انگریز کے دور میں گھوڑے پولیس کی ٹرانسپورٹ ہوتی تھی‘ سرکاری گھوڑا اس زمانے میں بہت قیمتی ہوتا تھا‘اس کی چوری کا مطلب جہاز کی چوری ہوتی تھی چناں چہ حکومت سرکاری گھوڑوں کے معاملے میں بڑی حساس ہوتی تھی‘ اس زمانے میں کوئی تھانے دار علاقے کے گشت پر نکلا‘ راستے میں رات پڑ گئی‘ وہ نمبر دار کا مہمان بن گیا‘ نمبر دار کے چھ بیٹے تھے‘وہ کھیتی باڑی اور پہلوانی کرتے تھے‘ تھانے دار نے اپنا گھوڑا ان کے حوالے کیا اور تاکید کی ”یہ سرکاری گھوڑا ہے‘
اس کی خصوصی حفاظت کرنا‘ یہ کہیں چوری نہ ہو جائے“ نمبر دار تھانے دار کے سامنے کھڑا ہوا اور سینے پر ہاتھ مار کر بولا ”جناب آپ فکر نہ کریں‘ میرے چھ پہلوان بیٹے ہیں‘ ہم علاقے کے نمبر دار ہیں‘ اگر ہمارے اصطبل سے گھوڑا کھل (چوری) گیا تو فٹے منہ ہو ہم پر“۔فٹے منہ اس زمانے میں مردانگی کی انتہائی توہین ہوتی تھی‘ تھانے دار مطمئن ہو کر سو گیا‘ سردیوں کی رات تھی‘ صبح فجر کے وقت تھانے دار کا دروازہ بجنے لگا‘ وہ ہڑبڑا کر اٹھا‘ دروازہ کھولا تو نمبر دار اپنے چھ بیٹوں کے ساتھ باہر کھڑا تھا‘ تھانے دار نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ نمبردار شرمندہ سی آواز میں بولا ”جناب ہم نے بڑی حفاظت کی مگر آپ کا گھوڑا کھل گیا ہے‘ آپ اب مہربانی فرما کر ہمیں جلدی سے فٹے منہ کہہ دیں‘ ہم نے کھیتوں کو پانی دینے جانا ہے“۔میرا خیال تھا یہ دور ختم ہو چکا ہے لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور نئے آئی جی انعام غنی نے ایک بار پھر وہ زمانہ یاد کرا دیا‘ 9 ستمبر کو لاہور سیالکوٹ کا سانحہ پیش آیا‘ دو ڈاکوﺅں نے بچوں کے سامنے ماں سے زیادتی کی‘ واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی بھی ہوئی‘ پنجاب حکومت نے دو دن بعد کمال کر دیا‘ حکومت کی طرف سے پہلے مجرموں کی نشان دہی کی خبر چلی اور پھر پریس کانفرنس کا اعلان کر دیا گیا‘ پورا ملک ٹیلی ویژن سکرینوں کے سامنے بیٹھ گیا‘ پریس کانفرنس شروع ہوئی تو قوم نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار‘ وزیر قانون راجہ بشارت‘ وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان اور پھر آئی جی پنجاب انعام غنی کا دیدار کیا‘ وزیراعلیٰ نے اپنا بیان پڑھا اور پھر آئی جی نے پنجاب پولیس کی کارکردگی گنوانا شروع کر دی‘ پولیس کی کتنی ٹیمیں بنیں‘ کتنی بھاگ دوڑ کی گئی اور آخر میں بتایا خاتون کے جسم سے ملنے والا ڈی این اے ملزم عابدعلی کے ڈی این اے سے میچ کر گیا ہے۔
یہ بہاول نگر کی تحصیل فورٹ عباس کا رہنے والا ہے‘ 2013ءمیں اس نے ماں بیٹی دونوں کے ساتھ زیادتی کی تھی اور اس وقت اس کا ڈی این اے لیا گیا تھا‘ آئی جی پنجاب نے بتایا ملزم کے ساتھی وقار الحسن کی نشان دہی بھی ہو گئی ہے‘ آئی جی نے اس کے بعد یہ بتا کر پوری قوم کو حیران کر دیا‘ پولیس نے جب قلعہ ستارہ شیخو پورہ میں ملزم عابدعلی کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہ گاڑی دیکھ کر اپنی بیوی کے ساتھ پیدل فرار ہو گیا‘ یہ سن کر پوری قوم سکتے میں چلی گئی یعنی آپ پولیس کی کارکردگی ملاحظہ کیجیے۔
ڈی این اے پنجاب فرانزک لیب نے میچ کیا یعنی اگر لیب میں مجرموں کے ڈی این اے کا ریکارڈ نہ ہوتا تو پولیس کبھی عابدعلی تک نہ پہنچ پاتی‘ شناختی کارڈ ‘ گھر کا ایڈریس اور موبائل سمز نادرا کے ریکارڈ سے نکلیں اور ملزموں کی لوکیشنز اور کال کا ڈیٹا موبائل فون کمپنیوں نے فراہم کیا لیکن جب گرفتاری کی باری آئی تو ملزم بیوی کے ساتھ پیدل فرار ہو گیا اور آئی جی اور وزیراعلیٰ بڑے فخر سے اپنی اس ناکامی کو کام یابی بنا کر پیش کر رہے ہیں‘واہ‘کیا بات ہے!۔
آپ اس سے بھی اگلی نالائقی ملاحظہ کیجیے‘ پولیس نے وزیراعلیٰ کی منظوری سے وقار الحسن کو شریک ملزم بھی ڈکلیئر کر دیا اور پورے میڈیا میں اس کی تصویر بھی نشر کر دی‘ اشتہار تک چھپ گئے‘ پولیس نے اس کے گھر چھاپہ مارکر اس کے آدھے خاندان کو پھینٹا بھی لگا دیا اور اس کی ہمشیرہ کو بھی اٹھا کر تھانے لے گئی اور وقار الحسن نے اگلے دن خود گرفتاری دے دی اور بتایا ”میرے سالے عباس نے میرے شناختی کارڈ پر سم لے رکھی تھی اور وہ عابد کے ساتھ مل کر وارداتیں کرتا تھا‘ میں بے گناہ ہوں“ اور اگلے دن عباس نے بھی سرینڈر کر دیا لیکن مجرم عباس بھی نہ نکلا شفقت نکل آیا یعنی آپ کمال ملاحظہ کیجیے۔
پولیس نے صرف عابد کے کال ڈیٹا سے وقار الحسن کو مجرم بنا دیا تھا‘ کسی میں اتنی عقل یا سمجھ بوجھ نہیں تھی وہ کال ڈیٹا کا تجزیہ ہی کر لیتا‘ وہ یہ کنفرم کر لیتا کیا واقعی یہ فون وقار الحسن استعمال کر رہا ہے؟ ملک میں اس وقت بھی لاکھوں سمیں دوسروں کے شناختی کارڈ پر ہوں گی‘ کیا اس کا یہ مطلب ہے آپ شناختی کارڈ اٹھائیں اور اس شخص کو مجرم ڈکلیئر کر دیں‘کیا ریاستیں اور حکومتیں اس طرح آپریٹ ہوتی ہیں؟ اور آپ حماقت کی انتہا ملاحظہ کیجیے‘ پولیس کی اس ناکامی کا اعتراف آئی جی وزیراعلیٰ کی موجودگی میں پریس کانفرنس میں کر رہا ہے اور وزراءایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں‘ ملک میں یہ کیا ڈرامہ چل رہا ہے؟۔
لاہور کے اعلیٰ ترین افسر سی سی پی او عمر شیخ کا بیان ٹاپ ٹرینڈ کو بھی کراس کر چکا ہے‘ شیخ صاحب نے فرما دیا تھا‘ خاتون کو رات ساڑھے بارہ بجے اکیلے گھر سے نکلنے کی کیا ضرورت تھی ‘ اس نے موٹروے کا راستہ کیوں چنا اور اس نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے پٹرول چیک کیوں نہیں کیا؟ یہ بیان ناقابل برداشت تھا‘ عوام کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تو مشیر داخلہ شہزاد اکبر سی سی پی او کی مدد کے لیے لاہور پہنچ گئے اور عمر شیخ کو ساتھ کھڑا کر کے فرما دیا ”ان کے بیان کا غلط مطلب لیا گیا“ جناب صحیح مطلب کیا تھا؟ آپ خود وضاحت فرما دیں۔
عمر شیخ میرے دوست ہیں‘ یہ متعدد مرتبہ میرے پاس تشریف بھی لاچکے ہیں‘ سیلف میڈ ہیں‘ دلیر ہیں اور پولیس کے اندر پولیس یا پولیس میں مارشل لاءلگانا چاہتے ہیں لیکن ان کا یہ بیان ناقابل فہم تھا‘ پورا ملک سوگوار ہے‘ لوگ شرمندہ پھر رہے ہیں اور آپ نے ”خاتون کو خود بھی سوچنا چاہیے تھا“ جیسا بیان داغ دیا۔ یہ درست ہے یہ ملک خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ نہیں‘ امریکی خاتون سنتھیا رچی کا کیس اس وقت بھی چل رہا ہے‘ اس نے سرعام الزام لگا دیا تھا اسے ایوان صدر میں سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے ہراساں کیا اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے اپنی سرکاری رہائش گاہ میں اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔
اس نے اس کی خوف ناک تفصیل بھی بیان کی‘ سنتھیا رچی ہر دوسرے دن وکلاءکے درمیان کھڑی ہو کر تصاویر بنواتی ہے‘ کراچی کی پولیس انسپکٹر غزالہ تک نے اپنے پولیس کولیگز پر جنسی ہراسانی کا الزام لگا دیا اور اسلام آباد کی سڑکوںپر سائیکل چلانے والی خاتون ثمرخان کے ساتھ بھی کیا ہوا؟ ہمارے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر روز جنسی ہراسیت‘ زیادتی اور ریپ کی خبریں نشر ہوتی رہتی ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں پولیس متاثرین کو یہ کہنا شروع کر دے ”آپ کو بھی رات کو باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا“ ہم اگر اس معاشرے کو واقعی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں لوگوں کے حقوق کو ہر صورت محفوظ بنانا ہو گا۔
پھر دن ہو یا رات ہو ملک کے ہر شہری کو آزادانہ گھومنے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن اگر پولیس چیف ہی مظلوموں کو یہ کہنا شروع کر دے تو پھر بات ختم ہو جاتی ہے‘ اس سے آگے پھر عدالتیں بچتی ہیں اور یہ صورت حال اگر اسی طرح جاری رہی تو پھر کسی نہ کسی دن جج حضرات بھی مدعی کو کہہ دیں گے ”آپ کو اپنے گھر میں قیمتی چیزیں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ نہیں جانتے ملک میں کتنی چوریاں ہو رہی ہیں یا پھر یہ مقتول کی ماں کو یہ کہہ دیں گے آپ کو ملکی حالات کا علم تھا‘ آپ نے اس کے باوجود بچہ بھی پیدا کر دیا اور اسے جوان بھی کر دیا چناں چہ اصل مجرم آپ ہیں‘ کیوں نہ آپ کو پھانسی دے دی جائے“۔
اور یہ سن کر جب لوگ شور کریں تو وزیراعظم فرما دیں ”کیا ہوا‘ جج صاحب ٹھیک ہی تو فرما رہے ہیں‘ یہ خاتون اگر بچہ پیدا نہ کرتی تو یہ آج قتل نہ ہوتا“ کیا ہم ملک کو وہاں تک لے جانا چاہتے ہیں؟۔میں واپس وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب انعام غنی کی طرف آتا ہوں‘ ہماری نظر میں اگر ملزم کا پیدل بھاگ جانا بھی کارنامہ ہے‘ ہم اگر اس پر بھی پریس کانفرنس کر سکتے ہیںتو پھر ہمیں یہ ڈکلیئر کر دینا چاہیے ملزم بزدل تھا‘وہ عام گاڑی میں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کو دیکھ کر بھاگ گیا اور پولیس بہادر اور چالاک تھی‘ یہ اسے روک نہیں سکی۔
یہ انتہائی ذہین بھی تھی‘ اس نے وقار الحسن کو مجرم بھی ڈکلیئر کر دیا لہٰذا ہم پولیس کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نواز رہے ہیں‘ اگر یہ کارکردگی ہے توکیا پھر اگلی بار وزیراعلیٰ یہ اعلان کریں گے ” پولیس تین دن کی بھاگ دوڑ کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے خاتون کی آبرو ریزی کسی مرد نے کی تھی“ یا پھر ہم پریس کانفرنس بلا کر قوم کو یہ بتائیں گے ”آپ اگر خاتون ہیں تو پھر ذہنی طور پر تیار رہیں‘ آپ کے ساتھ بھی کبھی نہ کبھی ایسا واقعہ پیش آ سکتا ہے“ یہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے‘ یہ کون لوگ ہیں اور یہ روز چاند چڑھا کر تھک بھی نہیں رہے اور کیا ہمارے فٹے منہ کا وقت اب بھی نہیں آیا؟چناں چہ آپ کی مہربانی آپ ہمیں جلدی جلدی فٹے منہ کہیں تاکہ ہم کام دھندا کر سکیں‘ ہم کم از کم روزانہ کی اس بک بک سے تو نکل سکیں۔