مجھے واپسی پر جہاز میں فیصل آباد کے ایک صاحب مل گئے‘ یہ ملک کے مشہور صنعت کار تھے‘ نیم خواندہ تھے لیکن کاروبار کی وجہ سے انگریزی بولنا سیکھ گئے تھے تاہم ان کی حرکات و سکنات‘ طرز گفتگو اور لوگوں سے مخاطب ہونے کے سٹائل میں ”پینڈو پن“ کی جھلک تھی۔ میرا تجربہ ہے انسان اپنی بیک گراؤنڈ اپنی شکل‘ اپنے لباس اور اپنے کریڈٹ کارڈ کے پیچھے چھپا سکتا ہے لیکن اس کی زبان اس کے تمام بھید کھول دیتی ہے‘ انسان کے منہ سے نکلے ہوئے دو لفظ اس کی سات نسلوں کی تاریخ بیان کر دیتے ہیں۔
یہ صاحب بھی جہاز میں اپنے لفظوں سے اپنی خاندانی تاریخ کا اشتہار لگا رہے تھے‘ میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا‘ میں شروع شروع میں بے انتہا بیزار ہوا لیکن پھر سوچا سات گھنٹے کا سفر اذیت میں گزارنے کی کیا ضرورت ہے‘ ان کے ساتھ فری ہو کر دیکھتا ہوں‘ ہو سکتا ہے یہ میری توقع کے برعکس نکلیں چناں چہ میں ان کے ساتھ فری ہو گیا۔ میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ آج سے سات آٹھ سال پرانی بات ہے اور میں فرینکفرٹ سے پاکستان آ رہا تھا‘ حاجی صاحب نے مجھے اپنے کاروبار کی نوعیت بتانا شروع کر دی‘ انہوں نے کاروبار کیسے سٹارٹ کیا‘ یہ کاروبار کو آگے لے کر کیسے بڑھے‘ آج کل ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کیا کیا چیلنجز در پیش ہیں‘ گورے پاکستانی صنعت کاروں سے کیا چاہتے ہیں‘ چین اور انڈیا کس تیزی سے اس فیلڈ میں آگے آ رہے ہیں اور حکومت کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے کیا کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ‘ وہ تکنیکی‘ صنعتی اور معاشی گفتگو کرتے چلے گئے اور میں بور ہوتا رہا‘ اس گفتگو کے دوران اچانک حاجی صاحب نے ایک دل چسپ فقرہ پھینکا‘ انہوں نے کہا ”میں اگر خود کشی نہ کرتا تو میں آج اتنا کام یاب نہ ہوتا“ میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا کیوں کہ یہ میری زندگی کے پہلے کام یاب شخص تھے جو اپنی کام یابی کا کریڈٹ خودکشی کو دے رہے تھے‘ میں حاجی صاحب کی کہانی کی طرف جانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا میں نبیوں‘ ولیوں اور ظالموں کے سوا ہر شخص خودکشی کی پلاننگ کرتا ہے۔
https://docs.google.com/forms/d/e/1FAIpQLSeVjVL4AN-dvPKf7cKZl5jq2hNbHGzxfPKRMNMLJRg1cAERnw/viewform
ہم اگر اپنے چوبیس گھنٹوں کا تجزیہ کریں تو ہم یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ہم چوبیس گھنٹے میں کم از کم دس بار موت کو یاد کرتے ہیں اوراس دوران ایک یا دو مرتبہ خودکشی کے بارے میں بھی سوچتے ہیں‘ ہم روز خودکشی کی پلاننگ کرتے ہیں لیکن پھر زندگی کی رعنائیاں‘ زندگی کی خوبصورتیاں اور زندگی کے رنگ ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں اور یوں ہم واپس اپنی ڈگر پر چل پڑتے ہیں تاہم اللہ تعالیٰ نبیوں‘ ولیوں اور ظالموں کو موت اور خودکشی کے خوف سے آزاد کر دیتا ہے‘ اس کی وجہ بھی خودکشی ہوتی ہے‘ نبی اور ولی اپنی ذات کو اللہ کی ذات میں تحلیل کر چکے ہوتے ہیں چنانچہ زندگی اور موت ان کے لیے برابر ہو جاتی ہیں۔
اسی طرح ظالم اپنے آپ کو ظلم میں اس قدر غرق کر دیتا ہے کہ یہ بھی خودکشی کے بارے میں سوچنا بند کر دیتا ہے‘ یہ موت کو کسی دوسرے زاویے سے دیکھنے لگتا ہے۔میں واپس حاجی صاحب کی طرف آتا ہوں‘ حاجی صاحب نے اپنی زندگی کے ابتدائی ورق پلٹنا شروع کر دیے‘ ان کا کہنا تھا‘ وہ انتہائی غریب تھے‘ وہ لمبے چوڑے خاندان کے ساتھ 1947ء میں مشرقی پنجاب سے لائل پور (فیصل آباد) پہنچے‘ انہیں پانچ مرلے کا گھر الاٹ ہوا جس میں تین بھائی‘ ان کے بارہ بچے‘ چار بہنیں اور والدین رہتے تھے۔
بازار اور کارخانے بند تھے‘ کام تھا نہیں اور گھر میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت تھی‘ بچے دودھ کی وجہ سے روتے تھے اورخاندان کے پاس دودھ کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ حاجی صاحب کا کہنا تھا ”میں اس وقت دس سال کا بچہ تھا‘ میرے بھائیوں اور والد نے کاروبار کی کوشش کی لیکن ناکام رہے‘ ہم سب نے نوکریاں اور مزدوریاں تلاش کیں لیکن ہم اس میں بھی کام یاب نہیں ہوئے‘ میں نے دس سال کی عمر میں مزدوری شروع کی اور بیس بائیس سال کی عمر تک اینٹیں‘ روڑی‘ بجری اور سیمنٹ ڈھوتا رہا۔
اس دوران میری شادی بھی ہو گئی‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے بھی دے دیئے لیکن میرے حالات ٹھیک نہ ہوئے‘ غربت کی وجہ سے ہمارے گھر میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے‘ ہم سب بہن بھائی اور ہماری بیویاں آٹے‘ دال‘ چاول اور دہی کے لیے ایک دوسرے سے لڑتی رہتی تھیں‘ ہمارے بچے بھی ایک دوسرے سے الجھتے رہتے تھے اور ہمارے والدین بھی ہمیں برا بھلا کہتے رہتے تھے‘ میں ان حالات کے ہاتھوں بری طرح تنگ آ گیا چناں چہ ایک دن میرا بیوی کے ساتھ جھگڑا ہوا اور میں نے خودکشی کا فیصلہ کر لیا۔
میں نے بازار سے زہر خریدا اور یہ زہر لے کر گھر کی چھت پر چڑھ گیا‘ میرا خیال تھا میں زہر پیوں گا اور گھر کی چھت پر کھلے آسمان کے نیچے چپ چاپ دنیا کے دکھوں سے آزاد ہو جاؤں گا‘ میں نے زہر کی بوتل سامنے رکھی‘ ڈھکن کھولا اور بوتل کو دیکھنا شروع کر دیا‘ یہ نومبر کی ٹھنڈی شام تھی‘ سورج غروب ہو رہا تھا اور میں چھت پر آلتی پالتی مار کر بوتل کے سامنے بیٹھا تھا‘ میری موت دوفٹ اور آدھ گھنٹے کے فاصلے پر تھی‘ میں نے اس کیمیکل کے تین گھونٹ بھرنے تھے اور میں آدھ گھنٹے میں دنیا اور اس کے دکھوں سے آزاد ہو جاتا۔
میں نے بوتل کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن بوتل کو چھونے سے پہلے میرے دماغ میں ایک عجیب خیال آیا‘ میں نے سوچا میں کیوں ناں یہ تصور کر لوں کہ میں مر چکا ہوں اور میں مردوں کی طرح ہر قسم کے دکھ‘ تکلیف‘ افسوس‘ پریشانی‘ اذیت اور بے عزتی سے آزاد ہو چکا ہوں‘ مجھے اب مردوں کی طرح گرمی کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی سردی‘ دھوپ اور دھواں ڈسٹرب کرتا ہے‘میں یہ سمجھ لوں میں اپنی زندگی گزار چکا ہوں اور آج سے باقی زندگی بھوت کی طرح گزار دوں گا‘ ایک ایسا بھوت جسے تھکن ہوتی ہے‘ نیند آتی ہے‘ تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی اذیت‘ جو صرف اور صرف کام کرتا ہے‘ چوبیس گھنٹے کام“۔
حاجی صاحب کی کہانی دل چسپ تھی‘ انہوں نے بتایا”میں نے زہر کی بوتل چھت پر الٹ دی اور اسی وقت گھر سے نکل کھڑا ہوا‘ میں نے بیوی کے زیور‘ گھر کے برتن اور اپنے کپڑے بیچے‘ مارکیٹ سے کپڑے کے تھان خریدے‘ سائیکل کے کیریئر پر رکھے اور گھنٹہ گھر چوک میں کھڑے ہو کر کپڑا بیچنا شروع کر دیا‘ میرا یہ کام چل نکلا‘کیوں؟ کیوں کہ میں نے دکان کا کرایہ اور سیلز مین کی تنخواہ نہیں دینا ہوتی تھی‘ میرا کپڑا بازار سے سستا ہوتا تھا لہٰذا گاہک میرا انتظار کرنے لگے‘ اس دوران دکان داروں نے میری توہین کی۔
پولیس نے مجھے ڈنڈے مارے‘ ملوں نے مجھے کپڑا دینے سے انکارکر دیا اور میں سارا سارا دن آوازیں لگانے کے بعد خالی ہاتھ بھی گھر آیا لیکن مجھے کسی تکلیف نے تکلیف نہ دی کیونکہ میں ہر تکلیف یہ سوچ کر سہہ جاتا تھا میں مردہ ہوں‘ میں بھوت ہوں اور بھوتوں اور مردوں کو تکلیف نہیں ہوتی۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ میرا کام چل نکلا‘ میں سائیکل کے کیرئیرسے دکان میں شفٹ ہوگیا‘ دکان سے میں سادہ کپڑے کو رنگ کرانے کے شعبے میں آگیا‘ میں فیکٹریوں سے کپڑا خریدتا‘یہ کپڑا رنگ ساز کارخانوں میں لے جاتا۔
وہاں سے اس پر مختلف ڈیزائن بنواتا اور یہ کپڑا بعد ازاں مختلف دکانوں پر بیچ دیتا۔ یہ کام کام یاب ہوگیا‘ میں نے بعدازاں کپڑے کو رنگ کرنے کا کارخانہ لگا لیا‘ میں بیرون ملک سے کپڑا منگواتا‘ اس کپڑے کا ڈیزائن دیکھتا اور یہ ڈیزائن مقامی کپڑے پر بنا دیتا۔ میں نے چند سال بعد جننگ مل بھی لگا لی‘ میں نے باریک کپڑا بھی بنانا شروع کر دیا اور میں نے تیار کپڑا ایکسپورٹ بھی کرنا شروع کر دیا‘ اللہ نے کرم کیا اور میرا کاروبار پھیلتا چلا گیا‘ میں چھوٹے گھر سے بڑے گھر اورپرانے محلے سے اچھی ہاؤسنگ سکیم میں آگیا۔
میں نے تین چار گاڑیاں بھی خرید لیں‘ نوکر چاکربھی رکھ لئے اور آج میں پاکستان کے چند بڑے بزنس مینوں میں شمار ہوتا ہوں“۔ حاجی صاحب کا کہنا تھا وہ اگر اس دن خود کشی کا فیصلہ نہ کرتے یا پھر خود کشی سے دو سیکنڈ پہلے خود کو بھوت تسلیم نہ کرتے اور مردہ بن کر اندھی محنت کا فیصلہ نہ کرتے تو وہ آج کامیاب نہ ہوتے۔ حاجی صاحب اسلام آباد اتر کر فیصل آباد روانہ ہو گئے لیکن وہ جاتے ہوئے مجھے سوچ کا ایک نیا زاویہ دے گئے‘ میں آج جب بھی خود کشی کی کوئی خبر پڑھتا ہوں تو مجھے حاجی صاحب یاد آ جاتے ہیں اور میں سوچتا ہوں اس شخص اور حاجی صاحب میں بس ایک فرق تھا۔
حاجی صاحب نے زہر پینے کی بجائے محنت کے دریا میں کود کر آسان خود کشی کر لی جب کہ اس شخص نے زہر‘ پٹڑی‘ دریا اور گولی جیسا مشکل راستہ منتخب کیا۔ دنیا کا ہر انسان مر جاتا ہے‘ کوئی بیس سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے‘ کوئی چالیس‘ پینتالیس سال کی عمر میں اور کوئی ساٹھ‘ ستر‘ اسی سال کی عمر میں انتقال کر جاتا ہے‘ کوئی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کے انتقام کا نشانہ بن جاتا ہے۔ دنیا میں حضرت موسیٰ ؑ ہوں یا فرعون دونوں بالآخر اپنے رب کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
دنیا میں مصائب‘ مشکلات اور مسائل بھی بہت بڑی حقیقت ہیں‘ دنیا کا ہر شخص موت کی طرح مسائل کے عمل سے بھی گزرتا ہے لیکن کچھ نا سمجھ‘ بے وقوف لوگ ان مسائل کو موت کی وجہ بنا لیتے ہیں اور وقت سے پہلے مر جاتے ہیں۔ یہ لوگ اگر زہر پینے کی بجائے مسائل کا زہر پی لیں‘ یہ دریا میں کودنے کی بجائے محنت کے دریا میں چھلانگ لگا دیں اور یہ اگر ٹرین سے ٹکرانے کی بجائے حالات سے ٹکرا جائیں تو یہ حاجی صاحب کی طرح کام یاب ہو جائیں‘ یہ وقت کی چٹان پر اپنے قدم کے نشان چھوڑ جائیں۔
یہ لوگ اگر خود کشی سے پہلے یہ سوچ لیں آج سے ان کی زندگی ختم ہو گئی ہے اور ان کی باقی زندگی اب حاجی صاحب کی طرح لڑتے لڑتے گزرے گی تو تصویر کے سارے رنگ بدل جائیں۔ میں جب بھی خود کشی کی کوئی خبر پڑھتا ہوں تو سوچتاہوں کاش اس شخص نے ایک لمحے کیلئے حاجی صاحب کی طرح سوچا ہوتا‘ کاش اس نے محنت کے دریا میں چھلانگ لگا دی ہوتی تو آج یہ بھی پاکستان کا سب سے بڑا صنعت کار ہوتا کیونکہ محنت بہرحال خودکشی سے کہیں آسان کام ہے۔