جون ایلیا اردو شاعری کے اوتار تھے‘ وہ شعر نہیں کہتے تھے وہ شعر کو جنم دیتے تھے‘ آپ ان کا کوئی شعر پڑھ لیں‘ آپ کو یہ صرف دو مصرعوں کا جوڑ محسوس نہیں ہو گا‘ آپ اسے حدیث دل اور آیت خیال پائیں گے‘ آپ اگر اردو سیکھنا اور اردو شاعری کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ صرف جون ایلیا کو پڑھ لیں آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔مجھے پچھلے دنوں جون ایلیا کا ایک فقرہ پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ حضرت جون نے فرمایا ”ہم
ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کر رہے“ میں نے جب سے یہ فقرہ پڑھا‘ میں اس وقت سے سرور میں ہوں‘ میں اس وقت سے جذب و مستی میں ہوں‘ کتنا بڑا سچ ہے اور جون ایلیا نے اس سچ کو کس سادگی کے ساتھ 18لفظوں میں بیان کر دیا‘ واہ سبحان اللہ‘ استاد بہرحال استاد ہوتا ہے اور لاکھوں شاگرد مل کر بھی ایک استاد کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور جون ایلیا نے یہ فقرہ لکھ کر خود کو استاد ثابت کر دیا‘ ہم نے واقعی ہزار سال میں جنگوں کے سوا کچھ نہیں کیا‘ آپ 2018ء سے ہزار سال پیچھے چلے جائیے‘ آپ کو محمود غزنوی ہندوستان پر حملے کرتا ملے گا‘ آپ سپین میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا گلہ کٹتے دیکھیں گے‘آپ کو ترکی میں سلجوق تلواریں اٹھا کر پھرتے نظر آئیں گے‘ آپ کو عرب میں لاشیں بکھری ملیں گی‘ شیعہ سنی اور سنی شیعہ کے سر اتارتے نظر آئیں گے‘ مسلمان مسلمان کو فتح کر رہا ہو گا‘ مسلمان مسلمانوں کی مسجدیں جلاتے دکھائی دیں گے اورآپ مومن کے ہاتھوں مومنوں کے سروں کے مینار بنتے دیکھیں گے‘ آپ 1018ء سے آگے آتے چلے جائیں‘ آپ کے سارے طبق روشن ہوتے چلے جائیں گے‘ آپ کو مسلمان مسلمان کو قتل کرتے اور قتال کے درمیانی وقفے میں حرام خوری کرتے نظر آئیں گے‘ ہم نے اپنی 14 سو سالہ تاریخ میں اغیار کو اتنا فتح نہیں کیا جتنا ہم ایک دوسرے کو فتح کرتے رہے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی مسلمانوں نے عالم اسلام کا 95 فیصد
علاقہ اسلامی عروج کی پہلی صدی میں فتح کر لیا تھا‘ مسلمان اس کے بعد ساڑھے تیرہ سو سال اس علاقے کیلئے ایک دوسرے سے لڑتے رہے‘ ہمارے علم‘ فلسفے‘ سائنس اور ایجادات کی 95 فیصد تاریخ بھی ابتدائی تین سو سال تک محدود تھی‘ ہم نے اس کے بعد باقی ہزار سال تک حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کیا‘ عالم اسلام ہزار سال سے نیل کٹڑ سے لے کر کنگھی تک ان لوگوں کی استعمال کر رہا ہے جنہیں ہم دن میں پانچ بار بددعائیں دیتے ہیں‘ آپ کمال دیکھئے‘
ہم مسجدوں میں یہودیوں کے پنکھے اور اے سی لگا کر‘ عیسائیوں کی ٹونٹیوں سے وضو کر کے‘ کافروں کے ساؤنڈ سسٹم پر اذان دے کر اور لادینوں کی جائے نمازوں پر سجدے کر کے ان سب کی بربادی کیلئے بددعائیں کرتے ہیں‘ ہم ادویات بھی یہودیوں کی کھاتے ہیں‘ بارود بھی کافروں کا استعمال کرتے ہیں اور پوری دنیا پر اسلام کے غلبے کے خواب بھی دیکھتے ہیں‘
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی ہم خود کو دنیا کی بہادر ترین قوم سمجھتے ہیں لیکن ہم نے پچھلے پانچ سو برسوں میں کافروں کے خلاف کوئی بڑی جنگ نہیں جیتی‘ ہم پانچ صدیوں سے مار اور صرف مار کھا رہے ہیں‘ پہلی جنگ عظیم سے قبل پورا عرب ایک تھا‘ یہ خلافت عثمانیہ کا حصہ ہوتا تھا‘ یورپ نے 1918ء میں عرب کو12ملکوں میں تقسیم کر دیا اور دنیا کی بہادر ترین قوم دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی‘ برطانیہ نے عربوں کی زمین چھین کر اسرائیل بنایا اور ہم رونے دھونے اور یوم القدس منانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے‘
ہم اگر جنگجو تھے‘ ہمارا اگر لڑنے کا چودہ سو سال کا تجربہ تھا تو ہم کم از کم لڑائی ہی میں ”پرفیکٹ“ ہو جاتے اور کم از کم دنیا کے ہر ہتھیار پر ”میڈ بائی مسلم“ کی مہر ہی لگ جاتی اور ہم اگر دنیا کے بہادر ترین فوجی ہی تیار کر لیتے تو ہم آج مار نہ کھا رہے ہوتے‘ آج کم از کم عراق‘ لیبیا‘ مصر‘ افغانستان اور شام انسانی المیہ نہ بن رہے ہوتے۔آپ اسلامی دنیا کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے‘ ہم لوگ آج یورپی بندوقوں‘ ٹینکوں‘ توپوں‘ گولوں‘ گولیوں اور امریکی جنگی جہازوں کے بغیر خانہ کعبہ کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے‘
ہماری تعلیم کا حال یہ ہے دنیا کی 100 سو بڑی یونیورسٹیوں کی فہرست میں اسلامی دنیا کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں آتی‘ساری اسلامی دنیا مل کر جتنے ریسرچ پیپر تیار کرتی ہے وہ امریکا کے ایک شہر بوسٹن میں ہونے والی ریسرچ کا نصف بنتا ہے‘ پوری اسلامی دنیا کے حکمران علاج کیلئے یورپ اور امریکا جاتے ہیں‘ یہ اپنی زندگی کا آخری حصہ یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں گزارنا چاہتے ہیں‘ دنیا کی نوے فیصد تاریخ اسلامی ملکوں میں ہے لیکن اسلامی دنیا کے نوے فیصد خوشحال لوگ سیاحت کیلئے مغربی ملکوں میں جاتے ہیں‘
ہم نے پانچ سو سال سے دنیا کو کوئی دواء‘ کوئی ہتھیار‘ کوئی نیا فلسفہ‘ کوئی خوراک‘ کوئی اچھی کتاب‘ کوئی نیا کھیل اور کوئی اچھا قانون نہیں دیا‘ ہم نے اگر ان پانچ سو برسوں میں کوئی اچھا جوتا ہی بنا لیا ہوتا تو ہمارا فرض کفایہ ادا ہو جاتا‘ ہم ہزار برسوں میں صاف ستھرا استنجہ خانہ نہیں بنا سکے‘ ہم نے موزے اور سلیپر اور گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم لباس تک نہیں بنایا‘ ہم نے اگر قرآن مجید کی اشاعت کیلئے کاغذ‘ پرنٹنگ مشین اور سیاہی ہی بنا لی ہوتی تو ہماری عزت رہ جاتی‘
ہم تو خانہ کعبہ کے غلاف کیلئے کپڑا بھی اٹلی سے تیار کراتے ہیں‘ ہم تو حرمین شریفین کیلئے ساؤنڈ سسٹم بھی یہودی کمپنیوں سے خریدتے ہیں‘ ہمارے لئے آب زم زم بھی کافر کمپنیاں نکالتی ہیں‘ ہماری تسبیحات اور جائے نمازیں بھی چین سے آتی ہیں اور ہمارے احرام اور کفن بھی جرمن مشینوں پر تیار ہوتے ہیں‘ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان صارف سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے‘ یورپ نعمتیں ایجاد کرتا ہے‘ بناتا ہے‘
اسلامی دنیا تک پہنچاتا ہے اور ہم استعمال کرتے ہیں اور اس کے بعد بنانے والوں اور ایجاد کرنے والوں کو آنکھیں نکالتے ہیں‘ آپ یقین کیجئے جس سال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے سعودی عرب کو بھیڑیں دینے سے انکار کر دیا اس سال مسلمان حج پر قربانی نہیں کر سکیں گے اور جس دن یورپ اور امریکا نے اسلامی دنیا کو گاڑیاں‘ جہاز اور کمپیوٹر بیچنا بند کر دیئے ہم اس دن گھروں میں محبوس ہو کر رہ جائیں گے‘ ہم شہر میں نہیں نکل سکیں گے‘ یہ ہیں ہم اور یہ ہے ہماری اوقات لیکن آپ کسی دن اپنے دعوے سن لیں‘
آپ ان نوجوانوں کے نعرے سن لیں جو میٹرک کا امتحان پاس نہیں کر سکے‘ جنہیں پیچ تک نہیں لگانا آتا اور جس دن ان کے بوڑھے والد کی دیہاڑی نہ لگے اس دن ان کے گھر چولہا نہیں جلتا‘ آپ ان کے نعرے‘ ان کے دعوے سن لیجئے‘ یہ لوگ پوری دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں‘ یہ اغیار کو نیست ونابود کرنا چاہتے ہیں‘ آپ اپنے علماء کرام کی تقریریں بھی سن لیجئے‘ یہ اپنے مائیک کی تار ٹھیک نہیں کر سکتے‘ یہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کا نام بھی اپنے مریدوں تک مارک زکر برگ کی فیس بک کے ذریعے پہنچاتے ہیں‘
یہ لوگوں کو تھوکنے کی تمیز تک نہیں سکھا سکے‘ یہ آج تک ابن تیمیہ‘ ابن کثیر‘ امام غزالی اور مولانا روم سے آگے نہیں بڑھ سکے‘ پورے عالم اسلام میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو ابن عربی کو سمجھنے کا دعویٰ کر سکے‘ ابن ہشام اور ابن اسحاق بھی ہم تک آکسفورڈ پرنٹنگ پریس کے ذریعے پہنچے تھے اور ابن رشد بھی ہمیں یورپ کے سکالرز نے سمجھایا تھا لیکن آپ علماء کرام کی تقریریں سن لیں آپ کو محسوس ہو گا نعوذ باللہ‘ نعوذ باللہ پوری کائنات کا نظام مولانا اللہ دتہ چلا رہے ہیں‘
یہ جس دن حکم دے دیں گے اس دن سورج طلوع نہیں ہوگا اور یہ جس دن فرما دیں گے اس دن زمین پر اناج نہیں اگے گا‘ ہم نے آخر آج تک کیا کیا ہے؟ ہم کس برتے پر خود کو دنیا کی عظیم ترین قوم سمجھتے ہیں! مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ہم اگر دل پر پتھر رکھ کر یہ حقیقت مان لیں تو پھر ہمیں پتہ چلے گا ہماری حرام خوری ہمارے جینز کا حصہ بن چکی ہے‘ آپ اپنے اردگرد نظر ڈالئے‘ آپ کو پاکستان کے ہر خاندان میں کوئی ایک شخص کام کرتا دکھائی دے گا‘
وہ پورے خاندان کی ضروریات پوری کر رہا ہو گا‘ باقی لوگ اس کے بچھائے دستر خوان پر حرام خوری بھی کر رہے ہوں گے اور اسے گالیاں بھی دے رہے ہوں گے‘ آپ کسی دن اس خاندان کے حرام خوروں کی گفتگو سن لیں‘ آپ کو یہ لوگ یہ کہتے ہوئے ملیں گے ”آخر اس نے ہمارے لئے کیا کیا ہے؟“ آپ کو پورے شہر میں کوئی ایک شخص ترقی کرتا ملے گا اور پورا شہر اسے گالیاں دے رہا ہو گا‘ ہمارے ڈیڑھ لاکھ افسروں میں دس سال میں کوئی ایک کام کا افسر پیدا ہوتا ہے اور پھر پورا ملک اسے پکڑ کر پھینٹی لگاتا ہے‘
آپ کسی دن ملک کے محسنوں کی تاریخ بھی نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ سردار نشتر‘ خواجہ ناظم الدین‘ راجہ صاحب محمود آباد‘ ایوب خان‘ ڈاکٹر عبدالقدیر اور عبدالستار ایدھی تک ملک کے ہر محسن کی آنکھوں میں آنسو ملیں گے‘ آپ کو ملک کا ہر وہ شخص دکھی ملے گا جس نے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری سے انکار کر دیا تھا‘ جس نے قوم کو قوم بنانے کی غلطی کر دی تھی‘ اسلامی دنیا ہزار سال سے یہ غلطی دوہرا رہی ہے اور ہم پاکستانی مسلمان ستر سال سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں‘
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں ہم نے آج تک ملک توڑنے والوں کا احتساب نہیں کیا‘ ہم نے کارگل کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا‘ ہم نے آج تک شوکت عزیز جیسے ان لوگوں کو بھی طلب نہیں کیا جو باہر سے آئے‘ وزیراعظم بنے‘ شیروانی اتاری اور واپس چلے گئے اور ہم نے آج تک ان لوگوں سے بھی حساب نہیں مانگا جنہوں نے پوری زندگی تنکا دوہرا نہیں کیا لیکن ہم حرام خوری کے اس دسترخوان پر کھانے کی ایک ڈش رکھنے والوں کو عبرت کی نشانی بنا رہے ہیں‘ ہم ان کا احتساب کر رہے ہیں‘ ہم واقعی سچے اور کھرے مسلمان ہیں۔