بریگیڈیئر نیاز احمد پاک فوج کے ایک طلسماتی کردار تھے‘ یہ توپ خانے سے تعلق رکھتے تھے اور 1977ءمیں 10 ڈوالٹری کی کمانڈ کر رہے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک چلی‘ بھٹو صاحب نے لاہور میں کرفیو لگا دیا‘ لاہور میں اس وقت تین بریگیڈز تھے‘ شہر کو تین زونز میں تقسیم کر کے تین بریگیڈ کے حوالے کر دیا گیا‘ بریگیڈیئر نیاز احمد کے حصے سنٹرل لاہور آ گیا‘ کیپٹن شاہین بٹ بریگیڈیئر نیاز کے سٹاف آفیسر تھے‘ کرفیو نے لاہور میں فوج کے امیج کو بری طرح متاثر کیا‘ لوگ برا بھلا کہنے لگے۔
تینوں بریگیڈیئر اس صورت حال سے پریشان ہو گئے اور مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا‘ بریگیڈیئر نیاز احمد کے ساتھ بریگیڈیئر تاج اور بریگیڈیئر اشتیاق بھی شامل تھے‘ کیپٹن شاہین بٹ نے بھی استعفیٰ دے دیا‘ جنرل ضیاءالحق آرمی چیف تھے‘ آرمی چیف نے بریگیڈیئرز کو جی ایچ کیو بلایا اور گرفتار کرنے کا حکم دے دیا‘ کیپٹن شاہین بٹ کو بھی گرفتار کر کے قصور بھجوا دیا گیا‘ ملک میں پانچ جولائی 1977ءکو مارشل لاءلگ گیا‘ کیپٹن شاہین بٹ کو رہا کر دیا گیاجبکہ بریگیڈیئرز کو واپس فوج جوائن کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن یہ تیار نہیں ہوئے‘ شاہین بٹ کو جنرل ضیاءالحق نے دو بار بلا کر سمجھایا ‘ یہ بھی استعفیٰ واپس لینے پر راضی نہیں ہوئے‘ بریگیڈیئر نیاز احمد نے مستعفی ہونے کے بعد لال کرتی راولپنڈی میں کافی شاپ بنا لی اور عام سی زندگی گزارنے لگے‘ کیپٹن شاہین بٹ امریکا چلے گئے اور نیویارک میں پاکستانی کھانوں کا ریستوران بنا لیا یوں یہ کہانی ختم ہو گئی لیکن یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہو گئی‘ بریگیڈیئر نیاز احمد زبردست سپاہی تھے‘ اعلیٰ کردار کے مالک تھے اور جرات مند تھے‘ فوج میں ان کی بہت قدر کی جاتی تھی‘ جنرل اسلم بیگ بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے‘ یہ آرمی چیف بنے تو بریگیڈیئر نیاز کو بلایا اور فوج کو اسلحہ سپلائی کرنے کا ٹھیکہ دے دیا ‘ یہ کرنل چیمہ کے ساتھ مل کر یہ کام کرنے لگے‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور یہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگے‘ جنرل پرویز مشرف کا دور آ گیا‘ جنرل مشرف بھی بریگیڈیئر نیاز کے فین تھے۔
یہ ان کے ماتحت بھی کام کر چکے تھے‘ یہ دونوں برج (تاش کی ایک گیم) کے شان دار کھلاڑی بھی تھے‘ یہ روز برج کھیلتے تھے‘ جنرل مشرف انہیں سر کہتے تھے اور یہ ان کی کوئی بات نہیں ٹالتے تھے‘ کیپٹن شاہین بٹ اور بریگیڈیئر نیاز احمد کا آپس میں رابطہ تھا‘ یہ بھی ایک دوسرے سے ملتے ملاتے اور بات چیت کرتے رہتے تھے‘ کیپٹن شاہین لاہوریے تھے‘ یہ میاں برادران بالخصوص میاں شہباز شریف کے دوست تھے‘ 2002ءمیں کیپٹن شاہین بٹ نے میاں شہباز شریف اور بریگیڈیئر نیاز کا آپس میں رابطہ کرایا۔
شہباز شریف کینسر کے مریض بن چکے تھے‘ بریگیڈیئر نیاز نے جنرل پرویز مشرف سے کہہ کر شہباز شریف کو جدہ میں پاسپورٹ بھی جاری کرایا اور علاج کے لیے نیویارک جانے کی اجازت بھی لے کر دی‘ یہ نیویارک میں شاہین بٹ کے مہمان رہے‘ میاں نواز شریف نے مارچ 2018ءمیں شاہین بٹ کو سینیٹر بنا دیا‘ یہ اس وقت سینٹ آف پاکستان کے ممبر ہیں۔میں نے آپ کو یہ ساری بیک گراﺅنڈ جنرل پرویز مشرف کی ایک پیش کش کے لیے سنائی‘ جنرل پرویز مشرف نے بریگیڈیئر نیاز کے ذریعے میاں شہباز شریف کو آگے بڑھنے کی آفر کی تھی۔
جنرل کا کہنا تھا ”ہمیں آپ سے کوئی ایشو نہیں‘ ہم بس میاں نواز شریف کے ساتھ نہیں چل سکتے‘ آپ ان سے الگ ہو جائیں‘ پاکستان آئیں‘ سیاست کریں‘ وزیراعلیٰ بنیں‘ وزیراعظم بنیں‘ ہم آپ کو فل سپورٹ کریں گے“ مگر شہباز شریف نے اپنے بھائی کو دھوکا دینے سے انکار کر دیا‘ یہ انکار پہلی بار نہیں ہوا تھا‘ میاں نواز شریف اور جنرل آصف نواز جنجوعہ کے درمیان 1992ءمیں اختلافات پیدا ہوئے‘ جنرل جنجوعہ نے میاں شہباز شریف کو آگے آنے کی پیش کش کر دی۔
یہ آفر صدر غلام اسحاق خان نے بھی کی اور جنرل عبدالوحید کاکڑ نے بھی‘ میاں نواز شریف اور جنرل جہانگیر کرامت کے درمیان 1998ءمیں اختلافات پیدا ہو ئے‘ جہانگیر کرامت نے بھی شہباز شریف کو آگے آنے کا اشارہ دے دیا‘ جنرل پرویز مشرف بھی 1999ءمیں شہباز شریف کی طرف دیکھتے رہے اور جب شریف فیملی جلاوطن ہوئی تو جنرل پرویز مشرف نے دوسری بار بریگیڈیئر نیاز احمد کے ذریعے انہیں پیش کش کی مگر شہباز شریف نے ہر بار انکار کر دیا‘ میاں برادران 25 نومبر2007ءکو پاکستان واپس آئے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا بھی شہباز شریف کو اشارہ کرتے رہے‘ جنرل پاشا نے مجھے خود بتایا ”میں اپنے دور میں کبھی میاں نواز شریف سے نہیں ملا‘ مجھے شہباز شریف نے دو مرتبہ کہا لیکن میں نے جواب دیا‘ ان کے دل میں فوج کے لیے نفرت ہے اور میں کسی ایسے شخص سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہوں جو میرے ادارے کے خلاف ہو“ جنرل راحیل شریف کے دور میں بھی نواز شریف اور فوج آمنے سامنے آ گئے‘ فوج کی ہر فائل وزیراعظم آفس میں رک جاتی تھی۔
جنرل راحیل شریف مجبور ہو کر شہباز شریف سے رابطہ کرتے تھے‘ یہ چودھری نثار کو ساتھ لے کر فواد حسن فواد کے پاس جاتے تھے اور زبردستی فائلیں نکلواتے تھے‘ جنرل باجوہ کے زمانے میں بھی یہی ہوا‘وزیراعظم آفس میں 17 فائلیں رک گئیں‘ ہم جنرل باجوہ اور جنرل راحیل شریف سے لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ حقیقت ہے یہ دونوں جمہوریت پسند تھے اور اگر میاں نواز شریف ان دونوں کے ساتھ نہیں چل سکے تو پھر یہ کسی جنرل کے ساتھ نہیں نبھا سکیں گے۔
میاں نواز شریف میں بے شمار خوبیاں ہیں‘ یہ فوکسڈ ہیں‘یہ منکسرالمزاج ہیں اور یہ مضبوط قوت فیصلہ کے مالک ہیں‘ یہ مختصر وقت میں بڑے بڑے فیصلے کر کے دنیا کو حیران کر دیتے ہیں مثلاً موٹروے ہو‘ ایٹمی دھماکے ہوں‘ بجلی اور گیس کی پیداوار ہو‘ سی پیک ہو‘ امریکا سے روس کی طرف شفٹنگ ہو یا پھر بھارت کے ساتھ گفت و شنید ہو نواز شریف نے ہر دور میں بولڈ فیصلے کیے اور ملک کو ان فیصلوں کا فائدہ ہوا بس ان میں ایک بڑی خامی ہے اور وہ خامی فوج سے نفرت ہے۔
یہ فوج کے ساتھ نہیں چل سکتے‘ میاں شہباز شریف اس معاملے میں بڑے بھائی سے بالکل مختلف ہیں‘ یہ فوج کو ساتھ رکھ کر چلنا چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں اسٹیبلشمنٹ بہت مضبوط ہے‘ پاکستان میں فوج سے بگاڑ کر فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو بھی نہیں چل سکے تھے ‘ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ ہم ایک قدم آگے نہیں اٹھا سکیں گے‘ شہباز شریف ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کے بہت قریب ہے‘ فوج شہباز شریف کی قدر دان ہے‘ اس کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ پرفارمنس ہے‘ ملک میں آج تک کسی سویلین نے میاں شہباز شریف جتنا پرفارم نہیں کیا‘ فوج اس پرفارمنس کی قدر کرتی ہے‘دوسرا یہ میرٹ اور ایمان داری پر بھی کمپرومائز نہیں کرتے‘ فوج اس سے بھی پوری طرح واقف ہے‘ بس ان کی دو کم زوریاں ہیں‘ میاں نواز شریف اور حمزہ شہباز‘ یہ ان دونوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب کہ فوج میاں نواز شریف اور حمزہ شہباز دونوں کو برداشت نہیں کرے گی‘ حمزہ شہباز پر کرپشن کے الزامات ہیں جب کہ میاں نواز شریف فوج کے خلاف ہیں اور یہ دونوں میاں شہباز شریف کے پاﺅں کی زنجیر ہیں‘ یہ اپنے بھائی اور بیٹے دونوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور یہ وہ ساتھ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا آخری سویلین پرفارمر بھی ضائع ہو رہا ہے۔
میری گزشتہ ہفتے میاں شہباز شریف سے ملاقات ہوئی‘ یہ اپنے بڑے بھائی کی صحت اور قید پر بہت پریشان تھے‘ میں نے ان سے کہا ”آپ فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے“ یہ بولے ”میں مر جاﺅں گا لیکن بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا“ میں نے پوچھا ”بڑے میاں صاحب کا ایشو کیا ہے؟“ یہ دکھی لہجے میں بولے ”ساتھی‘ یہ ہر بار غلط لوگوں کے نرغے میں آ جاتے ہیں‘ یہ لوگ انہیں فوج کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں‘ ہم فارغ ہو جاتے ہیں‘ جیلوں میں جا گرتے ہیں اور کھڑا کرنے والے ساتھی غائب ہو جاتے ہیں۔
آپ آج دیکھ لیں میاں نواز شریف اور فوج کو لڑانے والے لوگ آج کہاں ہیں؟ یہ نواز شریف کی حمایت میں منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکال رہے‘ یہ پارٹی کے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوتے“ میں نے پہلی مرتبہ انہیں معمول سے زیادہ دکھی اور بیمار دیکھا‘ یہ بار بار کہہ رہے تھے ”میں ہر بار اپنے بھائی کو سمجھاتا ہوں ہم نے فوج کے ساتھ چلنا ہے‘ ہم اسٹیبلشمنٹ کو سائیڈ پر رکھ کر پرفارم نہیں کر سکیں گے‘ آپ صرف اور صرف پرفارمنس پر توجہ دیں‘ یہ ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا تو سب ٹھیک ہو جائے گا ورنہ سب بکھر جائے گا مگر یہ نہیں سمجھتے“۔
میں ایک گھنٹہ ان کے پاس بیٹھا رہا‘ مجھے محسوس ہوا میاں شہباز شریف تھک چکے ہیں‘ یہ اب اس صورت حال میں مزید نہیں رہ سکیں گے‘ مجھے محسوس ہوا یہ سیاست سے ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں‘ یہ بھائی کو جیل سے نکالنے کی کوشش کریں گے‘ اس کے لیے کسی کے پاﺅں بھی پڑنا پڑا تو یہ پڑ جائیں گے لیکن اگر میاں نواز شریف نے اس کے باوجود اپنی سوچ تبدیل نہ کی‘ مریم نواز کو سیاست سے واپس نہ کھینچا‘ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بند نہ کیا اور یہ سڑکوں اور دھرنوں کی سیاست سے تائب نہ ہوئے تو میاں شہباز شریف سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں گے۔
یہ چپ چاپ لندن جائیں گے‘ علاج کرائیں گے‘ واک کریں گے‘ کتابیں لکھیں گے اور یوں سیاست میں پرفارمنس کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا‘ خواجہ آصف بھی اس بار ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور خواجہ سعد رفیق بھی جیل میں بیٹھ کر سوچ رہے ہیں ”یہ ہم ہر دو تین سال بعد کیا کر دیتے ہیں؟“ پیچھے رہ گئے احسن اقبال یہ البتہ سڑکوں پر پارٹی کی قیادت کریں گے‘ میاں شہباز شریف حقیقتاً قوم کا نقصان ثابت ہوں گے‘ہماری پوری پولیٹیکل لاٹ میں ان جیسا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں‘ افسوس یہ وفاداری اور بھائی کی محبت میں ضائع ہو رہے ہیں۔