سینٹ ہونو رینا فرانس کے علاقے نارمنڈی سے تعلق رکھتی تھیں‘ یہ کیتھولک نن تھیں‘ کنواری تھیں‘ نارمنڈی میںکیتھولک کا قتل عام شروع ہوا تو سینٹ ہونورینا کو بھی مار کر نعش دریائے سین میں پھینک دی گئی‘ یہ نعش بہتی بہتی کون فلوینس پہنچ گئی‘ کون فلوینس پیرس سے 24 کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹا سا گاﺅں تھا‘ کیتھولک بھکشوﺅں نے نعش نکالی اور گاﺅں میں تدفین کر دی‘سینٹ ہونورینا کے مزار کے گرد چرچ بن گیا اور یہ گاﺅں کون فلوینس سینٹ ہونو رینا ہو گیا۔
ٹاﺅن آج بھی پیرس کے مضافات میں ہے تاہم اس کی آبادی چالیس ہزار تک پہنچ چکی ہے‘ ٹاﺅن کے زیادہ تر لوگ کیتھولک ہیں‘ کون فلوینس ہونو رینامیں 16 اکتوبر کو ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ پیش آیا‘ ٹاﺅن کے سرکاری سکول میں سیموئیل پیٹی نام کا ایک استاد تھا‘ یہ بچوں کو تاریخ پڑھاتا تھا‘ سیموئیل نے 16 اکتوبر کو کلاس میں موجود تمام مسلمان بچوں کو کمرے سے باہر نکالا اور عیسائی بچوں کو چارلی ہیبڈو میں چھپنے والے خاکے دکھانا شروع کر دیے‘ کلاس سے باہر کھڑے مسلمان بچوں میں چیچن خاندان کا اٹھارہ سال کا ایک بچہ عبداللہ نزوروف بھی شامل تھا‘ عبداللہ نے بعد ازاں اپنے کلاس فیلوز سے پوچھا‘ پروفیسر سیموئیل نے آپ لوگوں کو کیا دکھایا تھا‘ طالب علموں نے اسے سچ سچ بتا دیا‘ پروفیسر سیموئیل یہ حرکت اس سے پہلے بھی کر چکا تھا‘ اس نے دو سال قبل بھی مسلمان طالب علموں کو کلاس سے نکال کر گستاخانہ خاکے دکھائے تھے‘ مسلمان بچوں کے والدین نے اس کے خلاف پولیس کو درخواست بھی دی تھی لیکن پولیس نے اس کے خلاف کارروائی نہیں کی تھی چناں چہ مسلمان بچوں کے دل میں اس کے خلاف نفرت موجود تھی‘ عبداللہ بھی ان بچوں میں شامل تھا‘ یہ سکول سے نکلا‘ خنجر کا بندوبست کیا اور سکول کے راستے میں چھپ گیا‘ پروفیسر سیموئیل چھٹی کے وقت سکول سے نکلا تو عبداللہ نے اس پر خنجر سے حملہ کرکے اس کا سرتن سے جدا کر دیا۔
پولیس آئی اور اس نے عبداللہ کو گولی مار دی‘ فرانس میں اس واقعے کے بعد پروفیسر کے حق میں مظاہرے شروع ہو گئے‘ 18 اکتوبر کو پیرس میں بھی 10 ہزار پروفیسروں نے مظاہرہ کیا‘ صدر میکرون کی پارٹی لا ری پبلک این مارش اس وقت حکومت میں ہے‘ اس کی سب سے بڑی مخالف نیشنل ریلی پارٹی ہے اور یہ مسلمانوں اور غیر ملکی پناہ گزینوں کے خلاف ہے‘ اس نے یہ ایشو اٹھا لیا‘ حکومت دباﺅ میں آ گئی اور اس نے اعتدال کا دامن مکمل طور پر چھوڑ دیا‘ صدر میکرون نے 21 اکتوبرکو پروفیسر سیموئیل کو قومی ہیرو ڈکلیئر کر دیا۔
یہ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو بھی شاید قابل برداشت ہوتا لیکن حکومت اس سے ہزاروں میل آگے نکل گئی اور اس نے فرانس کے دو شہروں طلوس اور ماﺅنٹ پیلیئر میں بڑی بڑی سکرینیں لگائیں اور ان پر گستاخانہ خاکے دکھانا شروع کر دیے‘ یہ گستاخی روزانہ شام پانچ بجے سے نو بجے تک پولیس کی نگرانی میں کی جاتی ہے‘ صدر میکرون صرف یہاں تک نہیں رہے‘ یہ سرکاری دفتروں میں بھی خاکے دکھانے لگے‘ یہ دنیا میں نبی رسالت کی سرکاری سطح پر پہلی گستاخی ہے اور اس کے ردعمل میں پورا عالم اسلام غصے سے ابل رہا ہے‘ فرانس کے اندربھی حالات بہت کشیدہ ہیں۔
میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں فرانسیسی معاشرے (میں معاشرے کی بات کر رہا ہوں‘ حکومت کی نہیں) کا بہت بڑا فین ہوں‘ میں کورس جزیرے تک پورا فرانس دیکھ چکا ہوں‘ پیرس شہر میں بھی سوسے زیادہ مرتبہ گیا ہوں اورمجھے آج تک فرنچ سوسائٹی میں کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک دکھائی نہیں دیا‘ فرنچ لوگ کلچرلی بہت مضبوط ہیں‘ یہ دل آزاری کے احساس سے کسی دوسرے کی طرف غور سے نہیں دیکھتے۔
ریستوران میں اگر کسی سے گلاس یا پلیٹ ٹوٹ جائے تو پورے ہال میں سے کوئی شخص اس کی طرف نہیں دیکھے گا‘ کھانا یا سروس پسند نہ آئے تو یہ بے تحاشا تعریف کریں گے‘ ٹپ دیں گے اور پھر کبھی دوبارہ اس دکان یا ریستوران میں قدم نہیں رکھیں گے‘ الجزائر1962ءتک فرانس کا حصہ تھا‘ الجزائری مسلمان132سال آزادی کی جنگ لڑتے رہے‘فرانس کے 90فیصد دانشوروں‘ شاعروں‘ ادیبوں اور مصوروں نے اس دوران الجزائر کی حمایت اور اپنی حکومت کی مخالفت کی اور ان لوگوں میں سارتر جیسا عظیم دانشور بھی شامل تھا۔
دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ریسرچ سنٹر” انسٹی ٹیوٹ دی مونٹ عرب“ بھی پیرس شہرمیں ہے‘ میں وہاں درجنوں مرتبہ جا چکا ہوں‘ انسٹی ٹیوٹ میں پوری مسلم ورلڈ سے سکالر آتے ہیں‘ پروفیسر حمیداللہ اسی انسٹی ٹیوٹ کے قریب رہتے تھے چناں چہ مجھے 25 برسوں میں فرانس میں مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک نظر نہیں آیا لیکن آج جب میں خبریں پڑھتا ہوں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے‘ میرا خیال ہے ہم یورپ اور یورپ ہمیں سمجھ نہیں پا رہا۔
ہم دونوں کے درمیان گہری خلیج ہے اور ہم اس خلیج کو صرف اور صرف مکالمے سے پُر کر سکتے ہیں‘ ہم مسلمان کیا ہیں‘ میں سب سے پہلے فرنچ گورنمنٹ کو یہ بتانا چاہتا ہوں‘ آپ منڈی بہاﺅالدین کے ظہیر حسن کی مثال سے شروع کیجیے‘ ظہیر حسن کی اصل عمر 25سال ہے‘ فرانس کا قانون ہے یہ 18 سال سے کم عمر مہاجرین کو پناہ بھی دے دیتا ہے اور ان کے نان نفقے کی ذمہ داری بھی کسی فرنچ خاندان کو دے دیتا ہے‘ ظہیر حسن نے اس قانون کا فائدہ اٹھانے کے لیے فرانس پہنچ کر خود کو اٹھارہ سال سے کم عمر ڈکلیئر کر دیا تھا۔
پولیس نے 25ستمبر کو چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملے کے بعد اس کے موبائل فون سے اس کا اصل شناختی کارڈ نکال لیا‘ یہ 25سال کا تھا‘ سوال یہ ہے وہ لڑکا جو جعلی کاغذات پر فرانس آیا ‘ جس نے خوش حال اور پرسکون زندگی کے لیے چھ سرحدیں پار کیں اور جو کنٹینرز میں چھپ کر فرانس پہنچا‘ اس نے اچانک اپنی زندگی کو خطرے میں کیوں ڈال دیا‘ یہ 25 ستمبر کوپولیس کی گولی کا نشانہ بھی بن سکتا تھا اور یہ اب بھی پوری زندگی جیل میں گزارے گا‘ کیوں؟ چیچن عبداللہ کی کہانی بھی ظہیر حسن سے ملتی جلتی ہے۔
اس کا خاندان چیچنیا سے بھاگ کر ماسکو آیا‘ یہ 2002ءمیں ماسکو میں پیدا ہوا‘ یہ لوگ 2005ءمیں روس سے بھاگ کر پولینڈ پہنچے‘ پولینڈ نے انہیں سیاسی پناہ نہیں دی تو یہ پیدل چھپ کر فرانس پہنچے‘ فرانس نے انہیں سیاسی پناہ دے دی‘ عبداللہ کو بڑی کوششوں کے بعد پانچ مارچ 2020ءکو ریذیڈنس کارڈ ملا تھا‘ یہاں ایک بار پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے‘ مسائل کے مارے عبداللہ نے پروفیسر سیموئیل کو کیوں قتل کیا؟ جواب واضح ہے‘ مسلمان بے ایمان ہو سکتا ہے‘ یہ شرابی‘ زانی اور چور بھی ہو سکتا ہے لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی ذات پر انگلی اٹھتی ہے تو ظہیرحسن ہو یا عبداللہ مسلمان اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیںاور دنیا کو یہ بات سمجھنا ہو گی۔
ہم میں سے برے سے برا مسلمان بھی رسول اللہ ﷺ کی ذات پر کمپرومائز نہیں کرتا چناں چہ یورپ کو اپنا معاشرہ بچانے‘ سوسائٹی میں توازن قائم کرنے کے لیے چارلی ہیبڈو اور پروفیسر سیموئیل جیسے لوگوں کو روکنا ہوگا‘ یورپ کو ان کے خلاف قانون سازی کرنی ہو گی‘ صدر میکرون کا راستہ غلط ہے اور اس راستے پر خون اور بارود کے سوا کچھ نہیں‘ میکرون کا ردعمل مسلمانوں کو روک یا دبا نہیں سکے گا‘ یہ دنیا میں جنگوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دے گا اور اس میں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
ہم اب اسلامی دنیا کے نوجوانوں کی طرف بھی آتے ہیں‘ میں بار بار عرض کر رہا ہوں ہم اکیلے ٹھیکے دار نہیں ہیں‘ اسلام اور نبی رسالت کا سب سے بڑا محافظ اللہ تعالیٰ ہے‘ اس نے نبی اکرم کی حرمت کی قسم کھا رکھی ہے لہٰذا یہ کسی قیمت پر اپنے حبیب کی بے حرمتی برداشت نہیں کرے گا‘ آپ یہ یقین رکھیں‘ دوسرا دنیا میں 57 اسلامی ملک اورایک ارب 90کروڑ مسلمان ہیں‘ ہم سب جب تک مل کر توہین رسالت کا مسئلہ نہیں اٹھائیں گے‘ یہ سلسلہ بند نہیں ہو گا چناں چہ آپ چھری‘ تلوار یا بندوق اٹھانے کی بجائے اپنی حکومت کو مجبور کریں۔
آپ او آئی سی‘ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف پر دباﺅ ڈالیں‘ یہ سب ادارے ملیں گے تو ہی چارلی ہیبڈو جیسے میگزین اور گستاخانہ خاکے بنانے والے بدبخت ٹیگنوس‘ شارب‘ آکاکابو‘ جین کابٹ اور وولنسکی رکیں گے‘ ہم اگر اس طرح انفرادی سطح پر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے رہے تو دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی اور اس میں چارلی ہیبڈو اور ظہیرحسن دونوں مارے جائیں گے‘ دوسرا آپ یہ بھی دیکھ لیجیے ظہیر حسن کے حملے سے پہلے گستاخی کا سلسلہ صرف چارلی ہیبڈو تک محدود تھا۔
اس میگزین کی سرکولیشن دو ہزار کاپیوں سے زیادہ نہیں تھی‘ ظہیر حسن نے چارلی ہیبڈو کی پرانی عمارت پر حملہ کر کے گستاخی کو پورے فرانس تک پھیلا دیا اور چیچن نوجوان عبداللہ کی وجہ سے یہ گستاخی اب سکرینوں تک پہنچ چکی ہے اور حکومت نے اسے ”اون“ کر لیا ہے چناں چہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں ان دونوں نوجوانوں کے اقدامات سے کس کو نقصان ہوا؟ ہم مسلمان دونوں نوجوانوںکے اقدامات کے سب سے بڑے وکٹم ثابت ہوئے۔
فرنچ حکومت اب گستاخانہ خاکے سکرینوں کے ذریعے پورے پورے شہر کو دکھارہی ہے چناں چہ ہمیں بھی یہ سمجھنا ہوگا ہم دباﺅ ڈال کر یہ مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے لہٰذا پلیز ڈائیلاگ شروع کریں اور اس ڈائیلاگ میں پوپ‘ امام کعبہ‘ آیت اللہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بٹھائیں‘ یہ سب مل کر عیسائی دنیا میں نئی قانون سازی کرائیں ورنہ یہ چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے بڑے حادثوں میں بدل جائیں گے۔