میری زندگی بہت مزے سے گزر رہی تھی‘ میں اس چھوٹے سے جوہڑ میں شہرت کو انجوائے کر رہا تھا‘ صبح اٹھ کر ہواؤں کا رخ دیکھتا تھا اور عوام کی خواہش کے مطابق کالم لکھ دیتا تھا‘ میرے اعزاز میں سلطان راہی کی طرح ہر طرف سے تالیاں بجتی تھیں اور میں ان آوازوں میں خوش تھا لیکن پھر بدقسمتی سے میری ملاقات آرٹ بک والڈ سے ہو گئی‘ آرٹ بک والڈ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم نگار تھا‘ اس نے سینئر کی حیثیت سے مجھے ایک مشورہ دیا اور میری بدقسمتی میں نے اس کا مشورہ مان لیا۔
اس کا کہنا تھا”تم صرف پاپولر ہو‘ رائٹر نہیں ہو کیوں کہ تم سچ نہیں لکھ رہے سمارٹ لکھ رہے ہو‘ تم واہ واہ کے لیے کالم لکھتے ہو چناں چہ پورے ملک میں تمہارا کوئی مخالف‘ کوئی اعتراض کرنے والا نہیں‘ تمہیں مداری یا جوکر تو کہا جا سکتا ہے لیکن لکھاری نہیں“ اس کا کہنا تھا”تم لکھنے میں منافقت کر رہے ہو‘ تم سچ نہیں لکھ رہے‘ دنیا میں وہ شخص اصل لکھاری ہوتا ہے جو ہواؤں کی پرواہ نہ کرے‘ پورا ملک خواہ اس کے خلاف کھڑا ہو جائے مگر اس کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئے اور پھر وقت ثابت کرے وہ صحیح تھا اور اس کے تمام مخالفین غلط“ آرٹ بک والڈ کا کہنا تھا ”تم اس دن اصل رائٹر بنو گئے جس دن تمہاری بھرپور مذمت ہو گی لیکن تم اس کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہو گے“ میں اسے گرو سمجھتا تھا چناں چہ میں نے اس کے مشورے کو مشعل راہ بنا لیا اور پھر یہاں سے میری ”بربادی“ شروع ہو گئی اور آج میں روز تھوک کے حساب سے گالیاں کھاتا ہوں لیکن اس کے باوجود بدمزہ نہیں ہوتا‘ کیوں؟ کیوں کہ میں حقائق پر کمپرومائز نہیں کرتا اور حقائق پر کمپرومائز نہ کرنے والے لوگ انبیاء کے راستوں کے مسافر ہوتے ہیں اور ان راستوں پر کانٹوں اور پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا‘ سچ بولنے والوں کو ایک ہی بار انعام ملتا ہے اور وہ انعام راستے کے آخر میں ہوتا ہے‘ میں اگر سچا ہوں تو اس کا فیصلہ وقت کرے گااور اگر غلط ہوں تو یہ فیصلہ بھی وقت عن قریب کر دے گا لہٰذا آپ بھی میرے معاملے میں وقت کو وقت دے دیں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے مجھے اب ”اسرائیلی جاسوس“ قرار دینے کا وقت آ چکا ہے کیوں کہ میں اب وہ سوال اٹھارہا ہوں جن پر ہمارے سماج میں پابندیاں ہیں‘ ہمارے ملک میں مکالمے کو فوت ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں اور اس کی گدی پر ٹھیکے دار اور مافیاز قبضہ کر چکے ہیں چناں چہ آپ اس ملک میں سچ بول سکتے ہیں اور نہ حقائق بیان کر سکتے ہیں‘ آپ یہاں چرچل کے 1945ء کے اس فارمولے پر بھی بات نہیں کر سکتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا تھا۔
آپ 1965ء کے اس صدارتی الیکشن کے بارے میں بھی بات نہیں کر سکتے جس میں جنرل ایوب خان جمہوریت پسند اور فاطمہ جناح غدار جمہوریت تھیں‘ آپ جنرل ضیاء الحق کے امریکی سپانسرڈ جہاد پر بھی بات نہیں کر سکتے‘ آپ جنرل پرویز مشرف کی ”افغان فروشی“ کی داستانیں بھی بیان نہیں کر سکتے اور آپ ارطغرل کو فکشن بھی نہیں کہہ سکتے‘ آپ یہاں اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی نہیں کر سکتے‘ آپ جج ارشد ملک کے رازوں سے بھی پردہ نہیں اٹھا سکتے اور آپ ایران اور سعودی عرب کی ملک میں مداخلت پر بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے‘ یہ ملک اصل میں مکالمے کا قبرستان ہے۔
آپ یہاں دلیل سے بات کر کے دکھا دیجیے آپ کسی نہ کسی مجاہد کا نشانہ بن جائیں گے اور ریاست آپ کے قتل کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرے گی یا پھر آپ دنیا بھر میں چھپتے پھریں گے چناں چہ یہاں لوگ ڈرتے زیادہ اور سوچتے کم ہیں لیکن کیا سب کو یہ کرنا چاہیے‘ اگر ہاں تو آخر کب تک؟ میں جب بھی یہ سوچتا ہوں تومجھے اپنی سمارٹ زندگی سے گھن آنے لگتی ہے اور یوں بوٹا سوال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ میں آج بھی چند سوال اٹھانے کی جسارت کروں گالیکن سوالوں کی طرف جانے سے پہلے میں آپ کو یہ بتاتا چلوں یہ سوال مجھے قرآن مجید‘ تاریخ اور تاریخ کی شاہراؤں کی سیاحت نے دیے ہیں
اور میں انہیں امانت سمجھ کر قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں چناں چہ ملک کے تمام علماء کرام جواب دیں قبلہ اول خانہ کعبہ ہے یا پھرمسجد اقصیٰ؟ کیوں؟ کیوں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے خانہ کعبہ پہلے تعمیر فرمایاتھا اور آپ ؑ نے مقام ابراہیم ؑپر کھڑے ہو کر نماز اور دعا فرمائی تھی جب کہ آپ ؑ نے مسجد اقصیٰ خانہ کعبہ کی تعمیر سے چالیس برس بعد یروشلم میں تعمیر کی تھی‘کیا بیت المقدس مسلمانوں سے پہلے یہودیوں اور عیسائیوں کا قبلہ نہیں تھا؟ کیا حضرت یعقوب ؑ اپنے 12بیٹوں اور قبیلے کے ساتھ بیت المقدس کے مضافات میں نہیں رہتے تھے؟
کیا اسرائیل حضرت یعقوب ؑ کا عبرانی نام نہیں تھا؟ کیا یہودی حضرت موسیٰ ؑ کی معیت میں 32 سو سال پہلے واپس بیت المقدس نہیں آئے تھے‘ کیا اللہ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کو اس ارض مقدس کا بادشاہ نہیں بنایا تھا؟ کیا یہودی چار ہزار سال سے اس طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھتے‘ کیا حضرت عیسیٰ ؑ کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا اور کیا مسیحی ہم سے پہلے بیت المقدس میں مقیم نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمانوں نے صرف 16 یا 17 ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا نہیں کی تھی
اور کیا پھر ہم نے دو ہجری میں حضرت ابراہیم ؑ کے تعمیر کردہ قبلہ اول (خانہ کعبہ) کی طرف رخ نہیں موڑ لیا تھا اور ہم اگر آج بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کریں تو کیا ہماری نماز ہو جائے گی؟ کیا بیت المقدس بازنطینی ریاست کا حصہ نہیں تھا اور کیاعیسائیوں نے یہ معاہدے کے ذریعے حضرت عمر فاروقؓ کے حوالے نہیں کیا تھا اور کیا یہودیوں نے اسلامی لشکر کا شکریہ ادا نہیں کیا تھا اور کیا حضرت عمر فاروقؓ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی اجازت نہیں دی تھی اور کیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ عبادت اور زیارت کا معاہدہ نہیں کیا تھا
اور کیا خلافت عثمانیہ کے چار سو سال میں عرب مسلم خاندانوں کو لا کر یہاں آباد نہیں کیا گیا تھا اور کیا اس سے آبادی کا تناسب نہیں بدل گیا تھا اور کیا یہ تکنیک اب یہودی نہیں اپنا رہے اور کیا پہلی جنگ عظیم کے بعد شریف مکہ اور آل سعود نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عرب علاقوں کو آپس میں تقسیم نہیں کر لیا تھا اور کیا یہ بیت المقدس کو نیا ملک بنانے پر رضامند نہیں ہوگئے تھے اور کیا یہ اسرائیل اور مسلم دنیا کی بجائے اسرائیل اور شام‘ اردن اور مصر کے علاقوں کا ایشو نہیں؟
اور کیا1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مصر کی غزہ کی پٹی اور صحرائے سینا‘اردن کے مغربی کنارے اور شام کے گولان کے پہاڑی علاقوں پر قبضہ نہیں کر لیا تھا اور کیا یہ تنازع یہاں سے شروع نہیں ہوا تھا؟ اور کیااسرائیل نے 1978ء میں جنوبی لبنان پر بھی قبضہ نہیں کر لیا تھا(2000ء میں اسرائیل نے جنوبی لبنان کے علاقے واپس کر کے اپنا قبضہ ختم کر دیا) اور اسرائیل اگر مصر‘ اردن‘ شام اور لبنان کے علاقوں پر قبضہ نہ کرتا تو کیا عالم اسلام اسرائیل کے قیام پر خاموش نہ رہتا‘ کیا ہم اسے قبول نہ کر لیتے؟
میں تسلیم کرتا ہوں فلسطین وقفوں وقفوں سے مسلمانوں کے پاس رہا لیکن مسلمانوں کے پاس تو اندلس‘سسلی‘ بلغاریہ سے لے کر ویانا تک مشرقی یورپ‘ روس کے دس فیصد علاقے اور چین کا صوبہ سنکیانگ بھی رہا تھا‘ ہم غرناطہ سے لے کر تاشقند تک کے مالک تھے لیکن آج ہم ان کی واپسی کے لیے کیوں نہیں لڑ رہے؟ ہم نے قابض چین‘ قابض روس‘ قابض مشرقی یورپ اور قابض اسپین کو کیوں قبول کر لیا؟ اور آخری سوال کیا ایشو عالم اسلام اور اسرائیل ہے یا پھر اردن‘ شام‘ مصر اور لبنان کے مقبوضہ علاقے ہیں یا پھر اسرائیلی طیاروں کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی ہیں؟
آخر یہ ایشو ہے کیا؟ ہم کس لیے لڑ رہے ہیں؟ایشو اگر مقبوضہ علاقے ہیں تو پھر جن کے علاقوں پر قبضہ ہوا وہ اسرائیل کو کیوں تسلیم کیے بیٹھے ہیں اور ایشو اگر اسرائیل یا مظلوم فلسطینی ہیں تو پھر او آئی سی نے آج تک ان مظلوموں کے لیے کیا کیا؟ اور اگر ایشو عالم اسلام ہے تو پھر عالم اسلام کو آج تک کشمیری نظر کیوں نہیں آئے؟ کیا یہ مظلوم نہیں ہیں یا پھر ان کا اسلام نامکمل ہے؟۔میں پھر یہی کہوں گا یہ سفارتی اور سیاسی ایشو ہے اور ہم اسے مذہبی بنا کر غلطی کر رہے ہیں۔
ہم اسرائیل کو مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ فیصلہ سفارتی ہونا چاہیے مذہبی نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے اگر اسے مذہبی ایشو مان لیا تو بیت المقدس پر پہلا حق یہودیوں اور دوسرا حق عیسائیوں کا ہو جائے گا‘ ہم کسی جگہ سٹینڈ نہیں کریں گے‘ دوسرا جب سفارتی اور سیاسی ایشوز مذہب سے جڑ جاتے ہیں تو پھر واپسی کا راستہ نہیں بچتا لہٰذا ہمیں اس ایشو پر سارے راستے بند نہیں کرنے چاہییں‘ ہمیں ایک اور بند گلی پیدانہیں کرنی چاہیے‘اگر عرب ملک اسرائیل سے مذاکرات کر رہے ہیں تو ہمیں بھی کرنے چاہییں
اور اگر عرب ملک اسرائیل سے بات چیت کرتے ہوئے ہم سے نہیں پوچھ رہے تو ہمیں بھی انہیں اعتماد میں نہیں لینا چاہیے لیکن ہم جو بھی فیصلہ کریں اپنے حالات اور اپنے ملکی مفادات کے مطابق کریں‘ ہم محبت یا نفرت میں دوسروں کی تقلید نہ کریں کیوں کہ دوسرے ہمارے جذبات اور عزت نفس دونوں کا خیال نہیں رکھ رہے‘ آزاد قوم بنیں‘ غلام نہ بنیں۔