مولانا طارق جمیل پوری دنیا میں پاکستان اور اسلام کا تعارف ہیں‘ ہم ان سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان کو جتنی تاثیر اور دین کا جتنا اخلاص دے رکھا ہے ہمیں وہ بہرحال ماننا پڑے گا‘ مولانا میرے دوست ہیں‘ یہ اکثر اوقات مہربانی فرماتے رہتے ہیں‘ ان سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور یہ ٹیلی فون بھی کرتے رہتے ہیں‘ میرے اور ان کے درمیان ایک ”عمرانی معاہدہ“ طے پایا تھا‘ یہ عمران خان کو ریاست مدینہ کا بانی ثانی سمجھتے ہیں جب کہ میں سمجھتا ہوں عمران خان اگر پاکستان کو صرف ریاست ہی بنا لیں تو قوم ان کی تصویر کو ہار پہناتی رہے گی۔
میں یہ بھی سمجھتا ہوں عمران خان اس ٹیم اور اس وژن کے ساتھ اس ملک کو ریاست مدینہ تو دور ریاست ڈونگہ بونگہ بھی نہیں بنا سکتے لہٰذا مولانا مجھے قائل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور میں بھی انہیں حکومت کی حماقتیں بتا کر پریشان نہیں کرتا‘ ہمارے درمیان ایک دوسرا معاہدہ بھی موجود ہے‘ یہ آخرت کی تبلیغ کر کے مجھے خراب نہیں کرتے اور میں دنیا داری کی تبلیغ کر کے ان کے ایمان کا امتحان نہیں لیتا چناں چہ یہ بھی خوش ہیں اور میں بھی خوش ہوں‘ یہ اپنی بات کرتے رہتے ہیں‘ الحمد للہ میں ان کی بات کا اثر نہیں لیتا اور میں اپنی ہانکتا رہتا ہوں اور اللہ کا بہت کرم ہے یہ بھی میری بات کو سیریس نہیں لیتے اور یوں ہم ایک دوسرے سے بچ بچا کر شان دار زندگی گزارتے چلے جا رہے ہیں۔مولانا طارق جمیل آج کل علیل ہیں‘ یہ ہسپتال میں ہیں‘ ڈاکٹروں نے ان کے سینے میں تیسرا سٹنٹ ڈال دیاہے‘ یہ اس بار رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع میں دعا کے لیے بھی نہیں جا سکے‘ آپ اس سے ان کی بیماری کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ مجھے دو دن پہلے مولانا نے ہسپتال سے فون کیا‘ یہ مجھے دکھی محسوس ہو رہے تھے‘ میں نے خیریت پوچھی تو مولانا نے جواب دیا ”بس تیسرا سٹنٹ پڑ چکا ہے باقی سب خیر ہے“ میں نے ہنس کر کہا ”آپ نے اتنے سٹنٹ کیا کرنے ہیں“ مولانا نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ”مجھے پچھلے دنوں ملین کے حساب سے گالیاں پڑی تھیں‘ میں شاید ان کا اثر لے گیا ہوں“ ۔
میں نے ہنس کر جواب دیا ”ویل کم ٹو دی کلب مولانا“ یہ بھی ہنس پڑے‘ میں نے عرض کیا ”جناب آپ نے بالکل صحیح شخص کو فون کیا‘ عربی کی کہاوت ہے انسان کو سمجھ دار سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے‘ تجربہ کار سے کرنا چاہیے اور مجھے کیوں کہ گالیاں کھانے کا سات سالہ تجربہ ہے لہٰذا میں آپ کو بہتر مشورہ دے سکتا ہوں“ مولانا نے بھرپور قہقہہ لگایا‘ میں بھی ہنسنے لگا‘ میں نے ان سے عرض کیا ”مولانا آپ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ یہ بات پلے باندھ لیں ہم کسی معاشرے میں نہیں رہ رہے ہیں۔
ہم جنگل میں زندگی گزار رہے ہیں اور جنگلوں میں جو جانور طبعی زندگی گزار کر طبعی موت مرتے ہیں وہ کمال کر دیتے ہیں لہٰذا ہم اس جنگل میں رہیں‘ پوری عمر گزاریں اور آخر میں اپنے بستر پر آکسیجن کی نلکیوں کے بغیر طبعی موت مر جائیں‘ یہ ہمارا سب سے بڑا کمال ہو گا“ مولانا نے تھوڑی دیر سوچا اور فرمایا ”میں یہ مان لیتا ہوں لیکن مجھے اس کے باوجود یہ چیز تکلیف دیتی ہے‘ لوگ میرے ساتھ لاکھ اختلاف کریں لیکن کسی کو میری ماں بہن کو گالی دینے کا اختیار کس نے دیا اور یہ گالی بھی کون دے رہا ہے؟۔
یہ باریش‘ مذہبی لوگ دے رہے ہیں‘ یہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور قرآن مجید بھی لیکن یہ تلاوت اور صراط مستقیم کی دعا کرنے والی زبانوں سے مجھے گالی دے رہے ہیں‘ مجھے اس سے سخت تکلیف ہوتی ہے“ میرے پاس مولانا کے اس اعتراض کا جواب موجود تھا مگر میں احترام کی وجہ سے خاموش رہا‘ میں نے ان کی صحت کے بارے میں پوچھا‘ صحت یابی کی دعا کی‘ جلد ملاقات کا وعدہ کیا اور فون بند کر دیا۔مولانا طارق جمیل کے ساتھ میرا مکالمہ ختم ہو گیا لیکن میں دیر تک سوچتا رہا ہم کس قسم کا جنگل ہیں؟۔
ہم جنگلوں میں بھی کوئی بدتر جنگل ہوں گے‘ جنگلوں کے بھی دستور ہوتے ہیں‘ ان میں بھی شیر شیر‘ گیدڑ گیدڑ اور لومڑی لومڑی کو گالی نہیں دیتی‘ یہ ایک دوسرے کی سپیس کا خیال بھی رکھتے ہیں‘ بڑے جانور جب تک بھوکے نہ ہوں یہ کسی چھوٹے جانور پر حملہ نہیں کرتے‘ یہ بھوک میں بھی حاملہ جانوروں اور دشمن جانوروں کے بچوں کو نہیں کھاتے‘ شیرنی بھیڑ اور ہرن کے بچے تک پال لیتی ہے لیکن ہم خود کو انسان بھی کہتے ہیں اور دوسرے انسان کو اختلاف کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔
ہم دوسروں کو سوچنے اور کسی کو پسند یا ناپسند کرنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے‘ اللہ تعالیٰ فرعون‘ نمرود اور شداد جیسے زمینی خداﺅں کو بھی برداشت کرتا رہا‘ یہ آج تک شیطان کو بھی برداشت کر رہا ہے اور دنیا کی ایک تہائی آبادی اللہ کے وجود سے منکر ہے لیکن اللہ انہیں قحط‘ غربت‘ بیماری اور موت چاروں سے بچا کر رکھتا ہے مگر ہم لوگ! اللہ کی پناہ! ہم سے بڑا منافق کون ہو گا؟ ہم کسی انسان کو سوچنے تک کی آزادی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہم کون لوگ ہیں اور کیسے لوگ ہیں؟۔
میرے ایک باریش جاننے والے ہیں‘ یہ پنج وقتہ واہیات انسان ہیں‘ حلیہ مومنوں جیسا لیکن کرتوت توبہ توبہ‘ یہ آب زم زم میں بھی ملاوٹ کرتے دیر نہیں لگاتے‘ یہ مجھے اکثر تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور میں ہمیشہ ان کی تقریر سن کر کہتا ہوں اللہ معاف کرے‘ جب آپ جیسے لوگ مذہب کی بات کرتے ہیں تو دنیا کے تمام مذہب مشکوک ہو جاتے ہیں اور ہم جیسے دنیا دار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ہم نے اگر دین کے راستے پر آ کر آپ جیسا بننا ہے تو پھر ہم ایسے ہی ٹھیک ہیں‘ ہم دم کے بغیر ہی اچھے ہیں۔
آپ یقین کریں میں نے جس دن دین دار‘ باریش لوگوں کے منہ سے مولانا طارق جمیل کے لیے گالیاں سنیں اور میں نے اس سے پہلے باریش ہجوم کو حضرت عائشہؓ کا نام لے کر جنید جمشید (مرحوم) کو گالیاں دیتے اور اس پر حملہ کرتے دیکھا تھا اور میں جب بھی یوٹیوب پر منبر رسول پر بیٹھ کر علماءکرام کو دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے یا گالیاں دیتے سنتا ہوں تو میں شکرانے کے نفل پڑھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں اس نے مجھے اس ”دین دار“ طبقے سے بچا کر رکھا۔
اس نے مجھے داڑھی رکھ کر دوسروں کو کافر کہنے اور مسجدوں میں کھڑے ہو کر دوسروں کو گالیاں دینے کے گناہ سے بچائے رکھا‘ آپ یقین کریں مجھے اپنے دنیا دار ہونے پر فخر ہوتا ہے اور میں اللہ سے عرض کرتا ہوں” یا باری تعالیٰ! میں تم سے ڈرتا ہوں اور میری نس نس میں تمہارے رسول کی محبت بہتی ہے‘ بس میری تم سے صرف اتنی درخواست ہے میں جیسا ہوں تم مجھے ویسا ہی قبول کر لو‘ تم مجھے کسی آستانے‘ کسی درگاہ اور کسی مجلس میں ذلیل نہ کرنا‘ مجھے کسی فرقے اور کسی عالم دین کا غلام نہ بنانا“۔
آپ ہم جیسے دنیا داروں پر اللہ کا کرم دیکھیے‘ ہم مسجدوں اور درگاہوں میں بھی چلے جاتے ہیں اور سینا گوگ‘ چرچوں‘ مندروں اور گوردواروں میں بھی اور ہمارا خدا ہم سے ناراض بھی نہیں ہوتا‘ ہم نے آج تک ان لوگوں کو بھی برا بھلا نہیں کہا جو ہمیں روز گناہ گار قرار دیتے ہیں‘ ہمیں دنیا کا کتا کہتے ہیں اور ہمیں کافر ثابت کرتے رہتے ہیں‘ ہم نے آج تک مسلمان تو دور کسی دوسرے مذہب کے عالم کو بھی گالی نہیں دی جب کہ یہ لوگ منبر رسول پر بیٹھ کر‘ تلاوت کر کے دوسرے عالم کو کافر بھی قرار دے دیتے ہیں اور اسے ماں بہن کی گالی بھی دے دیتے ہیں‘ یہ کتنے بہادر لوگ ہیں؟ میں انہیں دونوں ہاتھوں سے سلام پیش کرتا ہوں۔
آپ اس جنگل کا کمال دیکھیے‘ جنگل میں کتا کتے کا گوشت نہیں کھاتا لیکن ہم ایک دوسرے کو پورے کا پورا ہڑپ کر جاتے ہیں‘ لومڑ بھی لڑ بھڑ کر اکٹھے بیٹھ جاتے ہیں مگر ہماری نفرتوں کے دائرے نسلوں تک پھیلتے چلے جاتے ہیں اور ہم پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں مگر ہم اپنی زبان کو جبڑے کے اندر قابو نہیں رکھ پاتے‘ ہم کون ہیں؟ میں نے مذہبی کتابوں میں پڑھا تھا ہمارا رب اور ہمارا رسول کون ہے اور ہم کتنے ایمان دار اور کتنے بے ایمان ہیں یہ فیصلہ اللہ نے حشر کے دن کرنا ہے لیکن آپ ملاحظہ کیجیے ہم نعوذ باللہ‘ نعوذ باللہ اپنے رب سے بھی کتنے بڑے ہیں کہ ہم یہ سوال دوسروں سے اس دنیا میں پوچھ رہے ہیں۔
اللہ فرعون کو بھی اپنی خدائی کو چیلنج کرنے کی اجازت دے دیتا ہے مگر ہم کسی کو اپنی مرضی سے کسی کو پسند یا ناپسند کرنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھی پورے ملک کی سڑکیں بند کر رہے ہیں‘ یہ حکومت کے جرائم کی سزا عام لوگوں کو دے رہے ہیں‘ یہ ٹھیک ہے لیکن مولانا طارق جمیل نے عمران خان سے ملاقات کر کے اسلام کی توہین کر دی‘ یہ قابل گردن زنی ہو گئے‘ یہ کیا تماشا ہے اور کیا یہ دین ہے اور کیا یہ دین داری ہے؟۔
اگر یہ دین داری ہے تو پھر ہم دنیا دار ہی ٹھیک ہیں‘ ہم پھر آپ لوگوں سے دور رہ کر ہی سکھی ہیں‘ پھرہماری وہ دنیا ہی اچھی ہے جس میں ہم دوسروں سے صرف اختلاف کرتے ہیں‘ جس میںہم ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو برداشت بھی کر جاتے ہیں اور اس نقطہ نظر کی سزا ہماری ماں یا بہن کو نہیں برداشت کرنی پڑتی‘ ہم دنیا دار لوگ بلیوں کی میاﺅں اور کتوں کی بھوﺅں تک کو اس کا حق سمجھتے ہیں اور کسی کو یہ حق بھی سلب نہیں کرنے دیتے خواہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی کیوں نہ ہو جب کہ آپ کی دین داری میں عالم کی زبان سے عالم کی ماں‘ بہن اور بیٹی بھی محفوظ نہیں۔
آپ منبر پر کھڑے ہو کربھی دوسرے مسلمانوں کو گالی دے دیتے ہیں‘آپ کسی دن ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ سوچئے گا‘ ہم دنیا دار اور گناہ گار آپ سے کتنے بہتر ہیں‘ ہم اللہ کے کتنے قریب ہیں؟ آپ یقین کریں ہم جب آپ لوگوں کو دیکھتے اور سنتے ہیں تو ہمیں اپنے دنیا دار ہونے پر فخر ہونے لگتا ہے‘ ہم گناہ گار ہونے پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنے لگتے ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کے ذمہ دار آپ دین دار لوگ ہیں۔