مخدوم سمیع الحسن گیلانی این اے 174 بہاولپور سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ہیں‘ اوچ شریف کے گیلانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ والد سید مختار حسن گیلانی قتل ہو گئے تھے‘ ان کی والدہ یوسف رضاگیلانی کی کزن ہیں چناں چہ یہ والدہ کے ساتھ بچپن میں ملتان چلے گئے اور ان کی پرورش گیلانی صاحب کے گھر میں ہوئی‘ یہ انہیں ماموں کہتے ہیں‘ پاکستان تحریک انصاف کو شک ہے سمیع الحسن نے تین مارچ کو سینیٹ کے الیکشن میں اپنے ماموں کو ووٹ دیا تھا لہٰذا وفاقی وزراءان کی طرف دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔
میں نے چند دن قبل پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے سمیع الحسن کے بارے میں پوچھا‘ وہ ہنس کر بولے ” ہاں ان کا نام شک کی فہرست میں موجود ہے‘ ہم نے ان کے ٹیلی فون کا ڈیٹا نکالا تھا‘ یہ الیکشن سے پہلے مسلسل گیلانی فیملی سے رابطے میں تھے“ میں نے ہنس کر کہا ” یہ رشتے دار ہیں‘ رشتے دار اگر رشتے داروں سے رابطے میں نہیں رہیں گے تو کیا یہ دشمنوں کو فون کریں گے“ وہ ہنسے اور کہا ”بات رشتے داری سے آگے نکل گئی ہے“ میں نے ان سے پوچھا ”حکومت کی شک کی فہرست میں اور کون کون ہے؟“ وہ تھوڑی دیر میری طرف دیکھتے رہے اور پھر بولے ”شک کی فہرست کے بارے میں تمہاری معلومات کیا ہیں؟“ میں نے ہنس کر جواب دیا ”مارکیٹ میں اس وقت تین چار فہرستیں گردش کر رہی ہیں تاہم وزیراعظم کو جو فہرست دی گئی اس میں پانچ اقلیتی ارکان ہیں‘ دو کرسچین ہیں اور تین ہندو ہیں“ میں خاموش ہو گیا‘ وہ ہنس کر بولے ”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو‘ پارٹی ان پانچوں پر شک کر رہی ہے‘ یہ لوگ الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اقلیتی ارکان سے بار بار ملتے رہے تھے‘ ہمارا خیال ہے ان دونوں پارٹیوں نے ان سے سپیشل سیٹوں پر دوبارہ منتخب کرانے کا وعدہ کر لیا ہے“ میں نے کہا ”اور آپ تین خواتین ارکان پر بھی شک کر رہے ہیں‘ میں نے تینوںکے نام ان کے سامنے دہرا دیے“ وہ بولے ”یہ بھی ٹھیک ہے“ میں نے کہا ”آپ نور عالم اور ریاض فتیانہ پر بھی شک کر رہے ہیں لیکن یہ شک غلط ہے“۔
وہ فوراً بولے ”آپ یہ کس بنیاد پر کہہ سکتے ہیں“ میں نے عرض کیا ”نور عالم زبان کا سخت ہے‘ یہ قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے خلاف بھی بات کرتا رہتا تھا اور یہ فیصل کریم کنڈی کا دوست بھی ہے‘ آپ اس بنیاد پر اس پر شک کر رہے ہیں‘ میرا خیال ہے یہ شک غلط ہے‘ آپ کے پاس جب تک ثبوت نہ ہوں آپ کو نور عالم جیسے شخص پر شک نہیں کرنا چاہیے‘ ریاض فتیانہ کے معاملے میں بھی آپ یہی غلطی کر رہے ہیں‘ یہ درست ہے یہ پارٹی قیادت کے قرب سے محروم ہیں اور یہ اس پر ہمیشہ اعتراض بھی کرتے رہتے ہیں۔
یہ بھی ٹھیک ہے یہ یوسف رضا گیلانی کے دوست ہیں‘ یہ الیکشن سے پہلے ان سے ملتے بھی رہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں‘ انہوں نے گیلانی صاحب کو ووٹ بھی دیا تھا‘ آپ صرف شک کی بنیاد پر اتنے بڑے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟“ وہ ہنس کر خاموش ہو گئے۔میں نے عرض کیا ”اور آپ فاٹا کے ایک رکن پر بھی شک کر رہے ہیں‘ وہ بے چارہ حلف دینے کے لیے وزیراعظم سے وقت مانگ رہا ہے لیکن وزیراعظم اس سے ملاقات نہیں کر رہے“۔
وہ بولے ”آپ کی یہ اطلاع بھی درست ہے لیکن ہم صرف اس پر شک نہیں کر رہے ‘فاٹا کے دو اور ارکان بھی شک کی فہرست میں شامل ہیں“ میں نے ہنس کر کہا ”اور جنوبی پنجاب کا فلاں ایم این اے بھی اس فہرست میں شامل ہے‘ اس نے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے بدلے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا تھا اور گیلانی صاحب نے میاں نواز شریف سے اسے ضمانت لے کر دی تھی اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا ذکر مریم نواز نے ” پیسہ نہیں ن لیگ کا ٹکٹ چلا تھا“ کا دعویٰ کر کے کیا تھا“ وہ قہقہہ لگا کر بولے ”یہ انفارمیشن بھی ٹھیک ہے‘ ہمارے پاس باقاعدہ ثبوت موجود ہے“۔
میں نے ان سے سنجیدگی سے پوچھا ”آپ پھر یہ سارے نام الیکشن کمیشن کو کیوں نہیں دے دیتے‘ شام تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا“ وہ تھوڑی دیر میری طرف دیکھتے رہے اور پھر کھل نائیک جیسی ہنسی ہنس کر بولے ”تاکہ ہم گھر چلے جائیں‘ ہماری حکومت ختم ہو جائے“ وہ رکے اور بولے ”آپ کو شاید معلوم نہیں اس ملک کی سیاسی دیگ میں کیا کیا کھچڑی پک رہی ہے‘ حمزہ شہباز جیل سے باہر آ چکا ہے‘ جیل نے اسے سمجھ دار بنا دیا ہے۔
یہ اب سیاسی گنجائش حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے کمپرومائز کے لیے تیار ہے‘ ن لیگ چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے لیے راضی ہو چکی ہے‘ چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بنیں گے‘ ڈیڑھ سال بعد اسمبلیاں ٹوٹ جائیں گی‘ ق لیگ ن لیگ میں ضم ہو جائے گی ‘ ن لیگ الیکشن کے بعد چودھری پرویز الٰہی کو دوبارہ سپیکر بنا دے گی اور ان کے اس وقت کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو ٹکٹ بھی مل جائیں گے‘ پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب کے ایم این ایز اور ایم پی ایز عثمان بزدار سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ یہ بھی اب کہہ رہے ہیں چودھری پرویز الٰہی آ جائیں یا پھر کوئی اور بہرحال صوبہ چلنا چاہیے۔
اسٹیبلشمنٹ بھی پہلے دن سے عمران خان کو عثمان بزدار کے بارے میں سمجھا رہی ہے‘ یوسف رضا گیلانی کے جیتنے کے بعد بھی وزیراعظم کو تین بار سمجھایا گیا لیکن یہ ابھی تک وسیم اکرم پلس کے سر سے ہاتھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ہم جانتے ہیں وزیراعظم نے اگر اب عثمان بزدار کی قربانی نہ دی تو بزدار جاتے جاتے پوری حکومت کو لے جائیں گے لہٰذا عقل کا تقاضا ہے اپوزیشن سے پہلے ہم چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا دیں‘ ہم نے اگر دیر کر دی تو پنجاب میں واقعی تبدیلی آ جائے گی اور یہ تبدیلی ہم سب کا بیڑا غرق کر دے گی“۔
میں نے ان سے پوچھا ”اور اس میں کتنی صداقت ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن آصف علی زرداری کو وزیراعظم بنوانے کی کوشش کر رہی ہے“ وہ تھوڑی دیر تک حیرت سے میری طرف دیکھتے رہے اور پھر بولے ”میں مان گیا ہوں آپ کو! یہ خبر بھی ہم تک پہنچ چکی ہے‘ میاں نواز شریف 2007ءکا فارمولا دہرا رہے ہیں‘آپ کو یاد ہو گا ن لیگ نے2008ءمیں آصف علی زرداری کو حکومت بنانے کا موقع دیا تھا‘ یہ اس کے اتحادی بھی رہے اور پھر پارلیمنٹ میں بھی اسے سپورٹ کرتے رہے‘ اٹھارہویں ترمیم اسی دور میں ہوئی تھی۔
ان پانچ برسوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کا بھرکس نکال دیا اور یوں 2013ءمیں ن لیگ پوری فورس کے ساتھ اقتدار میں آ گئی‘ میاں نواز شریف دوبارہ یہی چاہتے ہیں‘ یہ مولانا فضل الرحمن کے ذریعے آصف علی زرداری کو وزیراعظم بنوانا چاہتے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کو بھی زرداری صاحب پر کوئی اعتراض نہیں‘ یہ فارمولا اگر کام یاب ہو گیا‘ اگر پاکستان پیپلز پارٹی عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لے آئی ‘ اگر ق لیگ پی ڈی ایم کے ساتھ مل گئی اور اگر پی ٹی آئی کے دو تین ارکان علاج کے لیے ملک سے باہر جانے میں کام یاب ہو گئے تو آصف علی زرداری کو وزیراعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
یہ سال ڈیڑھ سال حکومت کریں گے اور اس کے بعد الیکشن ہو جائیں گے اور ن لیگ پوری طاقت کے ساتھ واپس آ جائے گی‘ یہ میاں نواز شریف کا فارمولا ہے‘ اس فارمولے کے تحت پہلے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ پیش کی جائے گی‘ اگر چودھری مان گئے تو گیم پنجاب ہی سے بدل جائے گی اور اگر یہ نہ مانے تو پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے دس بارہ ارکان دائیں بائیں کر دے گی‘ یہ لوگ علاج کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں گے۔
اچانک غائب ہو جائیں گے یا پھر اپنی سیٹوں سے مستعفی ہو جائیں گے اور یوں حکومت چلی جائے گی“ میں نے عرض کیا ”مجھے یوں محسوس ہوتا ہے آپ کو حکومت میں اب کوئی دل چسپی نہیں رہی‘ آپ لوگ اپوزیشن کے فارمولوں کا اتنے مزے سے ذکر کرتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے آپ حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن ہیں“ وہ ہنس کر بولے ” پوری حکومت کا یہ عالم ہے‘ ہمارے ایم این ایز اور وزراءبھی اب کھلے عام سلیکٹر پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ہمیں اگر حکومت دینی ہی تھی تو اکثریت کے ساتھ دے دیتے‘ہمیں یہ لولا لنگڑا اقتدار دینے کی کیا ضرورت تھی؟
آج اگر ہمارے ارکان 250 ہوتے تو ہم پرفارم کر رہے ہوتے‘ ہمیں محسوس ہوتا ہے ہمیں جان بوجھ کر سیٹیں بھی کم دی گئیں اور ہمیں ایسی کولیشن میں بھی باندھ دیا گیا جو ہماری ہو کر بھی ہماری نہیں‘ اس صورت حال نے وزیراعظم کو بے چارہ بنا دیا ہے‘ یہ قوم کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کام کرنے کی بجائے سارا دن حکومت کے تسمے باندھتے رہتے ہیں‘ آپ خود سوچیں وزیراعظم اگر سارا دن سامنے اور دائیں بائیں سے آنے والے تیروں سے بچتے رہیں گے تو یہ خاک حکومت کریں گے چناں چہ ہم تنگ آ چکے ہیں‘ ہم اب چاہتے ہیں جو آسمان گرنا ہے وہ ایک بار ہی گر جائے‘ یہ روز روز کا جینا اور مرنا تو ختم ہو“۔
میں نے ان سے پوچھا‘وزیراعظم شاہ زین بگٹی سے کیوں ناراض ہیں“ میرے مہربان نے بلندوبانگ قہقہہ لگایا اور بولے ”یہ میں آپ کو اگلی ملاقات میں بتاﺅں گا“ میں نے جاتے جاتے پوچھا ”اور یہ 75 کروڑ روپے اور وزارت کا کیا قصہ ہے“ انہوں نے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور میری بات سنی ان سنی کر کے آگے روانہ ہو گئے۔