ذوالفقار علی بھٹو مزدوروں‘ کسانوں اور نچلے درجے کے ملازموں کو اپنا سیاسی اثاثہ سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے ان لوگوں کیلئے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے اور اس ”سب کچھ“ میں ایمپلائرز اولڈ ایج بینفٹ انسٹی ٹیوشن کا قیام بھی شامل تھا‘ یہ ادارہ عرف عام میں ای او بی آئی کہلاتا ہے‘ یہ ادارہ مقاصد کے لحاظ سے شاندار تھا‘ قانون کے مطابق ملک کے تمام پرائیویٹ ادارے اپنے تمام ملازمین کی تنخواہوں کا ایک
حصہ ای او بی آئی میں جمع کراتے تھے‘ حکومت اس حصے کے برابر اپنی طرف سے رقم جمع کرادیتی تھی‘ اس رقم سے سرمایہ کاری کی جاتی تھی‘ پیسے سے پیسہ بنتاتھا اور یہ پیسہ آخر میں ان لوگوں کو واپس کر دیا جاتا تھا جن کی تنخواہوں سے کٹتا تھا‘ پرائیویٹ ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد اس فنڈ سے سرکاری ملازمین کے برابر پنشن ملتی تھی‘ یہ اگر دوران ملازمت معذور ہو جاتے تھے تو انہیں اس فنڈ سے باعزت معذوری وظیفہ بھی ملتا تھا اور یہ اگر انتقال کر جاتے تھے تو ان کے خاندان کو ان کی تنخواہ کے برابر ماہانہ امداد ملتی رہتی تھی‘ ای او بی آئی میں رجسٹرڈ تمام ملازمین پندرہ سال کے بعد پینشن کے اہل ہو جاتے تھے‘ 1976ء سے اب تک71 لاکھ 38 ہزار مزدور اس ادارے میں رجسٹر ہو ئے‘ یہ ایک شاندار ادارہ تھا لیکن یہ ادارہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکی اداروں کی طرح زوال کا شکار ہوتا چلا گیا‘ ادارے کو پہلی زک سیٹھوں نے پہنچائی‘ یہ اپنے ملازمین کو پورے حقوق نہیں دینا چاہتے تھے‘ یہ اپنے صرف دس فیصد ملازمین کو ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کراتے تھے جبکہ ادارے کو دوسرا نقصان حکومت نے پہنچایا‘ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں 1995ء میں حکومت نے اپنا شیئر بند کر دیایوں یہ ادارہ آہستہ آہستہ سسکنے لگا لیکن یہ اس کے باوجود ملک کا امیر ترین ادارہ تھا‘ یہ ملک بھر میں 238 ارب روپے کی جائیداد اور 150 ارب روپے کے نقد
فنڈز کا مالک تھا‘ یہ فنڈز اور یہ جائیدادیں 2009ء تک محفوظ رہیں لیکن پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا تیسرا دور آگیا اور یہ فنڈز اور یہ جائیدادیں گوندل فیملی کے ہتھے چڑھ گئیں۔ہم آگے چلنے سے قبل گوندل فیملی کا جائزہ لیں گے‘ گوندل منڈی بہاؤ الدین سے تعلق رکھتے ہیں‘ نذر محمد گوندل پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈائی ہارٹ جیالے تھے‘ یہ دو بار پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے‘ یہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ضلع ناظم بھی رہے‘یہ ندیم افضل چن کے قریبی رشتہ دار ہیں‘
چن فیملی بھی علاقے میں انتہائی بااثر ہے‘نذر گوندل کے ایک بھائی ظفر محمد گوندل نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ممبر تھے‘ یوسف رضا گیلانی کی حکومت آئی تو نذر محمد گوندل خوراک و وزراعت کے وفاقی وزیر بن گئے‘ وزارت کے دوران نذر محمد گوندل پر کرپشن کے بے شمار الزامات لگے‘ ان پر رشوت کے الزامات بھی لگے‘ اختیارات سے تجاوز اور اقرباء پروری کا الزام بھی لگا‘ گوندل صاحب نے 61 لوگ میرٹ کے بغیر بھرتی کئے اور یہ درجنوں سرکاری لگژری گاڑیاں بھی اپنے خاندان میں بانٹتے پائے گئے‘
دوسری طرف ان کے بھائی ظفر محمد گوندل نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں نوٹوں کی فیکٹری لگا دی‘ ظفر گوندل کی کرپشن کی داستانیں اتنی عام ہو گئیں کہ یوسف رضا گیلانی بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گئے‘ گیلانی صاحب نے انہیں این ایچ اے سے ہٹا دیا‘ نذر محمد گوندل آگے آئے‘ وزیراعظم سے ملے‘ اپنی پورا زور لگایا‘ ایوان صدر سے فون کرایا اور ظفر گوندل کو ای او بی آئی کا چیئرمین لگوا دیا اور یہاں سے عجب کرپشن کی غضب کہانی شروع ہو گئی‘
ظفر محمد گوندل نے ”ای او بی آئی“میں اتنی کرپشن کی کہ کرپشن کو بھی شرم آ گئی‘ ظفر گوندل نے ملک کے مختلف شہروں میں پندرہ گنا زیادہ قیمت پر ای او بی آئی کیلئے جائیدادیں خریدنا شروع کر دیں‘ بورڈ آف ٹرسٹیز کے بغیر ڈی ایچ اے سے معاہدہ کیا‘ اسلام آباد میں دگنی قیمت پر کراؤن پلازہ خرید لیا‘ سی ڈی اے سے مہنگے پلاٹ اٹھا لئے‘ لاہور اور کراچی میں ہوٹل اور زمینیں خریدلیں‘ موٹروے کی ایم نائین کی تعمیر میں اربوں روپے سمیٹے اور نوکریاں بیچنا شروع کر دیں‘
ظفر گوندل نے شوکت ترین کے بینک سلک بینک میں 37 کروڑ اور شیری رحمان کے شوہر کے بینک تعمیر مائیکرو فنانس میں 41 کروڑروپے جمع کرا دیئے‘ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تھا‘ ظفر گوندل کا طریقہ کار بہت دلچسپ تھا‘ یہ پراپرٹی پسند کرتے تھے‘ اسے مارکیٹ سے دوگنا‘ تین گنا اور بعض اوقات 15گنا قیمت پر خرید لیتے تھے‘ مالک کو اصل قیمت سے سوا یا ڈیڑھ گنا زیادہ رقم دیتے تھے اور باقی رقم اپنی جیب میں ڈال لیتے تھے‘ یہ سمارٹ آدمی ہیں‘
یہ اس دور میں ہراس شخص کو شریک جرم بناتے رہے جس کے اقتدار میں آنے کا امکان تھا‘ مثلاً یہ چند سودوں میں یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں کے پارٹنر تھے‘ یہ چودھری صاحبان کے صاحبزادوں بالخصوص مونس الٰہی کے پارٹنر بھی رہے‘ انہوں نے لاہور میں علیم خان سے بھی پلازہ خریدا اور یہ خواجہ سعد رفیق کے ایک پارٹنر کے بھی پارٹنر رہے اور وہ پارٹنر آگے چل کر علیم خان کابھی پارٹنر تھا‘ یہ ڈی ایچ اے کے ساتھ بھی سودے کرتے رہے اور یہ اسلام آباد میں فیصل سخی بٹ کے ساتھ بھی حصہ داررہے اور یہ کراچی میں ایم کیو ایم کی ”مدد“ بھی کرتے رہے‘
ظفر محمد گوندل کے خلاف 29 جون 2013ء کو سوموٹو نوٹس ہوا‘ نیب ایکٹو ہوا اور ان کے خلاف کرپشن کے 18 مقدمات بن گئے‘ ان پر خزانے کو 42 ارب روپے نقصان پہنچانے کا الزام تھا‘ یہ اس کے بعد فرار ہوتے رہے‘ گرفتار ہوتے رہے‘ لوگوں کو خریدتے رہے‘ پھنستے رہے‘ بچتے رہے یہاں تک کہ یہ 23 ستمبر 2014ء کو سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر ہو گئے‘ ظفر گوندل کی گرفتاری کے بعد نیا سلسلہ شروع ہو گیا‘ نذر محمد گوندل نے خواجہ سعد رفیق سے مدد طلب کی لیکن سعد رفیق نے انکار کر دیا‘
یہ اس کے بعد ندیم افضل چن کے ساتھ وزیر داخلہ چودھری نثار کے پاس گئے‘ چودھری نثار نے ان کی مدد کی حامی بھر لی‘ گوندل فیملی نے اپنی مرضی کی عدالت اور اپنی مرضی کے جج کے سامنے درخواست دی‘ ظفر گوندل کی ضمانت ہوئی‘ ایف آئی اے اس ضمانت پر خاموش رہا اور یوں ظفر گوندل اپنے گھر چلے گئے‘ یہ آج کل اسلام آباد میں اپنے فارم ہاؤس میں مزے سے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ان کی فائلیں نیب میں اس نئے پاکستان کا راستہ دیکھ رہی ہیں جس میں ملک کے ہر کرپٹ شخص کی گردن پر شکنجہ کسا جائے گا۔
یہ نذر محمد گوندل 6مئی 2017ء تک پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے تھے‘ یہ ببانگ دہل فرمایا کرتے تھے ”پیپلز پارٹی نے غریب عوام کو عزت دی‘ بھٹو شہید نے سیاست کو جاگیرداروں اور امراء کے ڈرائنگ روموں سے نکال کر غریبوں کی جھونپڑیوں میں پہنچا دیا“ یہ فرمایا کرتے تھے ”پیپلز پارٹی ایک تحریک کا نام ہے جس کا ہر کارکن بلاول بھٹو اور بختاور بھٹو ہے‘ ملک کا ایک طبقہ اقتدار کی آسائشوں کے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے اپوزیشن کی تکلیفیں بھی برداشت کیں اور یہ ثابت قدم بھی رہے“ یہ فرمایا کرتے تھے ”عوام اپنے ووٹوں سے اگلی واری فیر زرداری کا نعرہ سچ ثابت کریں گے“ لیکن یہ 6 مئی 2017ء کو اپنے یہ تمام دعوے‘ یہ سارے اصولی موقف گٹھڑی میں باندھ کر نتھیا گلی تشریف لے گئے‘
عمران خان نے ان کے گلے میں پارٹی کا پرچم ڈالا اور یہ اس ٹیم میں شامل ہو گئے جس نے پھٹے پرانے پاکستان کو نیا پاکستان بنانا ہے‘ جس نے ملک کو کرپشن فری کرنا ہے اور جس نے ملک میں میرٹ قائم کرنا ہے‘ میں نذر محمد گوندل کی اصول پسندی‘ ایمانداری اور وفاداری اور عمران خان کے وژن‘ ان کے جذبے اور ملک کے روشن مستقبل کو سلام پیش کرتا ہوں‘ ملک کا مستقبل واقعی روشن ہے‘ ہماری سمت سو فیصد درست ہے ہم بہت جلد نذر محمد گوندل‘ فردوس عاشق اعوان‘ نور عالم‘بابر اعوان‘ مصطفی کھر‘ اشرف سوہنا‘ صمصام بخاری‘بیرسٹر سلطان محمود‘عامر ڈوگر‘ یار محمد رند اورفواد چودھری جیسے لوگوں کی مدد سے شریف فیملی کے تین فلیٹوں کا حساب کریں گے‘
یہ لوگ ملک میں ایسے کٹہرے بنائیں گے جن میں ہم پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کرپٹ لیڈروں کو کھڑا کریں گے‘ یہ لوگ نئے پاکستان میں میرٹ قائم کریں گے‘ یہ مریدوں اور پیروں کو برابر کر دیں گے‘ یہ پولیس کو آزاد کر دیں گے اور یہ نیب کو خود مختاری دے دیں گے‘ یہ ایسا ”اوپر“ ثابت ہوں گے جو نیچے سے سارا سسٹم ٹھیک کر دے گا‘ میری عمران خان سے درخواست ہے اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو اقتدار دیا تو آپ نذر محمد گوندل کو چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیجئے گا‘ ظفر گوندل کو چیئرمین نیب لگا دیجئے گا‘ فردوس عاشق اعوان کو وزیر داخلہ بنا دیجئے گا‘
نور عالم کو الیکشن کمیشن کا چیئرمین بنا دیجئے گا‘ بابر اعوان کو وزیر قانون بنا دیجئے گا‘ مصطفیٰ کھر کو پنجاب کا گورنر لگا دیجئے گا‘ صمصام بخاری کو وزیر خزانہ لگا دیجئے گا‘ بیرسٹر سلطان کو وزیراعظم آزاد کشمیر بنا دیجئے گا اور فواد چودھری کو اٹارنی جنرل بنا دیجئے گا‘ قائداعظم کاخواب ایک ہی رات میں شرمندہ تعبیر ہو جائے گا‘ یہ پھٹا پرانا پاکستان نیا نکور پاکستان ہو جائے گا اور اگر کوئی کسر رہ گئی تو میرے بڑے بھائی قمر زمان کائرہ پوری کر دیں گے‘ یہ ندیم افضل چن کے ساتھ مل کر ملک کی سمت تیر کی طرح سیدھی کر دیں گے پھر پاکستان میں کوئی نقص‘ کوئی خامی نہیں رہے گی‘ ملک میزائل کی طرح اوپر چلا جائے گا‘بہرحال قوم کو نیا پاکستان مبارک ہو۔