اسلام آباد میں فرشتہ نام کی ایک اور بچی ہماری سرکاری تاخیر کا نشانہ بن گئی‘ فرشتہ کا تعلق خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند سے تھا‘یہ اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں مقیم تھی‘فرشتہ 15 مئی کو لاپتہ ہوئی اور20مئی کی شام کو اس کی مسخ شدہ لاش جنگل سے برآمد ہوگئی‘فرشتہ ان ہزاروں زینبوں میں شامل ہے جو روز پاکستان میں درندہ صفت انسانوں کا نشانہ بنتی ہیں‘ہماری قومی یادداشت بہت کمزور ہے‘ مجھے یقین ہے اہل پاکستان زینب کو بھول چکے ہوں گے لہٰذا میں سب سے پہلے آپ کو زینب یاد کراﺅں گااور پھر اس مسئلے کا مستقل حل بتاﺅں گا۔
زینب کی عمرسات سال تھی‘ وہ چار جنوری2018ءکو قصور میں اپنے گھر سے غائب ہوئی‘ 9 جنوری کو اس کی لاش ملی‘22 جنوری کو اس کا قاتل عمران گرفتار ہوا اور 17 اکتوبر 2018 ءکو اسے کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی‘یہ پاکستان کی تاریخ کا مشہور ترین کیس تھا‘ میڈیا نے اسے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت جتنی کوریج دی‘ ریاست پہلی مرتبہ ایکٹو ہوئی‘ ملک کے تمام اداروں نے مل کر کام کیا اور یوں مجرم کیفر کردار تک پہنچ گیا‘ میں نے ان دنوں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہرآرلنگٹن کی ایک بچی امبر کی کہانی لکھی تھی‘ امبر21 جنوری 1996ءکی شام اغواءہوئی تھی‘ اس کی مسخ شدہ لاش پانچ روز بعد نالے سے ملی تھی‘ کیس کی تفتیش مائیک سائمنڈ کے پاس تھی‘مائیک سائمنڈ نے تفتیش کے دوران سوچا‘ ہمارے پاس کوئی ایسا سسٹم ہونا چاہیے جس کے ذریعے مغوی بچے کی تفصیلات چند منٹوں میں پورے شہر تک پہنچ جائیں‘ یہ دو ہفتے سوچتا رہا یہاں تک کہ اس نے ایک الرٹ سسٹم بنا لیا‘ مائیک سائمنڈ نے یہ سسٹم آرلنگٹن پولیس کو دیا‘ پولیس نے میئر کے ساتھ مل کر یہ پورے شہر میں لگا دیا‘ یہ الرٹ بعدازاں پوری ٹیکساس ریاست میں نافذ ہوئی‘ 2001ءمیں چار امریکی ریاستوں نے اسے اون کر لیا اور 2002ءمیں امریکی صدر جارج بش نے اسے پورے امریکا میں نافذ کر دیا‘ یہ سسٹم 2005ءمیں دنیا کے 30 ملکوں تک پہنچا اور یہ اس وقت یورپ‘ مشرق بعید اور لاطینی امریکا سمیت دنیا کے تمام جدید ملکوں میں چل رہا ہے۔
میں نے حکومت سے درخواست کی یہ بہت اچھا اور کامیاب سسٹم ہے‘ آپ یہ پاکستان میں بھی اپنا لیں‘ ہزاروں بچوں اور بچیوں کی جان بچ جائے گی‘ یہ کالم 12 جنوری 2018ءکو شائع ہوا‘ پورے ملک سے صرف میاں شہباز شریف نے دلچسپی ظاہر کی‘ حکومت پنجاب نے زینب الرٹ کے نام پر 24 رکنی کمیٹی بنا دی‘ کمیٹی کے دھڑادھڑ اجلاس ہوئے‘ اصلاحات بھی فائنل ہو گئیں اور نئے قوانین کا خاکہ بھی تیار ہو گیا لیکن پھر وہی ہوا جو اس ملک میں 72 سال سے ہو رہا ہے‘ مجرم کی گرفتاری کے بعد زینب کیس ترجیحات کی فہرست سے غائب ہو گیا۔
زینب الرٹ کمیٹی کی میٹنگز بند ہو گئیں اور یوں یہ ایشو بھی ملک کے دوسرے جینوئن ایشوز کے ساتھ فائلوں میں دفن ہو گیا‘ پنجاب حکومت جب زینب الرٹ پر کام کر رہی تھی تو میں نے ان دنوں حکومت کو پیشکش کی میں آپ کو زینب الرٹ مفت بنوا دیتا ہوں‘ حکومت کا وقت اور پیسہ دونوں بچ جائیں گے لیکن حکومت کا خیال تھا ہمارے پاس پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اوراکیسویں صدی کا آئن سٹائن ڈاکٹر عمر سیف موجود ہے‘ حکومت یہ ایپلی کیشن آسانی سے بنا لے گی۔
یہ باتیں بظاہر اچھی لگتی ہیں لیکن ہمیں یہ حقیقت ماننا ہو گی ہمارے سرکاری اداروں میں کیپسٹی بھی نہیں اور نیت بھی نہیں‘ سرکار میں پہنچ کر ایک گھنٹے کا کام دس سال تک پھیل جاتا ہے لہٰذا زینب الرٹ کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ پنجاب آئی ٹی بورڈ نے ایک دھیلے کا کام نہیں کیا یوں قانون بن سکا اور نہ ہی الرٹ اور آخر میں فائل بھی بند ہو گئی۔حکومت نے موقع ضائع کر دیا لیکن زینب الرٹ کا آئیڈیا کراچی کے پانچ نوجوانوں کو متاثر کر گیا‘ یہ لوگ سٹارٹ اپس کی چھوٹی سی کمپنی چلاتے تھے۔
یہ لوگ ایکٹو ہوئے اور انہوں نے آٹھ ماہ میں زینب الرٹ بنا لی‘ میں نے یہ الرٹ دیکھی تو میں حیران رہ گیا‘امریکا کی امبر الرٹ صرف انگریزی میں تھی جبکہ زینب الرٹ انگریزی‘ اردو‘ پنجابی‘ سندھی اور پشتو پانچ زبانوں میں تھی‘ یہ صرف بچوں کے اغواءتک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں موبائل فون چھیننے‘ آتش زدگی‘ چوری‘ عصمت دری‘ مشکوک اشیاءکی موجودگی‘ بدسلوکی‘ غیر قانونی تعمیرات‘ چوری شدہ گاڑیوں‘ رشوت ستانی‘ خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور گھوسٹ ملازمین کے بارے میں اطلاعات کے فیچرز بھی شامل تھے۔
بچوں کے اغواءیا گمشدگی کے بعد کوئی بھی شخص ایپلی کیشن پر بچے کا نام‘ صنف‘ سرپرست کا نام‘ شناختی کارڈ‘ ایڈریس اور بچے کے آخری مقام تک کی معلومات دے کر پورے سسٹم کو الرٹ کر سکتا تھا‘ یہ معلومات چند سکینڈز میں پولیس‘ لوکل انتظامیہ اور صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن چینلز‘ ریڈیو‘ اخبارات‘ سوشل میڈیا اور فلاحی تنظیموں تک پہنچ سکتی تھیں‘ بچے کی تصاویر اور معلومات ریلوے سٹیشنوں‘ بس سٹاپس اور ائیرپورٹس کی سکرینوں پر بھی نظر آسکتی تھیں۔
یہ سسٹم اس وقت تک ایکٹورہتا تھا جب تک وہ بچہ مل نہیں جاتاتھااوریہ سسٹم بچوں کی گمشدگی کا ڈیٹا بھی بناتا رہتا تھاجس کے ذریعے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر کوئی بھی شخص مسنگ بچوں کی تلاش میں انتظامیہ اور والدین دونوں کی مدد کر سکتا تھا‘ میں نے یہ الرٹ دیکھی تو میں نے بنانے والے نوجوانوں سے پوچھا‘ آپ نے یہ اب تک حکومت کو کیوں نہیں دی؟ نوجوانوں نے جواب دیا‘ ہم یہ الرٹ پرانی حکومت کو بھی دیتے رہے اور ہم اب نئے پاکستان کے پیچھے بھی بھاگ رہے ہیں۔
ہم نے صدر‘ وزیراعظم‘ وزراءاعلیٰ اور چیف جسٹس صاحبان تک کو خط بھی لکھے اور انہیں ای میلز بھی کیں‘ ہم ان سے صرف یہ درخواست کر رہے ہیں ہم آپ کو یہ الرٹ فری دینا چاہتے ہیں‘ ہم آپ کو لگا بھی دیتے ہیں‘ چلا بھی دیتے ہیں اور سرکاری ملازمین کو ٹرینڈ بھی کر دیتے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ”آپ فری میں مار کھا رہے ہیں‘ آپ اگر یہ بیچنا چاہ رہے ہوتے تو اب تک حکومت کا کوئی نہ کوئی بروکر سرکار کے دس پندرہ بیس کروڑ روپے کھا چکا ہوتا“۔
نوجوانوںکا کہنا تھا‘ پیسہ ہمارا مقصد نہیں تھا‘ ہم نے یہ کام نیک نیتی سے کیا تھا‘ ہم یہ بیچنا چاہتے ہیں اور نہ حکومت سے کوئی ایوارڈ لینا چاہتے ہیں‘ ہماری خواہش ہے ہماری ایپ سے اگر کوئی ایک بچہ بھی بچ گیا تو ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا‘ میں نے ان کے جذبے کی تعریف کی لیکن دل ہی دل میں کہا‘ یہ نوجوان بے وقوف ہیں‘ یہ گونگوں کے شہر میں میوزک سنٹر بنا رہے ہیں۔ہم ٹیکنالوجی کے دور میں زندہ ہیں‘ ٹیکنالوجی کہاں تک پہنچ چکی ہے آپ چین کے شہر ہانزو کی مثال لے لیجئے۔
ہانزو کی آبادی دو کروڑ دس لاکھ ہے‘ یہ دنیا کا پہلا سمارٹ پولیسنگ شہر ہے‘ حکومت نے شہر میں چالیس ہزار سمارٹ کیمرے لگارکھے ہیں‘ تمام کیمرے 167 پولیس سٹیشنوں کے ساتھ منسلک ہیں‘ شہر میں کوئی شخص جرم کے بعد ان کیمروں سے بچ نہیں سکتا‘ میرے ایک دوست 10 ماہ پہلے ہانزو گئے‘ یہ اپنا موبائل فون ٹیکسی میں بھول گئے ‘ پولیس نے ان سے صرف ایک سوال پوچھا‘ آپ کس وقت اور کہاںٹیکسی سے اترے تھے‘ میرے دوست نے وقت اور جگہ بتا دی۔
پولیس نے یہ دونوں معلومات کمپیوٹر پر ٹائپ کیں اور ٹیکسی اور ڈرائیور کا پورا ڈیٹا کھل گیا‘ وہ ٹیکسی مسافر کو اتارنے کے بعد کہاں کہاں گئی تھی یہ بھی پتہ چل گیا اور ڈرائیور اور اس کے خاندان کے سارے ایڈریسز اور موبائل فون نمبر بھی سامنے آ گئے‘ ڈرائیور اپنا فون بند کر کے گھر چلا گیا تھا‘ پولیس نے پہلے اس کے ذاتی نمبروں پر رابطہ کیا‘ وہ بند ملے تو اس کی بہن کو فون کر کے بتایا‘ تمہارے بھائی نے مسافر کا فون چوری کر لیا ہے‘ اسے جا کر بتاﺅیہ اگر آدھ گھنٹے میں فون کے ساتھ پولیس سٹیشن نہ پہنچا تو ہم اسے گرفتار کر لیں گے۔
میرا دوست یہ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ وہ ڈرائیور آدھ گھنٹے میں فون لے کر تھانے پہنچ گیا‘ اس نے مسافر اور پولیس دونوں سے معافی بھی مانگی‘ میرے دوست نے پولیس سے پوچھا‘ کیا آپ تمام جرائم ان کیمروں کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں‘ پولیس افسر نے بتایا ‘ ہم لوگ پولیس سٹیشن سے باہر نہیں جاتے‘ ہم مجرم کی تصویر‘ نام یا شناختی نشان سسٹم میں ڈالتے ہیں اور چالیس ہزار کیمرے چند لمحوں میں اسے تلاش کر لیتے ہیں‘آپ دیکھ لیجئے دنیا کہاں پہنچ چکی ہے لیکن ہم زینب الرٹ بنانے اور چلانے تک کے روادار نہیں ہیں۔
آپ کسی دن تحقیق کر لیں آپ کو جدید دنیا سسٹم اور ٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم کے تمام دروازے بند کرتی ملے گی‘جدید ملکوں میں رقم ہو یا شخص یہ غائب ہوا نہیں اور پولیس اس کے پیچھے پڑی نہیں‘ یہ ملک پولیس کو محدود اور سسٹم کو وسیع کرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ ہم آج بھی ڈنڈا لے کر گلیوں میں دوڑ رہے ہیں‘ ہم آخر سسٹم کی طرف کیوں نہیں آتے‘ ہم مسائل کا مستقل حل کیوں نہیں نکالتے‘ ہم بالٹی کے سوراخ بند کرنے کی بجائے ٹونٹی پرپراندہ کیوں باندھتے چلے جا رہے ہیں؟ ہم آج کے دور میں بھی جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھانے کے بارے میں کیوں سوچتے رہتے ہیں۔
ہم مسئلے حل کیوں نہیں کر تے؟میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ زینب الرٹ سے ٹیکنالوجی کا آغاز کریں‘ آپ یہ ایپلی کیشن فری لے لیں اور یہ پورے ملک میں نافذ کر دیں‘ ہم اس سے کم از کم فرشتہ جیسی بچیوں کو تو بچا لیں گے‘ یہ ملک کسی ایک شعبے میں ہی سہی چند قدم آگے تو بڑھے گا‘ ہم ٹیکنالوجی کے دور میں تو داخل ہوں گے‘ ہم آخر کتنے پولیس والوں کو معطل کر لیں گے‘ ہم آخر مزید کتنی بچیوں کی قربانیاں دیں گے؟ میں دل سے سمجھتا ہوں فرشتہ کا قاتل اس کا رشتہ دار نہیں ہے‘ ریاست فرشتہ اور اس جیسی ہزاروں بچیوں کی مجرم ہے‘ یہ پوری حکومت قاتل ہے‘ ہم سب کو سزا ملنی چاہیے۔