وہ کچھ بھی نہیں تھا‘ وہ بس ایک عام شخص تھا‘ غریب‘ ناکام اور بے نام‘ باپ روڈنی درمیانے درجے کا ایتھلیٹ تھا‘ وہ بھی زندگی میں کوئی بڑا میڈل حاصل نہیں کر سکا‘ ماں سکول ٹیچر تھی‘ وہ بھی کوئی کمال نہ کر سکی‘ بہن بھی ایک عام سی آسٹریلین لڑکی تھی‘ وہ چاروں نیو ساﺅتھ ویلز کے درمیانے درجے کے شہر گرافٹن کے مضافات میں رہتے تھے‘ گاﺅں بھی گم نام تھا‘ وہ سکول میں بھی اوسط درجے کا طالب علم تھا‘ کبھی اچھے نمبر لے سکا اور نہ کسی نے اس کےلئے تالی بجائی‘
تعلیم سکول سے آگے نہ بڑھ سکی‘ وہ یونیورسٹی تک بھی نہیں پہنچ سکا‘ روزگار کا وقت آیا تو اسے صرف ایک کام آتا تھا‘ وہ ورزش کا ایکسپرٹ تھا‘ جم انسٹرکٹر کا کورس کیا اور گاﺅں کے جم ”بگ ریور“ میں بھرتی ہو گیا‘ وہ 2009ءسے 2011ءتک جم میں کام کرتا رہا‘ والد روڈنی ٹیرنٹ کو کینسر ہوا اور وہ 2010ءمیں فوت ہو گیا‘ والد کی وفات نے اس کی زندگی کی بے مقصدیت بڑھا دی‘ جمع پونجی اکٹھی کی اور وہ ورلڈ ٹور پر نکل گیا‘ وہ یورپ گیا‘ شمالی کوریا‘ بھارت اور جاپان کے وزٹ کئے اور وہ پاکستان بھی آیا‘ پاکستان میں ہنزہ اورنگر کے علاقے اسے بہت پسند آئے‘ وہ پاکستانیوں کی سادگی‘ مہمان نوازی اور گرم جوشی سے بہت متاثر ہوا‘ اس کی زندگی ٹھیک چل رہی تھی لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ سٹاک ہوم میں 7 اپریل 2017ءکو ازبکستان کے شہری رحمت ایکیو لوف نے کوئین سٹریٹ میں سیاحوں پر ٹرک چڑھا دیا‘ پانچ لوگ ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے‘ مرنے والوں میں گیارہ سال کی بچی ایبا بھی شامل تھی‘ رحمت ایکیو لوف نے سویڈن میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی تھی‘ اس کی درخواست مسترد ہو گئی‘ اسے غصہ آ گیا‘ ٹرک اغواءکیا اور سیاحوں پر چڑھا دیا‘ یورپ کے میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ یہ بار بار 11 سال کی بچی ایبا کو دکھاتا تھا‘ میڈیا مسلمان دہشت گردوں کا حوالہ بھی دیتا تھا اور لوگوں کو مسلمانوں سے ہوشیار رہنے کے مشورے بھی دیتا تھا‘ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح یہ خبر بار بار دیکھتا رہا‘
یہ واقعہ اسے دہشت گردی کی تحقیق کی طرف لے گیا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا دنیا میں بے شمار ایسے گورے موجود ہیں جو عام اور گم نام تھے لیکن پھر انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لیا اور وہ تاریخ کا حصہ بن گئے‘ وہ ریسرچ کرتا چلا گیا اور ویانا کے 1683ءکے آسٹرین جوان اس کے سامنے آتے چلے گئے جنہوں نے عثمانی فوجوں کو دوسری بار شکست دی تھی‘ وہ چارلس مارٹل سے بھی واقف ہو گیا جس نے سپین میں مسلمانوں کو ہرایا‘
وہ اس انتونیو بریگیڈن کو بھی جان گیا جس نے وینس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ترک مغویوں کو قتل کر دیا‘ وہ خلافت عثمانیہ کے البانوی باغی سکندر برگ کو بھی جان گیا‘ وہ اس الیگزینڈر بیسونیٹ سے بھی واقف ہو گیا جس نے 2017ءمیں کینیڈا کی مسجد پر حملہ کیا اور 6 مسلمان نمازیوں کو شہید کر دیا اور وہ اس اینٹون لنڈن پیٹرسن کو بھی جان گیا جس نے سویڈن میں دو مہاجر بچے قتل کر دیئے تھے‘ یہ تمام لوگ اس کی طرح گم نام‘ ناکام اور غیر تعلیم یافتہ تھے‘
دنیا ان کے خاندانوں‘ شہروں اور بیک گراﺅنڈ سے واقف نہیں تھی لیکن پھر یہ لوگ باہر نکلے‘ مسلمانوں پر حملے کئے اور پوری دنیا میں مشہور ہو گئے‘ اس تحقیق نے اسے دو نئے راستے دکھا ئے‘ مسلمانوں سے نفرت اور پوری دنیا میں مشہور ہونے کا آسان ترین طریقہ‘ یہ دونوں راستے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پوری شخصیت کو نگل گئے۔آپ جان چکے ہوں گے یہ برینٹن ٹیرنٹ کی کہانی ہے‘ وہ برینٹن ٹیرنٹ جس نے جمعہ 15مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں میں نمازیوں پر حملہ کیا اور 50 لوگوں کو شہیداور48 کوزخمی کر دیا‘
شہداءمیں 9 پاکستانی اور دو سال‘ چار سال اور 13 سال کے بچے بھی شامل تھے‘ یہ شقی القلب شخص آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ آیا‘ کرائسٹ چرچ میں مسجدوں کی ریکی کی‘ گاڑی میں پانچ مشین گنز رکھیں‘ سوشل میڈیا پر اپنا منشور چڑھایا‘ سر پر کیمرہ لگایا‘لائیو کوریج شروع کی اور مسجد کے نہتے اور بے گناہ مسلمانوں پر گولیاں برسانا شروع کر دیں‘ نمازیوں نے جان بچانے کےلئے باہر کی طرف دوڑ لگائی ‘ یہ پیچھا کرتا ہوا پارکنگ تک آیا‘ یہ تین بار مسجد میں گیا اور تین بار نمازیوں پر گولیاں برسائیں‘
ٹیرنٹ نے ایک نمازی کو قریب پہنچ کر بھی گولیوں سے چھلنی کیا‘ یہ النور مسجد کے بعد لن ووڈ کی مسجد میں پہنچا اور اس نے 8 نمازیوں کو وہاں بھی گولی مار دی‘ یہ ہولناک واقعہ تھا اور اس واقعے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ پوری دنیا سکتے میں چلی گئی‘ یہ واقعہ ہونا تھا اور ہو گیا لیکن یہ اپنے پیچھے بے شمار نکتے چھوڑ گیا‘ میرا خیال ہے دنیا بالخصوص مغربی دنیا کو اب ان نکتوں کے بارے میں سوچنا چاہیے‘ یہ سوچ دنیا کو بچا سکے گی ورنہ برینٹن ٹیرنٹ جیسے لوگ جنت جیسی اس دنیا کو دوزخ بنا دیں گے‘
وہ نکتے کیا ہیں‘ آئیے ہم ان پر غور کرتے ہیں‘ پہلا نکتہ دہشت گردی ہے‘ دنیا کا خیال تھا مسلمان دہشت گرد ہیں‘ یہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور افغانستان‘ عراق اور پاکستان ان دہشت گردوں کی نرسریاں ہیں لیکن برینٹن ٹیرنٹ نے ثابت کر دیا دہشت گرد گورے بھی ہو سکتے ہیں‘ یہ آسٹریلیا جیسے جدید ترین ملکوں میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ نیوزی لینڈ جیسے ملکوں کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں‘ اس شخص نے ثابت کر دیا دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا شہریت نہیں ہوتی‘
یہ لوگ کہیں بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ کہیں بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ دوسرا نکتہ دہشت گردوں کا کھوج ہے‘ مغربی دنیا ہمیشہ پاکستان جیسے ملکوں پرالزام لگاتی تھی تم اپنی صفوں میں چھپے دہشت گردوں کا اندازہ نہیں لگا پاتے‘ یہ پاکستانیوں کے ای میل اور سوشل میڈیا اکاﺅنٹ تک کھنگال لیتے تھے لیکن برینٹن ٹیرنٹ سال بھر دہشت گردی کا ڈیٹاسرچ کرتا رہا‘ اس نے 5 رائفلیں خریدیں‘ گولیاں لیں اور وہ رائفلوں پر اپنے دہشت گرد ہیروز کے نام بھی لکھتا رہا لیکن آسٹریلیا جیسے جدید ترین ملک کی خفیہ ایجنسیاں اس کے عزائم سے واقف نہ ہو سکیں‘ وہ کسی ادارے کی نظر میں نہیں آیا‘
یہ نکتہ ثابت کرتا ہے پاکستان ہو یا آسٹریلیا دنیا کا کوئی ملک دہشت گردوں کا اندازہ نہیں کرپاتا‘ برینٹن ٹیرنٹ نے یہ واردات فیس بک پر لائیو آ کر کی‘ وہ20منٹ لائیو رہا اور پوری دنیا اسے مسلمانوں کو قتل کرتے دیکھتی رہی لیکن وہ فیس بک اور ٹویٹر سمیت سوشل میڈیا کے کسی الرٹ سسٹم میں نہیں آسکا‘ وہ لائیو بھی رہا اور لوگ گھنٹوں اس کی فوٹیج ایک دوسرے کو بھجواتے بھی رہے لیکن سوشل میڈیا کمپنیاں فوٹیج روک سکیں اور نہ ہی لائیو کوریج‘ اس نکتے نے سوشل میڈیا کے حفاظتی اقدامات کی قلعی بھی کھول دی‘
تیسرا نکتہ ہم ہمیشہ یورپ کے سسٹم کی مثال دیتے ہیں‘ میں خود بھی یورپی نظام کا بہت بڑا وکیل ہوںلیکن کرائسٹ چرچ کے واقعے نے اس سسٹم کا ملمع بھی اتار دیا‘ برینٹن ٹیرنٹ نے جس وقت النور مسجد میں گولیاں چلانا شروع کیں‘ پاکستانی شہری سردار فیصل عباس اس وقت وضو کر رہا تھا‘ وہ فوری طور پر وضو خانے سے نکلا اور اس نے ٹیلی فون پر پولیس سٹیشن کو اطلاع دی‘ پولیس سٹیشن مسجد سے تین چار منٹ کے فاصلے پر تھا‘ ترقی یافتہ ملکوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے پولیس تین سے چار منٹ میں موقع واردات پر پہنچ جاتی ہے لیکن برینٹن ٹیرنٹ مسجد میں گولیاں برساتا رہا‘ وہ تین بار مسجد کے اندر اور باہر گیا‘
وہ پورے اطمینان کے بعد گاڑی میں بیٹھا اور دوسری مسجد کی طرف نکل گیا‘ اس نے وہاں بھی فائرنگ کی لیکن پولیس نہیں پہنچی‘ پولیس واقعے کے 20منٹ بعد موقع واردات پر آئی چنانچہ ثابت ہو گیا دہشت گردی کے بعد تیسری دنیا اور پہلی دنیا کی پولیس میں کوئی فرق نہیں ہوتا‘یہ دونوں جوتے تلاش کرتے رہتے ہیں‘ چوتھا نکتہ جدید دنیا ہم جیسے ملکوں کو غیر محفوظ قرار دیتی تھی‘ یہ ملک اپنے شہریوں کو پاکستان‘ افغانستان‘ عراق اور شام کے دوروں سے روکتے تھے‘
نیوزی لینڈ کے واقعے نے ثابت کر دیا نیوزی لینڈ ہو‘ آسٹریلیا ہو یا پھر پاکستان ہو دنیا کا کوئی ملک اب محفوظ نہیں‘ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اور مسلمان ہوں یا عیسائی دنیا کے تمام لوگ غیر محفوظ ہیں اور آخری نکتہ دنیا کو اب مسلمانوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا خطرہ اسے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی جیسے لوگوں سے ہے‘ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کو جہنم بنا رہے ہیں‘ڈونلڈ ٹرمپ اگرمسلمانوں کے خلاف بات کریں گے یا نریند مودی کشمیریوں کی لاشوں کو گلیوں میں گھسیٹے گا تو پھر دنیا میں امن کیسے قائم ہو گا؟۔
دنیا کو اب شدت پسند لوگوں سے نبٹنا ہوگاوہ شدت پسند گورے ہوں‘ کالے ہوں یا پھر ہماری طرح براﺅن ہوں‘دنیا کو اب مذہب‘شہریت اور رنگ ونسل سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا ہوگا‘یہ مکالمہ اگر نہ ہوا اور دنیا نے اگر رنگ ونسل سے بالاتر ہو کر دہشت گرد کو دہشت گرد نہ سمجھا تو انسانیت فیل ہو جائے گی‘پوری دنیا فیل سٹیٹ بن جائے گی‘ ہمیں اب یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی انسانیت اس وقت فیل سٹیٹس کے درمیان کھڑی ہے‘ دنیا میں اب افغانستان اور نیوزی لینڈ میں کوئی فرق نہیں رہا‘ برینٹن ٹیرنٹ اور اسامہ بن لادن دونوں ایک ہیں۔