ہم اگر حضرت عمر فاروقؓ کی شخصیت کو دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو ”عدل فاروقی“ لکھ دینا کافی ہو گا‘ حضرت عمرؓ انصاف کے معاملے میں انقلابی تھے‘ یہ عدل کرتے وقت شریعت سے بھی گنجائش نکال لیتے تھے مثلاً حجاز اور شام میں قحط پڑا‘ لوگوں نے بھوک سے تنگ آ کر خوراک چوری کرنا شروع کر دی‘ آپؓ نے چوری کی سزا معطل کر دی‘ اپنے صاحب زادے کا ایشو سامنے آیا‘ گورنر مصر نے عرض کیا ”جناب ہم شریعت کے مطابق سزا دے چکے ہیں“ مگرآپؓ نے اپنے صاحب زادے کو لٹا کر اپنے ہاتھوں سے کوڑے مارے۔
فارس کے ساتھ جنگ میں مجاہدین کم ہو گئے‘ آپؓنے عراق کے عیسائیوں اور مسیلمہ کذاب کے مرتدین کو بھی فوج میں بھرتی کر لیا اور بدکاری کے ایک مقدمے کے دوران نوجوان نے عرض کیا‘ میں اور یہ لڑکی دونوں جوان ہیں مگر ہمارے والدین نے ہماری شادی نہیں کی‘ آپؓ نے دونوں کا نکاح کرا دیا اور لڑکے اور لڑکی کے والدین کو کوڑے مروادیے‘یہ واقعات ثابت کرتے ہیں آپ ؓ انصاف کرتے ہوئے بڑی سے بڑی گنجائش نکال لیتے تھے‘ آپؓ کے دور کا واقعہ ہے‘ آپؓ کے سامنے ایک چور لایا گیا‘ آپؓ نے اسے سزا سنا دی‘ اس نے رو کر عرض کیا ”یہ میری پہلی چوری ہے‘ میرے ساتھ رعایت کی جائے“ آپؓ نے فرمایا‘ تم جھوٹ بول رہے ہو کیوں کہ قدرت کسی شخص کو پہلی یا دوسری غلطی پر سزا نہیں دلاتی‘ انسان جب تک اعتدال سے باہر نہیں نکلتا‘ یہ اس وقت تک پکڑا نہیں جاتا‘ تم بھی عادی چور ہو ورنہ قدرت تمہارے ساتھ رعایت کرتی“ آپؓ کی یہ بات تحقیق کے بعد سچ ثابت ہو گئی‘ مجرم نے تفتیش کے دوران اعتراف کر لیا وہ ماضی میں بھی چوری کی وارداتیں کرتا رہا تھا۔ہم اگر حضرت عمر فاروقؓ کے اس فارمولے پر غور کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے موٹروے کا سانحہ صرف ایک سانحہ نہیں یہ پانچ مختلف آوازوں پر مشتمل ایک بڑا سائرن ہے اور اس سائرن کے ذریعے قدرت ہمیں ہماری خامیوں کی اطلاع دینا چاہتی ہے‘ اس سائرن کی پہلی آواز بتا رہی ہے ہمارے ملک میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔
عابد ڈکیت‘ وقار مکینک اور بالامستری تک یہ سمجھتے ہیں یہ اگر ڈکیتی کے دوران خاتون کی عزت لوٹ لیں گے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ ہم گھروں میں کام کرنے والی عورتوں سے لے کر پارلیمنٹ میں بیٹھی خواتین تک کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں اور یہ وہ زاویہ ہے جس کی وجہ سے خواتین 52 فیصد ہونے کے باوجود معاشرے میں نظر نہیں آتیں اور جو نظر آتی ہیں وہ بھی سر جھکا کر اور شرمندہ شرمندہ سی سائیڈ سے گزرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورتیں کیوں غیر محفوظ ہیں؟ کیوں کہ ہم نے آج تک ان کی پروٹیکشن کے لیے قوانین نہیں بنائے‘ ہم نے خواتین کو تنگ کرنے والوں کو قرار واقعی سزا نہیں دی‘ آپ یورپ میں کسی عورت کی طرف دیکھ کر دکھادیں ریاست آپ کو عبرت کا نشان بنا دے گی جب کہ پاکستان میں شکایت کرنے والی عورت عبرت کا نشان بن جاتی ہے لہٰذا ہم اگر مستقبل میں موٹر وے جیسے سانحوں سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں عورت کو محفوظ بنانا ہو گا اور آپ اس کے لیے کچھ نہ کریں‘ آپ بس حضرت عمر فاروقؓ کے وہ قوانین نافذ کر دیں جن کی پیروی کر کے یورپ نے اپنی عورتوں کو محفوظ بنایا۔
دوسری آواز پولیس کا سسٹم ہے‘ ہماری پولیس آج بھی 1865ء میں زندگی گزار رہی ہے‘ آج بھی تفتیش کے نام پر وہی”اوئے‘ چھتر اٹھا لو‘ الٹا لٹکاؤ اور مار دو“ چل رہی ہے‘ پوری دنیا میں تفتیش موبائل فون ڈیٹا‘ سی سی ٹی وی کیمروں‘ فیس ریڈنگ‘ سافٹ ویئرز‘ فرانزک ٹیسٹ اور سائنٹیفک اینالیسز پر چلی گئی ہے‘ سی آئی اے امریکا میں بیٹھ کر ایبٹ آباد میں چھپے اسامہ بن لادن اور پاک افغان سرحد پر موجود ملا اختر منصور کو تلاش کر لیتی ہے جب کہ ہم آج بھی ملزم عابد علی تک پہنچنے کے لیے اس کی بیٹی اور وقار الحسن کو گرفتار کرنے کے لیے اس کی بہن کو تھانے میں بند کر دیتے ہیں اور ہم آج بھی کھوجی اکٹھے کرتے رہتے ہیں۔
ہم اگر ملک میں واقعی جرائم کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ماڈرن پولیسنگ پر جانا ہوگا‘ ہمیں چھتر کی جگہ آج کی سائنسی تکنیکس اپنانا ہوں گی‘تیسری آواز ہمارا جسٹس سسٹم ہے‘ ہمیں ماننا ہوگا ہمارا جسٹس سسٹم ظالم کو نہیں مظلوم کو مارتا ہے‘ ظالم بڑے آرام سے اس سے نکل جاتا ہے جب کہ مظلوم مزید ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے‘ دنیا کے تمام جدید ملکوں میں قتل‘ آبروریزی اور ڈکیتی ریاست کے خلاف جرم ہوتی ہے‘ ان میں مظلوم مدعی نہیں ہوتا ریاست مدعی ہوتی ہے جب کہ ہم یہ بوجھ بھی مظلوم پر ڈال دیتے ہیں چناں چہ ملزم مظلوم کو دبا کر صلح کر لیتا ہے یا خرید لیتا ہے یا پھر مدعی عدالتوں کے چکر لگا لگا کر ہمت ہار جاتا ہے اور یوں ملزم رہا ہو جاتے ہیں۔
ہمیں کم از کم اب ڈکیتی‘ آبروریزی اور قتل کو ریاست کے خلاف جرم بنا دینا چاہیے اگر اس معاملے میں شریعت آڑے آئے تو آپ حضرت عمرفاروقؓ کے فیصلوں سے رہنمائی لے سکتے ہیں‘ دنیا میں اگر ریاست مدینہ کا کوئی تصور ہے تو حضرت عمر فاروقؓ اس ریاست کا سنہری عہد تھے‘ آپؓ کے دور میں فرات کے کنارے بیٹھے کتے بھی بھوکے نہیں سوتے تھے‘ خلیفہ ان کے نان نفقے کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے‘ چوتھی آواز ہماری غلط سوچ ہے‘ ہم ایک شخص کے جرم کو اس کے پورے خاندان کا جرم بنا دیتے ہیں۔
مثلاً اگر ملزم عابد کی بیٹی کو پولیس تھانے لے گئی یا وقار الحسن کی بہن کو حوالات میں بند کر دیا گیا یا مجرم شفقت کے سارے خاندان کو حراست میں لے لیا گیا توکیا یہ ٹھیک ہے؟ یہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے! آپ ایک شخص کی سزا اس کے خاندان یا اس کے گھر کی خواتین کو کیسے دے سکتے ہیں؟ اسی طرح اگر خواجہ سرا قتل ہو جائے یا طوائف کو گولی مار دی جائے توہم ان کے قتل کو ان کے ”کردار“ کے کھاتے میں ڈال دیں گے‘ یہ سوچ غلط ہے‘ انسان انسان ہوتا ہے اور یہ اگر گوانتانا موبے میں بھی ہو تو اس کے حقوق سلب نہیں ہوتے‘ دوسرا ہم جب بھی اٹھتے ہیں ماں‘ بہن اور بیٹی کی گالی دیتے ہیں‘ آخر بیٹیوں‘ بہنوں اور ماؤں کا کیا قصور ہے؟
ہم مردوں کے ساتھ ان کو کیوں لپیٹ دیتے ہیں! ہم کام کرنے والی خواتین کو بھی برا سمجھتے ہیں‘ ہماری نظر میں سائیکل چلانے اور ڈرائیونگ کرنے والی خواتین بھی بری ہوتی ہیں‘ خواتین تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکتیں‘ یہ اپنے بچے پالنے کے لیے ٹیکسی بھی نہیں چلا سکتیں اور یہ نشئی‘ پاگل اور ظالم شوہر سے طلاق بھی نہیں لے سکتیں‘ یہ کیا کریں؟ عورت آخر کب تک مردوں کی کھوکھلی غیرت کا استعارہ بنی رہے گی اور ہم آخر کب اسے زیور‘ زمین اور مکان کے درجے سے انسان سمجھنا شروع کریں گے؟ ہمیں یہ سوچ بدلنا ہو گی۔
پانچویں آواز آپ سانحہ موٹروے کے مجرموں کے پروفائل دیکھ لیں‘ پہلا مجرم عابد علی کون ہے؟ ان پڑھ‘ بے ہنر اور انتہائی غریب‘ شفقت کون ہے؟ اس کا والد اللہ دتہ بھی بے روزگار تھا اور یہ پانچ بہن بھائیوں میں سے ایک ہے‘ یہ بھی ان پڑھ اور بے ہنر ہے‘ محمد اقبال بالا مستری کہلاتا ہے‘یہ مستری ہے اور یہ بھی بے روزگار ہے‘ وقار الحسن موٹر سائیکل مکینک ہے‘اس کے چار بھائی‘ تین بہنیں اور چھ بچے ہیں‘ گھر میں بے روزگاری بھی تھی اور بیماری بھی اور عباس بھی پانچ بچوں کا باپ ہے۔ یہ بھی بیمار ہے اور یہ فیکٹری میں بطور ٹھیکے دار کام کرتا ہے۔
یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ ان پڑھ‘ بے ہنر اور بے روزگار بھی ہیں اور یہ دس دس لوگوں کے خاندانوں سے بھی نکلے ہوئے ہیں‘ یہ لوگ جب اپنے اردگرد چمکتی دمکتی اور مہنگی زندگی دیکھتے ہیں تو یہ کیا کریں گے؟ کیا یہ چھوٹے چھوٹے گینگ بنا کر گاڑیاں اور گھر نہیں لوٹیں گے؟ اور ہمارے ملک میں اس وقت 10 کروڑ ایسے بالے مستری ہیں‘ یہ ان پڑھ بھی ہیں اور انہیں کوئی ہنر بھی نہیں آتا لہٰذا یہ پھر زندگی کیسے گزاریں گے‘ یہ دس دس لوگوں کے اخراجات کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے؟
کیا یہ چوری یا ڈکیتی کو اپنا روزگار نہیں بنائیں گے‘ ہمیں اس آواز پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا‘ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا ہم ملک میں کسی بھی شخص کو بے ہنر نہیں رہنے دیں گے‘ حکومت پرائمری جماعت سے ہنر کو سلیبس کا حصہ بنا دے‘ ہم ہزار ٹریڈ ڈویلپ کریں اور بچوں کا ٹیلنٹ دیکھ کر چھٹی جماعت سے انہیں مختلف ٹرید سکھانا شروع کریں‘ ہم غیر تعلیم یافتہ بچوں کو بھی والدین سے لیں اور انہیں ہنر سکھا کر معاشرے کے حوالے کر دیں اور ہم وقار الحسن اور بالے مستری جیسے تمام کاری گروں کے لیے بھی لائسنس اور ٹریننگ لازمی قرار دے دیں۔
ہم بنیادی تنخواہ بھی پچاس ہزار روپے کر دیں اور یہ بھی لازم کر دیں اگر اٹھارہ سال کی عمر کے بعد کوئی شخص تعلیم نہیں لے رہا تو یہ ہر صورت کام کرے گا‘ حکومت بے روزگاروں کا ڈیٹا بھی جمع کرے اور ان کے لیے روزگار کے ذرائع بھی پیدا کرے‘ ہمیں آج ماننا ہوگا ہم بالے مستری‘ وقارے مکینک اور بگے (شفقت) کو گلیوں میں چھوڑ کر اطمینان سے زندگی نہیں گزار سکیں گے‘ ہمیں انہیں ہنر مندبھی بنانا ہوگا اور مصروف بھی رکھنا ہوگا ورنہ یہ لوگ معاشرے کو اسی طرح چاٹ جائیں گے اور یہ بھی یاد رکھیں قدرت بار بار الارم بجا رہی ہے۔
ہم نے اگر اس کی آواز نہ سنی تو یہ بالے مستری چند برس بعد کسی گاڑی کو سڑک پر نہیں چڑھنے دیں گے خواہ ہم پچاس ہزار لوگوں کو پھانسی کیوں نہ چڑھا دیں‘خواہ ہم آدھے ملک کو مردانہ صفت سے محروم کیوں نہ کر دیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم کان کو الٹا پکڑ رہے ہیں‘ ہم آگ نہیں بجھا رہے‘ ہم صرف دھوئیں کو پھونکیں مار رہے ہیں۔