اسلام آباد (نیوز ڈیسک)پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فوجی محاذ آرائی نے دونوں ممالک کے درمیان برسوں سے قائم رہنے والے غیر اعلانیہ اصولوں اور حدود کو ماضی کا قصہ بنا دیا ہے۔ 7 مئی کو علی الصبح بھارت نے پاکستانی سرزمین پر کئی فضائی حملے کیے، جنہیں دہلی نے مبینہ “دہشت گردوں کے ٹھکانے” قرار دیا۔
بھارت کا دعویٰ تھا کہ ان حملوں کا مقصد پہلگام (مقبوضہ کشمیر) میں 26 افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینا تھا، جس کا الزام نئی دہلی نے پاکستان پر عائد کیا، تاہم اسلام آباد نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان چار دن تک ڈرونز اور میزائلوں کی شدید لڑائی جاری رہی، جس میں ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ فریقین کی جانب سے بڑے پیمانے پر نقصان کے دعوے کیے گئے، لیکن ابتدائی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نقصان محدود نوعیت کا رہا۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کشیدگی نے ایک خطرناک روایت قائم کر دی ہے، جس سے یہ اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ مستقبل میں کسی بھی چھوٹے واقعے کی صورت میں مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے وابستہ سینیئر تجزیہ کار پروین ڈونتھی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک اس وقت ایک انتہائی نازک توازن میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں سفارتی راستے تقریباً بند ہو چکے ہیں اور عسکری جھڑپوں کا امکان مزید بڑھ گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس بار دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے اہم اور شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا، جیسے کہ پنجاب، لاہور اور کراچی میں ڈرون حملے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ماضی کی وہ سرخ لکیریں جو کبھی عبور نہ کی گئیں، اب مٹ چکی ہیں۔پاکستان نے اپنی کارروائی کو “آپریشن بنیان مرصوص” کا نام دیا اور بھارتی فضائی اڈوں جیسے پٹھان کوٹ، آدم پور اور بھُج کو نشانہ بنایا۔
جواب میں بھارت نے راولپنڈی، چکوال اور شورکوٹ میں پاکستانی اہداف کو نشانہ بنایا۔ دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے حملے ناکام بنانے کے دعوے کیے، تاہم دونوں جانب کچھ تنصیبات کو نقصان پہنچنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ سارا معاملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بھارت اب ایک نئی دفاعی حکمت عملی اپنا رہا ہے، جس کے تحت کسی بھی حملے کا جواب سخت اور فوری دیا جائے گا۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستانی فوجی اڈوں پر براہ راست حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب دہلی اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی لا چکا ہے۔2003 اور 2021 کی جنگ بندیوں کے باوجود موجودہ تناؤ نے واضح کر دیا ہے کہ چھوٹی سی فوجی جھڑپ بھی بڑے پیمانے کی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ پروین ڈونتھی کا کہنا ہے کہ اب جب کہ کسی قسم کا حفاظتی توازن باقی نہیں رہا، کوئی تیسری قوت ان نازک حالات کو مزید بگاڑ کر خطے کو کھلی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حالیہ کشیدگی نے جنوبی ایشیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی بھی اقدام، جنگ کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔