کریش ہالی ووڈ کی معرکة الآراءفلم ہے‘ یہ فلم پال ہیگس نے 2004ءمیں بنائی تھی‘ یہ چھوٹے بجٹ کی فلم تھی‘ اس پر صرف چھ ملین ڈالرز خرچ ہوئے تھے لیکن اس نے باکس آفس پر دھوم مچا دی‘ چھ اکیڈمی ایوارڈز کے لیے منتخب ہوئی اور تین ایوارڈز حاصل کر لیے اور 98 ملین ڈالرز منافع کمایا‘ یہ فلم اتنی مقبول کیوں ہوئی؟ اس کی وجہ اس کا موضوع تھا‘ فلم میں مختلف کرداروں کی چوبیس گھنٹوں کی سرگرمیاں دکھائی گئی تھیں اور یہ بتایا گیا تھا دنیا میں کوئی شخص فل ٹائم فرشتہ یا شیطان نہیں ہوتا‘ ہم لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں‘ ہم ایک چوک میں فرشتے ہوتے ہیں اور اگلے موڑ پر شیطان‘ انسان دنیا میں بلیک یا وائیٹ نہیں ہوتے‘یہ گرے ہوتے ہیں‘ ہم رحمان اور حیوان کے درمیان ہوتے ہیں‘ ہم کبھی جانور بن جاتے ہیں اور کبھی دیوتا۔
یہ ایک خوب صورت بلکہ حقیقت پر مبنی تصور ہے‘میں اکثر لوگوں سے درخواست کرتا ہوں آپ لوگوں کو فرشتہ یا شیطان نہ سمجھا کریں‘ آپ انہیں صرف انسان کے روپ میں دیکھا کریں‘ یہ کبھی بہت اچھے ہو جاتے ہیں اور کبھی بہت برے‘ مجھے لاہور کی کیمپ جیل میں ایک امام سے ملاقات کا موقع ملا تھا‘ وہ انتہائی شریف النفس‘ حلیم اور عبادت گزار تھا‘ وہ جیل میں پانچ وقت نماز پڑھاتا تھا اور قیدی اور جیل کا پورا عملہ اس کے پیچھے نماز پڑھتا تھا‘ بہت خوب صورت تلاوت کرتا تھا‘ سارے قیدیوں کے دکھوں کا مداوا بھی کرتا تھا‘ سپرنٹنڈنٹ بھی اس سے دعا کراتا تھا اور اس کے ہاتھ چومتا تھا‘ چہرہ نورانی تھا اور بدن سے ہر وقت نیکی کی خوشبو آتی رہتی تھی‘ میں بھی اس سے متاثر ہو گیا لیکن بعد ازاں پتا چلا وہ تین لوگوں کے قتل میں محبوس تھا اور یہ تینوں قتل اس نے کیے بھی تھے‘ وہ جیل سے باہر ایک ظالم اور غصیلا شخص تھا‘ لوگ اس سے پناہ مانگتے تھے لیکن جیل کے اندر پہنچ کر اس کی کایا پلٹ گئی‘ آپ اب خود فیصلہ کر لیجیے آپ اس شخص کو قاتل سمجھیں گے یا امام؟ میں اسی طرح ایک امام کو بھی جانتا تھا‘ وہ مسجد کے حجرے میں اخلاقی جرم میں پکڑا گیا تھا اور محلے کے لوگوں نے اس کا منہ کالا کر کے‘ اس کے گلے میں ہار ڈال کر اور اسے جوتے مار کر محلے سے نکالا تھا اور یہ وہ شخص تھا جس کے پیچھے سارا محلہ نماز پڑھتا تھا۔
ہم اسے کیا کہیں گے چناں چہ ہم انسانوں کو دوسرے انسانوں کو صرف انسان سمجھنا چاہیے اور ان کے انفرادی افعال کو سامنے رکھ کر عارضی رائے بنانی چاہیے‘ یہ اگر آپ کے ساتھ صرف ایک بار الجھتے ہیں تو آپ اسے ایک بار کی الجھن سمجھیں‘ اسے عمر بھر کا ایشو نہ بنائیں‘ انسان مشین نہیں ہیں‘ یہ ”آل دی ٹائم “ خراب‘ بے ایمان یا نالائق نہیں ہوتے‘ یہ زندگی بھر کے لیے ایمان دار‘ مہذب‘ حلیم اور عقل مند بھی نہیں ہوتے‘ یہ حالات کے ساتھ ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور یہ فیصلے ٹھیک اور غلط دونوں ہو سکتے ہیں۔
اور یہ بھی عین ممکن ہے پوری زندگی غلط فیصلے کرنے والا شخص کوئی شان دار فیصلہ کر دے اور شان دار فیصلے کرنے والا شخص زندگی کے کسی موڑ پر کوئی کھچ یا چول مار کر پوری دنیا کو حیران کر دے‘ آپ بھی اگر کسی دن چھاﺅں میں بیٹھ کر اپنی غلطیاں گننا شروع کر دیں گے تو آپ کے سر میں بھی پسینہ آ جائے گا کیوں کہ ما شاءاللہ آپ کی زندگی بھی دوسروں کی طرح حماقتوں کا شاہکار ہو گی۔میں نے یہ ساری تمہید عمران خان کے لیے باندھی تھی۔
میں وزیراعظم کے بے شمار کارناموں کا ناقد ہوں‘ میں کھل کر ان پر تنقید بھی کرتا رہتا ہوں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں عمران خان کے سارے فیصلے غلط ہوتے ہیں اور یہ اگر اڑنا شروع کر دیں گے تو بھی ہمیں ان کی اڑان میں ٹیڑھا پن دکھائی دے گا‘ وزیراعظم نے ماضی میں بے شمار غلط فیصلے کیے اور یہ ان شاءاللہ مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے لیکن جہاں تک بھنگ کی کاشت کا تعلق ہے میں ان کے اس فیصلے کو صحیح سمجھتا ہوں‘ میں جانتا ہوں میں ایک اور غیر مقبول کالم لکھ رہا ہوں۔
میری اس کالم پر بھی ٹھکائی ہو گی‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم غیر معقول اور جذباتی تحریروں اور نعروں کے عادی ہو چکے ہیں‘ ہمیں عقل کی بات بری اور ایجنڈا محسوس ہوتی ہے لیکن کسی نہ کسی نے تو استروں کا یہ ہار اپنے گلے میں ڈالنا تھا چناں چہ میں نے اپنی جان پر کھیلنا شروع کر دیا اور ظاہر ہے اس کی ایک قیمت ہے اور مجھے اب یہ چکانا پڑے گی اور میں اس کے لیے تیار ہوں چناں چہ آپ کو مستقبل میں ایسے بے شمار غیر مقبول اور غیر جذباتی کالم پڑھنے کو ملیں گے
اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک میں ریٹائرمنٹ نہیں لے لیتا اور کسی بحری جہاز میں سوار ہوکر دنیا کو ایک سائیڈ سے دیکھنا شروع نہیں کر دیتا تاکہ عمر کی باقی نقدی چل چل اور گھس گھس کر تمام ہو جائے اور بلبلہ پھٹ کر پانی میں جذب ہو جائے لیکن اس سے پہلے میں سمجھتا ہوں عمران خان نے بھنگ کی کاشت کا ایک اور اچھا بڑا اینی شیٹو لیا ہے۔یورپ میں بھنگ کے خشک پتوں کے سفوف کو میری جوانا کہا جاتا ہے‘ لوگ صدیوں سے اسے سگریٹ اور حقے میں ڈال کر پی رہے ہیں ۔
ہمارے علاقے میں اسے گھوٹ کر اس میں بادام ڈال کر بھی پیا جاتا ہے‘ یہ درست ہے بھنگ ایک نشہ ہے لیکن یہ نشے کے ساتھ ساتھ ایک معجزاتی پودا بھی ہے اور یہ اگر اعتدال سے استعمال کی جائے تو یہ انسان کی عمر‘ جوانی اور خوب صورتی میں بھی اضافہ کردیتی ہے اور یہ اس کی برداشت اور کام کی صلاحیت بھی بڑھا دیتی ہے ‘یہ انسان کو روز مرہ کی بیماریوں سے بھی بچاتی ہے‘ اس میں کینسر کا علاج بھی موجود ہے لہٰذا بھنگ میں ہزار خوبیاں ہیں بس ایک خرابی ہے اور یہ خرابی ہے نشہ۔
یہ پینے والوں کو مدہوش (ٹن) کر دیتی ہے‘ امریکا اور کینیڈا کے نباتاتی ماہرین ٹن عناصر سے پریشان تھے چناں چہ انہوں نے پچاس سال قبل بھنگ پر ریسرچ شروع کی‘ پتا چلا بھنگ میں دو قسم کے اجزاءہوتے ہیں‘ پہلا جزو سی بی ڈی (کینابڈائل) ہے‘ یہ پینے والوں کو پرسکون بھی کرتا ہے اور بیماریوں کے خلاف ان کی قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا جزو ٹی ایچ سی (ٹیٹراہائیڈروکینابنائل) ہے اور یہ انسان کو مدہوش کر دیتا ہے۔
ماہرین نے ان اجزاءکی دریافت کے بعد بھنگ کا ایک ایسا پودا بنانا شروع کر دیا جس میں ٹی ایچ سی کا لیول کم اور سی بی ڈی زیادہ ہو‘ یہ چاہتے تھے نیا پودا بھنگ پینے والوں کی قوت مدافعت اور سکون میں بھی اضافہ کرے اور یہ لوگ نشے کے عادی بھی نہ ہوں‘ماہرین ریسرچ کرتے کرتے ٹی ایچ سی کی سطح کو تین فی صد اور سی بی ڈی کو 97 فی صد تک لے آئے ہیں اور یہ بہت بڑا کمال ہے‘ امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس کمال کے بعدنئی فصل کا معائنہ کیا۔
لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کیا اور اسے انسانی صحت کےلئے مفید قرار دے دیاجس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر2018ءمیں جدید بھنگ( میری جوانا) کو امریکا میں لیگل قرار دے دیا‘ بھنگ ہیمپ بھی کہلاتی ہے لہٰذا حکومت کی اجازت کے بعد امریکا میں ہیمپ ایک نئی انڈسٹری بن گئی‘ ہیمپ کا منرل واٹر بھی آ گیا اور اس کی گولیاں ‘ چیونگم ‘ مرہم ‘ ان ہیلر ‘ شیمپو ‘ تیل اور کریمیں بھی آگئیں‘ مارکیٹ میں اب ہیمپ کے سگریٹ بھی دستیاب ہیں اور لوگ یہ تمام اشیاءکھلے عام استعمال کر رہے ہیں۔
ریسرچ کے مطابق یہ بلڈ پریشر‘ کولیسٹرول اور شوگر میں بھی معاون ہے اور یہ ڈپریشن کی ادویات کی جگہ بھی لے رہی ہے‘ یہ بڑی تیزی سے فارما سوٹیکل انڈسٹری کی ہیئت بھی تبدیل کر رہی ہے‘ ماہرین کا خیال ہے ہیمپ چند برسوں میں کھانے اور پینے کی ہر چیز میں شامل ہو جائے گی‘ اس کی گیس بھی فضا میں چھوڑی جائے گی اور یہ تمام سگریٹوں میں بھی استعمال ہو گی۔پاکستان میں یہ آئیڈیا ہیوسٹن میں مقیم امریکی پاکستانی بزنس مین طاہر جاوید لے کر آئے۔
یہ ہیلری کلنٹن کے ساتھی ہیں‘ یہ عمران خان کے دوست بھی ہیں‘امریکا میں ان کی ایک کمپنی ہیمپ کے سگریٹ بناتی ہے‘ یہ آئیڈیا طاہر جاوید نے 2018ءمیں عمران خان کو دیا تھا اور وزیراعظم کے اشارے پر وفاقی وزیر شہریار آفریدی نے بیان دے دیا تھا حکومت بھنگ‘ چرس اور افیون کی فیکٹریاں لگائے گی ‘وفاقی کابینہ نے بہرحال یکم ستمبر2020ءکو پشاور‘ جہلم‘ اور چکوال میں بھنگ کی کاشت کی اجازت دے دی‘ یہ بھنگ صنعتی مقاصد اور ادویات کے لیے کاشت ہو گی اور ایکسپورٹ کی جائے گی۔
یہ ایک اچھا فیصلہ ہے‘ ہم نے اگر اس پر بھی جم کر کام کر لیا تو مجھے یقین ہے یہ ایک قدم پاکستان کے سارے قرضے اتاردے گا‘ آپ اگر میری تجویز کو طنز نہ سمجھیں تو حکومت کو اب افیون‘ چرس اور ہیروئین کی انڈسٹری بھی اپنے کنٹرول میں لے لینی چاہیے‘ دنیا میں ان کی بھی بے انتہا لیگل ٹریڈ ہوتی ہے‘ یہ منشیات بھی ادویات میں استعمال ہوتی ہیں‘ آپ ایک ہی ہلے میں یہ فیصلہ بھی کر دیں‘ یہ بھی ملک کے لیے مفید ثابت ہو گا‘ میں دل سے سمجھتا ہوں ملک میں اس نوعیت کے بولڈ فیصلے صرف عمران خان کر سکتے ہیں‘ باقی کسی میں اتنی ہمت اور جرات نہیں ہو سکتی چناں چہ ملک کو عمران خان سے زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھا لینے چاہییں‘ ہمیں یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔