیکشن پر فوکس پر مجبور ہو جائیں گے یوں سب کی ضمانتیں ہو جائیں گی۔
تاہم میاں نواز شریف کو خطرہ ہے عمران خان کسی بھی وقت دو تین گھنٹے کی طویل تقریر کر کے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم جان بوجھ کر ”ملک کو مافیاز نے گھیر رکھا ہے“ کا بیانیہ تخلیق کر رہے ہیں تاکہ یہ سال پہلے الیکشن کراسکیں‘نواز شریف سمجھتے ہیں ملک میں جب تک اداروں کے درمیان عمرانی معاہدہ نہیں ہوتا‘ عدلیہ اور میڈیا آزاد نہیں ہوتے اور ادارے اپنی اپنی حدود میں رہنے کا فیصلہ اور وعدہ نہیں کرتے ملک میں اس وقت تک کسی الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں لہٰذا عمران خان اگر الیکشن کراتے ہیں تو کرانے دیں۔
یہ بہرحال حکومت نہیں چلا سکیں گے‘ ملک مزید بیٹھ جائے گا‘ یہ سمجھتے ہیں ہمارے بعد پیپلز پارٹی کی باری ہے‘ حکومت سندھ پیپلزپارٹی کے پاس نہیں رہنے دے گی‘ یہ دو تین ماہ بعد پیپلز پارٹی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دے گی‘ اس وقت پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں بھی واپس آ جائے گی اور یہ ن لیگ کی آواز میں آواز بھی ملائے گی‘یہ اس وقت کا انتظار کرنا چاہتے ہیں‘ یہ اپنا بیانیہ بھی واپس نہیں لینا چاہتے اور یہ مریم نواز کو بھی سائیڈ ٹریک کر کے ان کا سیاسی کیریئر تباہ نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ دل سے یہ بھی چاہتے ہیں شہباز شریف مفاہمت کی آخری کوشش ضرور کریں تاکہ ان کے اندر سے اعتدال اور مفاہمت کا خیال بھی ہمیشہ کے لیے نکل جائے۔
اور پارٹی کے معتدل لیڈرز کل میاں نواز شریف کو ضد اور ہٹ دھرمی کا الزام بھی نہ دے سکیں لیکن یہ اس کوشش میں اپنا بیانیہ قربان نہیں کرنا چاہتے لہٰذا یہ خود خاموش رہیں گے لیکن مریم نواز اس وقت تک ان کی زبان بولتی رہیں گی جب تک یہ کلیئر نہیں ہو جاتا ادارے واقعی مفاہمت میں سیریس ہیں‘ میاں صاحب کا خیال ہے اگر میاں شہبازشریف کا مفاہمتی فارمولا کام یاب نہ ہوااور اسٹیبلشمنٹ نے براہ راست سب کو بٹھا کر دس بڑے فیصلے نہ کیے تو یہ اپنے چھوٹے بھائی کا استعفیٰ قبول کر لیں گے اور یہ انہیں شریف ٹرسٹ چلانے کی اجازت دے دیں گے اور پارٹی مریم نواز کے حوالے کر دیں گے۔نواز شریف شہباز شریف کے مفاہمتی پلان کو صرف چھ ماہ دیں گے۔