پہلی کہانی کہروڑ پکا ضلع لودھراں کے ایک گاؤں رانا واہن کے فہیم عباس کی ہے‘ فہیم کا والد دریائے ستلج میں کشتی چلا کر رزق کماتاتھا‘ بڑابھائی غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکا اور والد کے ساتھ کشتی چلانے لگالیکن فہیم نے ان حالات کے باوجود تعلیم جاری رکھی اور میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کر لیا‘سکول کے ایک شفیق استاد عبدالشکور نے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی بہاولپور کے پرنسپل سے فہیم عباس کو داخلہ‘ رہائش اور بلا معاوضہ کھانا فراہم کرنے کی درخواست کی۔
پرنسپل نے نہ صرف ذاتی جیب سے فیس ادا کرکے داخلہ دے دیا بلکہ تین سال تک اس کو ہاسٹل کا کرایہ اور کھانے پینے کی رقم بھی دیتے رہے‘ فہیم عباس نے ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کاڈپلومہ ٹاپ پوزیشن کے ساتھ پاس کر لیا‘ وہ اب مزید تعلیم کی بجائے ملازمت کرنا چاہتا تھا تاکہ اپنے خاندان کا سہارا بن سکے مگر پرنسپل اکرم بھٹی نے اسے گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ لاہور سے بی ایس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ڈگری حاصل کرنے کی ہدایت کی اور پہلے سال کی فیس اور ہاسٹل کا کرایہ دے کر لاہور بھجوادیا‘فہیم عباس دوجوڑے سوٹ لے کر لاہور آگیا یہاں آکر اس نے تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے قذافی اسٹیڈیم کے باہر ہوٹلوں میں رات کو برتن دھوئے اور طرح طرح کی مزدوریاں کیں‘ایک دن اسے کاروان علم فاؤنڈیشن کا علم ہوا‘ وہ درخواست لے کر فاؤنڈیشن کے دفتر پہنچ گیا‘اس کی ضروریات کے لیے اسکالرشپ جاری کر دی گئی اور اب ملاح کا بیٹابی ایس آنرز (انفارمیشن ٹیکنالوجی)کے چھٹے سمیسٹر میں زیر تعلیم ہے۔دوسری کہانی احمد پور سیال جھنگ کے ناصر عباس کی ہے‘یہ ان دنوں بارانی یونیورسٹی راولپنڈی میں ڈاکٹر آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کے چوتھے سال میں زیر تعلیم ہے‘ اس نوجوان کو بھی غربت اور نا مساعد حالات کے خلاف مسلسل جنگ لڑنا پڑی‘ والدکی گاؤں میں مٹھائی کی دکان تھی‘ اس سے گھر کا چولہا جلتا تھا‘ باپ نے ناصر عباس اور باقی بہن بھائیوں کے دل میں بچپن سے ہی اعلیٰ تعلیم کی جوت جگا دی تھی۔
ایک دن اس کے والد کا ایکسیڈنٹ ہو گیااوراس کا بازو ٹوٹ گیا‘بازو کا علاج کسی اچھے ہسپتال سے کروانے کی بجائے ایک ”ہڈی جوڑنے کے ماہر“کے پاس لے گئے‘ بازو ٹھیک ہونے کی بجائے ناکارہ ہو گیا‘ کئی ماہ بے کار رہنے کے بعد اس نے گاؤں میں چائے کا کھوکھابنا لیا‘ ناصر عباس کی والدہ ان پڑھ تھی‘غربت کے دنوں میں اپنی اولاد اور شوہر کی مدد نہ کرسکنے کے غم نے شوگر اور دل کی بیماری میں مبتلا کر دیا‘ ناصر عباس نے مشکل حالات کے باوجود تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
برف بیچی‘ ٹیوشن پڑھائی اور مزدوریاں کیں‘ ایف ایس سی مکمل کی‘ میرٹ پر ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا‘یونیورسٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نے عارضی ملازمتیں شروع کیں لیکن اس سے تعلیم کا حرج ہونے لگا‘ ان مشکل حالات میں ایک ایسا لمحہ بھی آیا جب اس نے تعلیم چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ عین ان دنوں اسے کاروان علم فاؤنڈیشن کے بارے میں معلوم ہوا‘ اس نے درخواست ارسال کی اور اب کاروان علم فاؤنڈیشن کے تعاون سے اپنی تعلیم مکمل کر رہا ہے۔
تیسری کہانی شجاع آباد کی صباحت فاطمہ کی ہے‘چار بہنوں اور چھ بھائیوں میں اس کا پانچواں نمبر ہے‘ والد کی کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان تھی‘ اتنے بڑے کنبے کے اخراجات پورے کرنے کے دباؤ نے انہیں نفسیاتی مریض بنادیا پھر فالج کا حملہ ہوا‘یہ جان لیواثابت ہوا‘ یہ پر عزم لڑکی دس سال کی تھی جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا‘ بڑے بھائی نے 19سال کی عمرمیں تعلیم چھوڑ کر ملازمت کرلی لیکن معاشی حالات نے اسے بھی نفسیاتی مریض بنا دیا‘وہ بھی انتقال کر گیا۔
شوہر اور بیٹے کی موت کے بعد بیوہ والدہ نے لوگوں کے گھروں میں کام شروع کر دیا‘ کپڑے سلائی کرکے بھی روز گار کمانے لگی‘بے بسی اور بے کسی کے ان دنوں میں اس عظیم ماں نے اپنی اولاد کو صرف ایک نصیحت کی اگر غربت کے شکنجے سے نکلنا ہے تو تمہیں تعلیم حاصل کرنا ہو گی‘یہ محنت راس آئی اور صباحت کی تعلیمی کارکردگی کی بناء پر شجاع آباد کے نجی سکول نے اسے میٹرک تک مفت تعلیم دی‘ میٹرک میں اس نے95فی صد نمبر حاصل کیے پھر اس نے ایک نجی کالج میں داخلہ لے لیا‘وہاں بھی اساتذہ نے اس کی فیس معاف کردی۔ صباحت نے ایف ایس سی کا امتحان 93فی صد نمبروں سے پاس کیا اور اس کا داخلہ قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں ہو گیا۔
اتنی بڑی کام یابی کے باوجود اس یتیم طالبہ کے پاس میڈیکل کالج میں پہلے سال کے لیے پیسے نہ تھے‘ بیوہ ماں نے عزیزو اقارب سے قرض لے کر اس کا داخلہ کر وا دیا‘ قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں تعلیم جاری رکھنے کے لیے روزانہ کی بناء پر اخراجات کی لیے رقم کی ضرورت رہتی تھی‘ صباحت کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوا تو اس نے اپنی پریشانی کا ذکر کالج کے پرنسپل ڈاکٹرجاوید اقبال سے کیا‘ انہوں نے کاروان علم فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا اور طالبہ کے حالات سے آگاہ کیا‘صباحت اب کاروان علم فاؤنڈیشن کے تعاون سے تمام تعلیمی ضروریات کے لیے مالی مدد حاصل کر رہی ہے۔
فہیم عباس‘ناصر عباس اور صباحت جیسے ہزاروں طلبہ کاروان علم فاؤنڈیشن کے تعاون سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے اپنے خاندان کا سہارا بن چکے ہیں‘کارروان علم فاؤنڈیشن 17سال سے پاکستان کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والے مستحق مگر باصلاحیت طلباء کو بلا تقسیم رنگ و نسل اور مذہب اسکالر شپ دے رہی ہے‘یہ ادارہ اب تک6820طالب علموں کو18 کروڑروپے کے وظائف دے چکا ہے‘ان میں 1189یتیم طلباء اور 451خصوصی طلبہ(نابینا‘پولیوزدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں۔
مالی اعانت حاصل کرنے والوں میں ایم بی بی ایس (ڈاکٹر)کے1568‘بی ڈی ایس (ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری)کے64‘فزیوتھراپی(ڈاکٹر آف فزیوتھراپسٹ) کے65‘ڈی وی ایم (ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز)کے136‘ ڈی فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی)کے121‘بی ایس آنرز (ہیلتھ سائنسز) کے 45‘ایم ایس سی کے176‘ایم اے کے147‘ایم کام کے41‘ ایم بی اے کے66‘ایم فل کے26‘ بی ایس سی انجینئرنگ کے1638‘بی کام آنرز کے164‘ بی ایس آنرز کے1038‘ بی سی ایس کے 75‘بی بی اے کے 77‘اے سی سی اے کے 24‘سی اے کے 04‘بی ایس ایڈ‘بی ایڈ کے 67‘ ایل ایل بی کے22‘بی اے آنرز کے64‘ بی اے کے87‘ بی ٹیک کے 24‘ ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے167‘ ایف ایس سی کے713‘ایف اے کے114‘ئی کام کے57‘ڈی کام کے5 اورآئی سی ایس کے25طلباء و طالبات شامل ہیں۔
کاروان علم فاؤنڈیشن کے دروازے ضرورت مند طلباء کے لیے سارا سال کھلے رہتے ہیں‘فاؤنڈیشن سے میٹر ک اور انٹر پاس کرنے والے غریب گھرانوں کے طلباء اس امید اور اس آس پر رابطہ کرتے ہیں کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے اس ادارے سے اسکالرشپ مل جائے گی‘کاروان علم فاؤنڈیشن یہ امید ا ور آس کا چراغ مخیر پاکستانیوں کے تعاون سے روشن رکھے ہوئے ہے‘مستحق طلبہ کواسکالرشپ فراہم کرنے کا انتظام اتناشان دار ہے کہ ہر طالب علم کو اس کی ضرورت کے مطابق مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اسکالرشپ ہولڈر ز طلباء کی بیوہ ماؤں اور ضعیف والدین کوبھی روزمرہ کے اخراجات اور علاج معالجے کے لیے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے تاکہ پاکستان کے ذہین نوجوان مکمل اطمینان کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں‘کرونا کے موجودہ حالات میں کاروان علم فاؤنڈیشن جہاں اسکالرشپ ہولڈرز طلبہ کو تعلیمی اخراجات فراہم کررہی ہے وہاں اس ادارے نے طلباء کے خاندانوں کو بھی مالی مدد دینے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔
میں ہر سال پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اس ادارے کے ساتھ تعاون کی درخواست کرتاہوں کیوں کہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ہم پاکستان کو خوش حال‘پرامن اور مستحکم بنا سکتے ہیں‘ اس وقت360 طالب علم کاروان علم فاؤنڈیشن کے زیر کفالت ہیں جب کہ725مزید طلبہ کی درخواستیں زیر غور ہیں‘انہیں مالی سال2020-21ء کے دوران اسکالرشپ جاری کرنے کے لیے تقریباً 8 کروڑ روپے درکار ہیں‘آپ کو اللہ نے بہت دیا ہے۔
لہٰذامیں آپ سے فاؤنڈیشن کی مدد کی درخواست کرتا ہوں۔کاروان علم فاؤنڈیشن کوزکوٰۃ و عطیات ملک کے کسی بھی حصے سے میزان بنک کے اکاؤنٹ نمبر0240-0100882859 میں جمع کروا ئے جاسکتے ہیں‘چیک604 بلاک سی‘ فیصل ٹاؤن لاہورکے پتے پر ارسال کیے جاسکتے ہیں جب کہ مزید تفصیلات کے لیے موبائل نمبر 0321-8461122, 0300-1103030پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔مزید معلومات کے لیے ویب سائٹ
www.kif.com.pk ملاحظہ کیجئے۔